Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں بے اصولی سیاست

 
جب2سال قبل فوجی عدالتیں قابل قبول تھیں توا ب ان میں کو نسے گھن لگے ہیں کہ قابل قبول نہیں رہیں
 
سید شکیل احمد 
 
ٹریفک کا عالمی اصول اور قانو ن یہ ہے کہ سڑک پر پہلا حق پید ل چلنے والو ں کا ہے۔ پا کستان میں سیا ست کی طر ح ہر اصول نرالے اند از میں ہے اگر ٹریفک کسی بنا ءپر چلتے چلتے کھڑی ہو گئی ہے تو پیچھے کھڑی گاڑیا ں مسلسل بھو نپو ں بجا نا شروع کر دیتی ہیں۔ کسی زمانے میں گاڑیو ں میں پا ور ہا رن نہیں ہو ا کر تے تھے ، ان کی جگہ پا ئپ میوزک کی طر ح آلہ لگا ہو تا تھا جس کے ایک سرے پر ربڑ کا لمبا سا گولہ ہوتا تھا جس کو دبا کر ہو ا کا پر یشر بنا یا جا تا تھا جس سے پپ پپ کی آواز پید اہو تی تھی اب تو کا ن پھاڑ دینے والے پریشر ہا رن آگئے ہیں جس کا پاکستان میں غلط استعما ل کیا جا رہا ہے کیونکہ مہذ ب ملکو ں میں ہا رن اس وقت بجا یا جا تا ہے جب اگلی گاڑی والا ٹریفک کی خلا ف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہو تا ہے مگر یہاں تو اس کو پا پ مو سیقی کی طرح بجا تے رہتے ہیں ۔ بات ہو رہی تھی کہ سڑ ک پر سب سے پہلا حق کس کا ہے توبین الا قوامی قانون کے مطا بق پید ل کا حق ہے مگر پا کستان میں اس کو تسلیم نہیں کیا جا تا اور نہ تسلیم کرایا جا تا جس کی وجہ سے پا کستان میں پیدل چلنے والو ں کے بے تحا شا مسائل پید ا ہو گئے ہیں اور حادثات میں آئے دن ٹریفک کی خلا ف ورزیو ں کا خاصا ہے ۔
اس اہم تر ین قانو ن اور اصول کو نظر انداز کر نے کی وجہ سے پا کستان کے شہر خا ص طورپر بڑے شہر رش اور بے تکی ٹریفک کا شکا ر ہیں جس طرح پاکستان کے باسی بے تکی اوربے اصولی سیا ست کا شکار ہیں ۔ ویسے بھی دیکھا جا ئے تو ٹریفک اور پا کستانی سیا ست میں چولی دامن کا ساتھ نظر آتا ہے۔ معلوم ہی نہیں ہو تا ٹریفک کس طر ف سے آرہی ہے کس طرف جاری ہے کہا ں اورکب مڑ جا ئے گی۔ جب ہردل عزیز وزریر اعلیٰ صوبہ کے پی کے کے پر ویز خٹک نے پنجا ب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی طر ح اقتدار سنبھالا تو ان کو یہ بات بڑی چڑھی کہ تر قی اور خوشحالی میں سب سے اہم کر دار تعلیم ، صحت عامہ اور زراعت کا ہو تا ہے مگر پنجا ب کے وزیر اعلیٰ کبھی میٹرو بس پر تو کبھی گرین ٹرین پر قو م کا روپیہ بہا رہے ہیں ، تبدیلی تو وہ خود کے پی کے میں لا ئیں گے کہ ہر قریہ اسکو ل ہی اسکو ل ہو ں گے بلکہ یو ں کہنا چاہیے کہ کھمبیا ں اس طر ح نہیں اُگ پا تیں جس طر ح ان کے دور میں اسکو ل ہی اسکو ل اور جا معا ت ہی جا معا ت بانسو ں کی طر ح اُگ جائیں گی چنا نچہ پر ویز خٹک کی جا نب سے شہبا ز شریف اور نو از شریف کو میٹر و بس اور مو ٹر وے وغیر ہ کی تعمیر پر شدید مخالفت کا سامنا کر نا پڑا اب پر ویز خٹک صاحب نے بڑے حسرت بھرے اند از میں فرما یا ہے کہ ریپڈ بس سروس کا منصوبہ ان کا جذبہ عظیم ہے ، یقینی طو رپر یہ بہت بڑی عظیم وابستگی ہے ، پھر بھی یا ر لو گ تنقیدنگار بنے ہو ئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میٹر و بس سروس اور ریپڈ بس سر وس میں کیا فرق ہے۔ ان کو کون سمجھا ئے کہ اگر ریپڈ بس سر وس کا نا م بھی میٹرو بس سر وس رکھا جا تا تو پھر یہ کہا جا تا کہ تبدیلی کہا ں آئی ، تبدیلی تو پی ٹی آئی خا ص طورپر عمر ان خان کا مشن ہے تبھی تو انھو ں نے دھر نا دھر نا کر تے ہوئے بھی تھکا وٹ محسو س نہ کی وہ تو تبدیلی کے خواہاں ہیں مگر امپا ئر ہے کہ انگلی نہیں اٹھاتا۔ اس تبدیلی کی آرزو میں وہ چا ر سال سے اسمبلی نہیں جا رہے ، وہ تو نئی سج دھج سے اس وقت اسمبلی جا ئیں گے جب وزیر اعظم کی تبدیلی ہو جائے گی۔ تب ہی تو ان کے وکیل نے سپر یم کو رٹ کو مشورہ دیا ہے کہ پا نا ما لیکس کو درکنا ر کر یں یہ ویسے ہی جھنجھٹ ہے۔ عدلیہ نو از شریف کو اسمبلی میں ان کی تقریر کی بنیا د پر نا اہل قرار دیدے تاکہ عوام سے تبدیلی کا وعدہ کسی طور پورا ہو سکے ۔ 
  لا ہو ر میٹر و بس اور اسلا م آباد میٹرو بس سر وس کی وجہ سے عوام کو خاصی سہولت میسر آگئی ہے۔ وقت کی بچت اور رش کی دھکم پیل سے بھی نجا ت حاصل ہو گئی ہے اسی طر ح میٹرو بس سروس اور ریپیڈ بس سر وس سے پشاور کی بے تکی ٹریفک میں بھی کچھ نہ کچھ تو پید ا ہو ہی جائے گا مگر مصیبت یہ ہے کہ پاکستان کا ہر سیا ست دان عوامی مسائل کو جاننے کی سعی نہیں کرتا ، حل تو دور کی بات ہے ۔ پبلک ٹرانسپوٹ عملہ انتہا ئی غیر اخلا ق ہے۔ اس کو خواتین کے احتر ام کی الف بے بھی نہیں معلو م ۔سواریو ں سے کس اند از میں گفتگو کی جا تی ہے ۔کر ایہ بھا ڑا حکومت کے مقر ر کر دہ نر خ نا مے کے مطابق وصول کر نا تو ان کے نزدیک تبدیلی کی توہین ہے مگر حکومت نے ان کے حوالے پبلک ٹرانسپورٹ کی ہو ئی ہے اور اس بارے میں ان کے احتساب کا کوئی بند وبست نہیں چنا نچہ غریب جو پہلے غربت کی چکی میں پسا جا تا ہے وہ بے عزتی کے چرکے بھی سہتا ہے۔ علا وہ ازیں ان کو ٹریفک کے اصول بھی نہیں معلو م اگر پبلک ٹرانسپو رٹ کے مو الیو ں کو ٹریفک قوانین کی تربیت دی جا ئے تو بھی 50فی صد ٹر یفک کے مسائل ازخود حل ہو سکتے ہیں۔ ویسے ٹریفک تو اصولو ں پر تب ہی چلے گئی جب سیا ست بھی با اصول ہو جا ئے کیو نکہ ہر سیا ست دان کی اصول سے زیادہ اپنے ووٹ بینک کو کیش کر نے پر نظر جمی رہتی ہے۔ دو سال پہلے عمر ان خان نے ر یپڈ بس سر وس کا اعلا ن کیا تھا مگر ابھی تک یہ منصوبہ زمین پر نہیں آیا کیو نکہ انتخابات میں اب مہینو ں کی بات رہ گئی ہے اور ایسی بااصولی الیکشن کے قریب تر ہو نے پر ہی رائج ہوتی ہے ۔
با اصول سیا ست کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب2سال پہلے فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ آیا تھا تو تما م اپوزیشن نے جن میں ، پی پی ، مسلم لیگ کا ہر دھڑا ، تحریک انصاف ، جما عت اسلا می ، جمعیت علما ئے اسلا م اور دوسری جماعتیں شامل تھیں با اصول فوجی عدالتو ں کے قیام پر اتفاق کیا تھا اور ان کو ایک سویلین حکومت نے قبول کیا تھا۔ پی پی کے با اصول سیا ست دان اور سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی بقول ان کے انھوں نے با اصول سیا ست دان کے اپنے ضمیر کو ما رکر فوجی عدالتو ں کے حق میں ووٹ پول کیا تھا حالا نکہ اس وقت چاہتے تو جمہوری روایا ت کی خاطر ووٹ نہ دیتے اور اصولی طورپر سینیٹ کی سیٹ سے مستعفی ہو جا تے لیکن انہیں قوم کو یہ دکھانا مقصود تھا کہ یہ آنسو جو ان کی آنکھ سے بہہ رہے ہیں انہی کے ہیں کس اور کے نہ سمجھیں چنا نچہ چت بھی ہماری اور پٹ بھی ہما ری ۔ انگلی کٹوا کر شہید ہونا پسند نہ کیا کیونکہ اصولی سیا ست کے خلا ف تھا بااصول سیا ست تو یہ ہے کہ آنسو بہا و اور غازی بھی کہلا و ۔ 
یہا ں جا وید ہا شمی کی بے اصولی یا د آرہی ہے کہ انھو ں نے جمہو ری اصول کے مطابق کسی امپا ئر کی انگلی پر چلنا قبول نہ کیا اور جس پارٹی کو چھو ڑ ا اس سے حا صل کر دہ دیا نشست بھی چھو ڑ کر انہی کے حوالے کر دی، اس امر کا نا م تبدیلی ہے ورنہ کسی سیا ست دان نے اپنی نشست کسی اصول پر قربان نہیںکی ۔ حیر ت کی بات تو یہ ہے کہ جب دوسال قبل فوجی عدالتیں قابل قبول تھیں توا ب ان میں کو نسے گھن لگے ہیں کہ قابل قبول نہیں رہیں۔ خاص طور پر ان جما عتو ں کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ نا قبولیت کی وجہ کیا ہے اورقبولیت کی وجہ کیا تھی ، ناقبولیت کی وجہ تو نظر آتی ہے کہ اب ووٹ کےلئے جمہو ریت کے نا م پر جانا ہے ۔
******

شیئر: