Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زیروکو ہیرو اور ہیرو کو زیروکرنے والا ہمارا میڈیا

ہمارے اکثر سیاستدان اور صاحبان عوام سے نہیں میڈیا سے ڈرتے ہیں کیونکہ میڈیا وا لے ان کے پیچھے اپنی عقابی نظریں گاڑے رکھتے ہیں۔

 

صبیحہ خان۔ ٹورانٹو

ہماری سہیلی نے گفتگوکا آغازاس طرح کیا کہ ہم ششدر رہ گئے ۔ انہوں نے فرمایا کہ فی الوقت ہمارا الیکٹرک میڈیا خاصا طاقتور بن چکا ہے۔ اب آپ کو کسی مخبر کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت نہیںکیونکہ میڈیا موجود ہے جو کھود کھود کر خبریں نکالنے کا ماہر ہے۔ اب کہیں کوئی سوئی بھی گرجائے تو میڈیا کی سرخیوں میں آجاتی ہے یعنی اب کچھ نہیں رہا چھپانے کو۔ہمارے اکثر سیاستدان اور صاحبان عوام سے نہیں میڈیا سے ڈرتے ہیں کیونکہ میڈیا وا لے ان کے پیچھے اپنی عقابی نظریں گاڑے رکھتے ہیں۔ سرکاری میڈیا اس سے مبرا ہے کیونکہ اس کا کام صرف اچھا دکھانا ہے چاہے کتنا ہی براکیوں نہ ہورہا ہو۔ ان کے فرائض میں شامل ہے کہ انہیں’’ سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دینی ہوتی ہے کیونکہ ان پر سرکاری نظر ہوتی ہے اور وہ وہی کچھ دکھا سکتے ہیں جو سرکار اپنے عوام کو دکھانا چاہتی ہے۔

ہمارا آزاد میڈیا چاہے تو زیروکو ہیرو اور ہیرو کو زیروکر دے ، وہ ایسا کارنامہ انجام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔ ویسے سوچنے والی بات ہے کہ یہ الیکٹرانک میڈیا والے بے چارے 24گھنٹے کی نشریات میں آخر کیا کیا دکھائیں اور کہاں تک دکھائیں؟ آدھے سے زیادہ دورانئے کے تو اشتہارات ہوتے ہیں۔ ہر پروگرام اسپانسرڈ ہوتا ہے۔ وطن عزیزمیں بلا شبہ ڈھیروں گمبھیر مسائل اور مشکلات ہیں مگراپنے ہاں کے چینلز پر مارننگ شوز دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں سارے مسائل کی جڑ گورا رنگ ، سروں پر بال اُگانا اور بوڑھوں کو جوان اور جوان کو حَسین بنانا ہے ۔

ڈاکٹروں اور حکیموں کا ایک ٹولہ ہرچینل موجود ہوتا ہے جو رنگ گورا اور بال لمبے ، گھنے کرنے کی تراکیب سے آگاہ کرتا ہے۔کبھی سبزیوں سے علاج تو کبھی ڈرائی فروٹ کی شامت اور کبھی سر کے تیل بنانے کے وہی نسخے جو ہماری نانی ، دادی کے دور میں بھی آزمائے جاتے تھے ، عوام کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ اگر یہ مشورے اور ٹوٹکے مستقبل میں اسی تواتر سے جاری رہے تووہ دن دور نہیں جب ہمارے ملک میں ایک بھی کالا اور گنجا چراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہیں مل سکے گا۔ ہمارے ہاں کے مارننگ شوز کا بغور جائزہ لینے کے بعد ناظرین کو یہ بات بخوبی سمجھ آجائے گی کہ سارے چینلز کے مارننگ شوز تقریباً ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ اگر کسی چینل نے مارننگ شوز کے اپنے پروگرام میں شادی پر مشتمل کوئی ایپی سوڈ نشر کردیا تو پھر سارے چینلز کا یہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی شو پیش کریں۔ ہرمارننگ شو کی میزبان خود بھی بھاری بھرکم عروسی جوڑے میں ناچتی گاتی دکھائی دیتی ہیں۔ دیگر مہمان دلہنوں کے ساتھ شادی کی مختلف رسومات کے موضوع پر یہ پروگرام کیا جاتا ہے جو بے جا اصراف کی دعوت دیتا ہے۔ نمود و نمائش اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا رجحان زور پکڑ گیا ہے، لوگ سادہ زندگی سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ایک چینل اگر جادو ٹونے جیسی خرافات سے متعلق پروگرام کی ابتداء کرتا ہے تو ہر چینل اپنے پروگرام میں یہی سب کچھ لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس طرح کی دیکھا دیکھی اب زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے ۔ دوسروں کی نقالی اور اپنی چادر سے زیادہ پیر پھیلانا لوگوں کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے ۔ گلیمر ، فیشن، دولت، شہرت کا بھوت میڈیا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔ فی زمانہ افواہیں اور مفروضے بھی گرما گرم خبروں کی سرخیوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ گویا ایک دوسرے کی نقالی اور ایک دوسرے سے بڑھ کر پروگرام پیش کرنے کی اس روش نے کسی سونامی کی طرح معاشرتی گردوپیش کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔

ہمارے روز مرہ معمولات کی طرح ذرائع ابلاغ کے شعبے بھی کرپشن سے محفوظ نہیں رہے۔ ٹی وی اینکرز ، شوہوسٹ بھی کسی فلمی ہیرو کی طرح اپنی مقبولیت کو دونوں ہاتھوں سے کیش کررہے ہیں۔ سیاست کی طرح میڈیا پر بھی لوٹا سازی، گروپ بندی عروج پر ہے اور اکثر سیاستدان اور صاحبان اپنے مقاصد کے لئے ان کو استعمال کررہے ہیںجوان کے مفاد کی خاطر سچائی اور حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ یہ اخلاقیات کے منافی اور بددیانتی شمار کی جاتی ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، دونوں کا ایماندار اور شفاف ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ ان دونوں پر عوام کا بے حد اعتماد ہوتا ہے ۔

کچھ دن قبل ایک خوبصورت غریب ان پڑھ چائے والے کی شہرت سوشل میڈیا کے ذریعہ الیکٹرانک میڈیا کے ہتھے چڑھ گئی تو سارے چینلز حرکت میں آگئے ۔ہر مارننگ شو میں اس چائے والے کی شرکت یقینی ہوگئی جبکہ اس کے اصل مسائل کو کسی نے سلجھانے کی کوشش نہیں کی۔ اس سے قبل دو غریب دیہاتی لڑکیاں جسٹن بیبرکے انداز میں گانے گاتی میڈیا کی نظر میں آئیں۔ چند دنوں تک ان کی دھوم رہی، اس کے بعد ان کا کیا بنا، کسی کو معلوم نہیں۔ سب گمنام ہوجاتے ہیں اور میڈیا پھر کسی نئے شکار کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتا ہے۔

مارننگ شوز کے ذریعہ فیشن اور گلیمر کو بھی فروغ دیا جارہا ہے ۔ ہمارا میڈیا ناچ گانے کا محتاج ہے۔ خبریں چاہے کتنی ہی سنجیدہ ، المناک، دہشتناک کیوں نہ ہوں مگر خبروں کی ہیڈلائن زوردار بینڈ باجے کے ساتھ وارد ہوتی ہے جبکہ خاتون نیوز ریڈر اس سے زیادہ زور لگا کربلکہ چیخ چیخ کر خبریں پڑھتی ہیں گویا انکے سب کے سب ناظرین بہرے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے کچھ اشتہاری آئٹم عوام کے لئے سود مند ہوسکتے ہیں مثلاً ایک واشنگ پاؤڈر پراڈکٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف ایک ہی چکر میں کپڑوں پر لگے گہرے داغوں کا آسانی سے صفایا کرسکتا ہے ۔ہمیں یہ اشتہار دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اپنے وطن سے بدعنوانی دور کرنے کے لئے کیوں نہ کسی واشنگ پاؤڈر کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا جائے ممکن ہے سارے داغ دھل جائیں۔

شیئر: