Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان بلڈ ڈونرز ان کویت نے نواں کیمپ منعقد کیا

 
کویتی، مصری، فلپائنی ، شامی، اردنی، صومالی، جنوبی افریقہ اور ہند کے تارکین بھی شریک ہوئے
 
کویت(عرفان شفیق( پاکستان بلڈ ڈونرز ان کویت نے 9واں بلڈ ڈونیشن کیمپ اسلامک ایجوکیشن کمیٹی (یوتھ ونگ) ، کویت تھیلیسمیا لیگ، کویت سینٹرل بلڈ بینک کویت اور پاکستانی، کویتی و دیگر قومیتوں کے تعاون سے منعقد کیا گیا۔ اس کا مقصد تھیلیسیمیا کے مرض سے آگہی اور کویت بلڈ بینک کو اس مرض کے پیش نظر خون کی ترسیل میں مدد فراہم کرنا تھا۔ مزیدبرآں اس کیمپ کے انعقاد کا مقصد دوست ملک کویت کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی تقویت تھا جو کہ تمام تارکین وطن کی اولین ترجیح ہے۔ غیر سیاسی سماجی تنظیم پاکستان بلڈ ڈونرز ان کویت 2011ءسے بلڈ ڈونیشن کا کام پاکستانی کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم کے طور پر کام کررہی ہے۔ تنظیم کا مقصد نہ صرف بلڈ بینک کو سپورٹ کرنا بلکہ مریضوں کو بروقت خون کی رسائی اور بلڈ ڈونیشن کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ تنظیم کا فلسفہ لوگوں کو باور کرانا ہے کہ ہر صحتمند انسان خون کا عطیہ کرسکتا ہے۔ اس کیمپ میں کثیر تعداد نے شرکت کی۔ جم غفیر خون کے عطیہ کرنے کیلئے پہنچا تھا۔ 6گھنٹے کے  اس کیمپ میں پاکستانی ، کویتی، مصری ، فلپائنی، شامی، اردنی، صومالی، جنوبی افریقی اور ہند کے تارکین وطن نے شرکت کی۔ کیمپ کی خاص بات کویت تھیلیسیما لیگ کی شرکت تھی جنہوں نے کویتی عوام کی بھی بہترین ترجمانی کی۔ یہ کویت میڈیکل ایسوسی ایشن کے تحت کام کرتی ہے۔ کویت میں موجودپاکستانی سرکردہ بزنسمین کمیونٹی نے نہ صرف کیمپ کا دورہ کیا بلکہ خون کے عطیات بھی دیئے۔ کویت سنٹرل بلڈ بنک کی انتظامیہ نے اس کیمپ کے کامیاب انعقاد میں اپنا پورا تعاون پیش کیا۔ تعلقات عامہ کے طارق الغربلی نے  کیمپ کے کامیاب انعقاد پر مرکوزرکھی۔ کیمپ میں موجود افراد کی شرکت نے ضرورتمند افراد، خصوصاًنایا ب اقسام کے خون کی بروقت فراہمی کی اعلیٰ مثال اور بہترین انسانی جذبے کی عکاس تھی۔ کیمپ میں پاکستانی افراد کی انسانی خدمت کے جذبے سے شرکت اور بڑھ چڑھ کر خون کا عطیہ دینے کی کاوش دیدنی تھی۔پاکستانی بلڈ ڈونرز ان کویت کے افرادکمیونٹی میں موجود دیگر افرادکی بلڈ ڈونیشن کے ضمن میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کویتی سوسائٹی میں بلڈ ڈونیشن کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں تاکہ عطیہ خون سے ضرورتمند افراد کی بروقت زندگی بچائی جا سکے۔
 

شیئر: