Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیوزی لینڈ کی خوبصورتی میں رہنے والا بدقسمت داؤد

 

یہاں کے قانون کے مطابق آدھے کاروبار اور جائداد کو اس کی سابق بیوی کے حوالے کرنا پڑا ۔بس یہی وہ موڑ تھا جب اس کی زندگی کی گاڑی پھر سے پٹڑی سے اتر گئ

 

تحریر: سلمیٰ جیلانی- نیوزی لینڈ

 وہ ہر مہینے ہمارے لان کی ککڑی کی بیل سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھتی ہوئی بے ہنگم گھاس کی دیکھ بھال کرنے آ جایا کرتا تھا ۔ نام تو اس کا جانے کیا تھا مگر علاقے میں ’’جو ‘‘ کے نام سے مشہور تھاَرنگت اس کی کبھی صاف رہی ہو گی مگر اب تو کھچڑی بالوں نے یوں گھیرا ہوا تھا کہ اس کی شخصیت کا کوئی صاف ستھرا سا خاکہ بنانا ناممکن سا ہو کے رہ گیاتھا ۔ ہاں البتہ اس کی شربتی آنکھوں میں کسی جھیل کی سی گہرائی نظر آتی اگر غور سے دیکھا جاتا مگر ایسا کم ہی ہوتا کہ وہ بیٹھ کر کوئی بات کرتا ہو اور نہ ہی کوئی اسے اتنی اہمیت دیتا ۔وہ محض گھاس کاٹنے والی انسانی مشین ہی تو تھا ۔ لیکن اب کی بار مہینہ گزرگیا ... وہ نہ آیا، جب گھاس نے قابو سے باہر ہونے کا ا علان کر دیا تو اس کا پتہ ٹھکانا تلاش کرنے کی فکر ہوئی مگر اسے ڈھونڈا کیسے جاتا کوئی کارڈ وغیرہ تو تھا نہیں اور اس کا بتایا ہوا نمبر بھی کبھی استعمال نہ کیا تھا ۔ گھر والوں نے فوری متبادل راستہ اختیار کرتے ہوئے یہ طے کیا کہ کسی گھاس کاٹنے والی کمپنی سے رابطہ کیا جائے۔

'جو' کہاں غائب ہو گیا اس کی فکر کسی کو نہ تھی ایک میں ہی تھوڑی فکر مند تھی اسے کھانے کیلئے بھی چپکے سے بچا ہوا کھانا اور کبھی میاں صاحب کا پرانا سویٹر یا پرانے بوٹ دے دیا کرتی تھی۔ اب یہ آؤٹ لٹ بھی بند ہوا جا رہا تھا جو پرانی چیزوں کے کارآمد استعمال کا ایک بہانہ تھا ۔ محلے کی اکلوتی منی مارٹ جو ایک ساؤتھ انڈین جوڑا چلاتا تھا اس کی بیوی پریتی سے بات کی ۔اسے کچھ سمجھانا اور کام کی بات نکلوانا خود ایک کار دشوار تھا لیکن جب میں نے اس کا حلیہ بیان کیا تو کہنے لگی "کہیں آپ داؤد بھا ئی کی بات تو نہیں کر رہیں" ... "لیکن وہ تو اپنے آپ کو 'جو' کہلواتا ہے" ... "ہاں آپ کے بتا ئے ہوئے حلیہ کے مطابق تو یہ وہی ہوگا" اس نے دراز سے مڑا تڑا کاغذ نکالا "اس پتے پر چلی جائیں کچھ نہ کچھ معلوم ہو جایے گا"...لیکن میں اس کی خیر خبر لینے نہ جاسکی اور کچھ مہینے بیت گئے۔ ایک دن کمیونٹی کے اخبار میں اسکی تصویر چھپی تھی۔ نیچے تفصیل پڑھی تو اپنی کاہلی اور لاپرواہی پر افسوس کرتی رہی۔لکھا تھا "پاکستانی نژاد داؤد جو عرصے سے ایک گیراج میں اکیلے رہ رہے تھے کسی اٹھائی گیرے نے ان کو قتل کر دیا۔ میں دکھ سے سوچ رہی تھی۔ ایک غریب بے سہارا انسان کے پاس کیا لوٹنے گیا ہو گا وہ شیطان جو نہ ملنے پر یا مزاحمت پر جان لے کر چلا گیا ۔ اب مجھے تجسس اور پچھتاوے کے ملے جلے احساس نے پریتی کے بتائے ہوئے پتے پر جانے کو اکسایا … تعزیت کی غرض سے وہاں پہنچی تو پتا چلا مالک مکان کی بیٹی ندا میری بیٹی کے ساتھ یونیورسٹی جاتی رہی ہے۔ بہر حال تعارف کے بعد بتایا کہ جو یا داؤد صاحب کو کیسے جانتی ہوں.. ندا کی امی ٹھنڈی آ ہ بھر کر بولیں "جب کسی کے حالات بگڑ جائیں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے لیکن اس میں خود انکی اپنی بدمزاجی اور نا عاقبت اندیشی کا بھی بہت ہاتھ تھا ۔ داؤد بھا ئی اور میرے میاں ایک ہی زمانے میں یہاں آ کر آباد ہوئے ۔

میرے میاں تو پڑھ لکھ کر سرکاری ادارے میں ملازم ہو گئے اور جلد ہی والدین نے میرے ساتھ شادی کر ا دی اور ہم گھر گرہستی سنبھالنے میں مگن ہو گئے مگر داؤد کو نئے نئے مشغلوں سے فرصت نہ تھی ۔ اس نے اپنی پڑھا ئی بھی ادھوری چھوڑ دی یہ بھی غنیمت کہ کچھ ہی عرصے میں دوستوں کو ترقی کرتے دیکھ کر ہوش آگیا اور دن رات ٹیکسی چلا کر اچھا خاصہ پیسا اکھٹا کر لیا ۔پھر مصالحو ں اور دالوں وغیرہ کا کاروبار کیا مسلسل محنت اور توجہ سے کاروبار وسیع ہوگیا۔ اب وہ کافی خوش حال ہو گیا تھا ... ان ہی دنوں مقامی جزیرے کی خاتون سے شادی بھی کر لی لیکن وہ نبھ نہ سکی اور جلد ہی علیحدگی ہو گئی ۔ یہاں کے قانون کے مطابق آدھے کاروبار اور جائداد کو اس کی سابق بیوی کے حوالے کرنا پڑا ۔بس یہی وہ موڑ تھا جب اس کی زندگی کی گاڑی پھر سے پٹڑی سے اتر گئی وہ اس مالی اور جذباتی افتاد کو برداشت کرنے میں ناکام رہا۔

ماضی میں کی گئی شراب نوشی اور دوسری منشیات کی پرانی لتیں پھر عود کر آئیں۔ان منفی تجربات نے اس کے مزاج پر بہت برا اثر ڈالا اور بقیہ کاروبار بھی اس کی نذر ہو گیا۔ جب تک جیب میں پیسے اور جسم میں طاقت رہی دوستوں کی محفلیں بھی جمی رہیں لیکن اس کی بد مزاجی اور سستی نے سب کو ایک ایک کر کے دور کر دیا۔ یہاں تک کہ گھر بھی بک گیا۔ پرانے ساتھیوں میں ایک میرے میاں ہی اس کی خیر خبر رکھتے رہے۔ پتا چلا کہ بہت سستے علاقے میں کرائے کے کمرے میں چلا گیا تھا ۔غالبا ً اسی زمانے میں آپ اور دوسرے لوگوں کے گھروں میں گھاس کاٹ کر گزارا کر رہا تھا ۔

مگر بیماری نے آہستہ آہستہ اس کے جسم کو بھی کھانا شروع کر دیا تھا ۔ میرے شوہر کو اس کی گرتی ہوئی حالت کا علم ہوا تو اسے اپنے ساتھ اٹھا لائے۔ وہ کئی ماہ ہمارے گیراج میں رہا۔ لیکن منشیات کی باقیات نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا " یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئیں …. پھر بولیں "اسی بلا نے ایک دن اس کی جان لے لی" … میں نے کہا "لیکن اسے تو علاقے کے کسی بدمعاش نے رقم چھیننے پر قتل کر دیا" وہ ایک دم چپ ہو گئیں پھر منہ بنا کر بولیں ... "پتا نہیں ... یہ تو پولیس کا کام ہے کہ معلوم کرے ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں پتا" …. ان کا رویہ کافی خشک ہو چلا تھا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ مجھے اب چلنا چاہئے ۔بعد میں کسی اور جاننے والے سے معلوم ہوا کہ داؤد کے 2 جوان بیٹا اور بیٹی بھی تھے جو اسے چھوڑ کر آسٹریلیا چلے گئے تھے۔ جب کمیونٹی کے لوگوں نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے داؤد کو اپنے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا تھا ۔بیٹے کا جواز تھا‘‘ آسٹریلیا میں ان کے دوا علاج کیلئے حکومت کوئی مدد نہیں دے گی اور میری اتنی حیثیت نہیں کہ اتنا مہنگا علاج برداشت کر سکوں اس لیے بہتر ہے یہیں رہیں " اس کے بعد اس سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔ شاید اس نے اپنا فون نمبر ہی بدل لیا تھا اور میں سے سوچ رہی تھی ... لوگ سمجھتے ہیں پردیس میں خاص کر نیوزی لینڈ جیسے خوب صورت قدرتی مناظر سے مالامال ملکوں میں تو سب خوش باش ہی رہتے ہوں گے مگر یہاں لوگ لگے بندھے ۔روٹین میں سے نکل کر اپنے اندر یا دوسروں کی زندگی میں جھانکنے کو معیوب گردانتے ہوئے اپنے ہی خول میں بند ہوتے چلے جاتے ہیں شائد جویا داؤد کو بھی یہی سرد رویئے مار گئے ۔

محترم قارئین !

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیںکہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔

ہم سےفون نمبر- 0966122836200 ext: -3428پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔آپ کی- کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔ 

  ای میل

[email protected]

شیئر: