Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لائسنس موجود، گاڑی ندارد،یعنی نکاح رجسٹرڈ، دلہن غائب

مسائل کے ازدہام میں زندگی کی گاڑی جام ہوگئی۔یہاں تک کہ سگنل عبور کرنے سے بھی قاصر رہی ،جب بھی سگنل کھلتا،مختصر وقفے کے بعد ہی بند ہوجاتا۔

 

احمد منشی ۔ جدہ

زہے نصیب، آج تو صبح سویرے عزیزم کا دیدار ہوگیا۔چندو میاں !خیریت تو ہے ؟

جی بابو میاں!سب خیریت ہے ۔ دلہ(ڈرائیونگ اسکول کا نام) گیا ہوا تھا۔

بابو میاں: دلہ ، کس لئے؟

چندو: ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کرانے ۔

بابو میاں:یہ کیا مذاق ہے ؟کبھی گاڑی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا؟

چندو: مذاق نہیں حقیقت ہے۔ میں توآج سے 5برس قبل بھی  ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کراچکا ہوں۔اس کے بعد تجدید کرایا 5سال بعد پھر تجدید کرایا 10سال کیلئے ۔ بالکل ایسا لگتا ہے جیسے 10برس سے نکاح رجسٹر کروا رکھا ہے مگر دلہن ابھی تک غائب ہے ۔

بابومیاں: آپ تجدید کیلئے گئے تو کیسا لگا؟

چند و:  ہر روز نئے نئے اطوار سامنے آتے ہیں۔ گھر ، بازار، آفس بچہ بوڑھا اور جوان جسے دیکھو’’e‘‘ بن گیاہے۔

بابومیاں:یہ ای کیا ہے؟

چندو:ای’’e‘‘ یعنی الیکٹرانک۔

بابو میاں:اوہ چندو میں تو’’o‘‘ ہوں یعنی اولڈ مین۔

چندو: کچھ سال پہلے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا تھا وہ بھی 3مرتبہ فیل ہوجانے کے بعد اسپیشل کلاس میں داخلہ لیا جو جمعہ کو 4گھنٹے کیلئے ہوتی تھی ، اسے مکمل کرنے کے بعد امتحان پاس کرلیاتو خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔قبل ازیں دوستوں نے مذاق بھی اڑایااورپوچھتے کہ چندوپاس ہوئے یا فیل؟ تو میں ان سے کہتا کہ چہرے کے تاثرات پڑھ لو۔ وہ میری طرف دیکھ کر تسلی دیتے اور مختلف قسم کے مشورے دے ڈالتے مگر میں نے ہمیشہ سیدھا راستہ اختیار کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔ ہمت نہیں ہاری بالآخر ڈرائیونگ امتحان پاس کرکے لائسنس حاصل کرہی لیا۔ اُس وقت آسان طریق کار تھا۔ مدرب ساتھ بیٹھ کر گاڑی چلانے کی ہدایت دیتا اور میدان میں موجود 8کا دائرہ لگواتا اور کبری یعنی برج پر گاڑی چلانے کا امتحان لیتا اور بعد ازاں وہ انتہائی شفقت سے کہتا ’’وقف‘‘ اور پھرفائل حوالے کرتے ہوئے سامنے بنے آفس میں جانے کااشارہ کرتا۔

وہاں مختلف اشاروں(سگنلز) کی علامات کے بارے میں سوالات کئے جاتے اور جواب صحیح ہونے پر پاس ہونے کی نویدسنا دی جاتی۔ اگلی تاریخ پرمیں نے اسکول میں بنی لائسنس کارڈگیلری میں سجے ہوئے لائسنس کارڈگھورنا شروع کیا ،شیشے کے اندرموجود اپنے نام کا لائسنس دیکھ کر آنکھیں بھرآئیں ،یقین نہیں ہورہا تھا کہ چندوکبھی پاس ہوسکتا ہےیا لائسنس مل سکتاہے۔

بابو میاں: لائسنس نکالنے کے بعد اب تک گاڑی نہیں لی، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

چندو: جب لائسنس ملا تو ہماری فیملی عارضی طورپر وطن گئی ہوئی تھی ،وہاںمسائل کے ازدہام میں زندگی کی گاڑی جام ہوگئی۔یہاں تک کہ سگنل عبور کرنے سے بھی قاصر رہی ،جب بھی سگنل کھلتا،مختصر وقفے کے بعد ہی بند ہوجاتا۔ یوںٹریفک اس قدر جام رہی کہ لائسنس کی تجدید کاوقت آگیا ۔پھر ٹریفک رواں ہوئی مگر اگلے سگنل پر کافی دیر رکنا پڑا اور لائسنس کی ایک اور تجدید کا وقت آگیا ۔پھر مسائل کی گاڑی زندگی کی سڑک پر رینگنے لگی ۔لال، پیلی، ہری بتیاں مسائل کی سنگینی کا پتہ دیتیں پھراگلے سگنل پر ٹریفک کی لمبی قطار لگ گئی ، سب کھڑے رہے، وقت کا پہیہ چلتا رہا پھرایک اور مدت کے لئے تجدیدکا وقت آگیا۔

بابو میاں: آپ بار بار تجدید کراتے رہے، اس کا سبب پیسے تھے یا مسائل کی ٹریفک؟

چندو: میرا مسئلہ کچھ عجیب و غریب ہے۔ بڑے مسئلے پر چھوٹے مسئلے کو قربان کردیتاہوں۔ چھوٹی خوشی کیلئے بڑی خوشی قربان نہیں کر سکتا۔ چھوٹی تکلیف بڑی خوشی کیلئے سہ لیتا ہوں۔

بابو میاں: اچھا تو اس مرتبہ ای سسٹم سے مربوط لائسنس ادارے اور مستشفیٰ وغیرہ میں کیا کارروائی ہوئی۔ چندو:میں نے مختلف باتیں لوگوں سے سن رکھی تھیں۔ آپ کیلئے ضروری ہے کہ میدان میں اترنے سے پہلے کام کی نوعیت اور اہمیت کے بارے میں پیپرورک کرلیں یعنی جس محاذ پر آپ کو جانا ہو، اس کا خاکہ بناکر اس سے متعلق لوازمات پوری کریں۔جب سب کچھ مکمل ہوجائے تو محاذ سرکرنا آسان ہوگا۔ اسی لئے میں نے ای سسٹم سے لیس ڈرائیونگ اسکول ، مرور اور مستشفیٰ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ سب سے پہلے ’’ابشر‘‘ اکاؤنٹ کار آمد بنایا۔ فنگر پرنٹ دیئے۔ پھر 4عدد فوٹوبنوائے اور دلہ میں ڈرائیونگ اسکول چلے گئے۔گیٹ پر ہی موجود مستشفیٰ کی جانب سے تعینات ایک مندوب سے ہوگئی۔ انہوں نے بڑے احترام اور تسلی بخش انداز میں گاڑی میں بٹھایا اورمیڈیکل رپورٹ کیلئے قریب واقع طبی مرکز لے گئے۔ وہاں انہوں نے کاغذی کارروائی چند ساعتوں میں مکمل کرادی۔ آنکھ کے ٹیسٹ کیلئے لیب گیا جہاں ڈاکٹر نے اے بی سی ڈی وغیرہ دور کرسی پر بٹھا کر دیکھنے کیلئے کہا ۔ اس امتحان میں پاس ہوگیا۔بلڈگروپ کے بارے میں بتایا کہ بی پلس ہے۔

بعد ازاں انہوں نے آئی اور بلڈ ٹیسٹ درست ہونے کی رپورٹ دیدی۔ باہرنکلتے ہی مندوب نے کہا کہ کفیل کا نمبر بتائیں۔نمبر معلوم نہ ہونے پر انہوںنے کہا کہ کوئی بات نہیں ، پلک جھپکتے ہی کمپنی کانام اور نمبر موبائل میں دکھایا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا ، انہوں نے فارم پر نمبر درج کیا اور وہ فائل پر لکھ کر جمع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک خاتون نے جمع شدہ فائلوں کا ریکارڈ کمپیوٹر میں لوڈ کرکے ای سسٹم سے مربوط کردیا اور ایک سلپ پیش کردی۔ باہر جونہی نکلا ،مندوب نے کہا ’’لازم ابشر۔‘‘ میں نے کہا ابشر تو ہے۔ انہوں نے کہا نہیں ابھی ایکٹیوکرنا ہوگا۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں، انہوں نے موبائل پر ابشر اکاؤنٹ کھول کر ایکٹیو کردیااور مرور (ٹریفک پولیس سینٹر)جانے کی ہدایت کی۔ باہر نکلا تو ہم وطن ٹیکسی ڈرائیور نے اشارہ کیا اور اس کی گاڑی سے مرور آفس چلے گئے ۔ کاؤنٹر نمبر 6پر پہنچے تو وہاں موجود عسکری نے سب سے پہلا سوال کیا ’’ابشر خلاص؟‘‘ ہم نے کہا ’’جی !خلاص‘‘ ۔ 5منٹ بعد نام پکارا اور تجدید شدہ لائسنس 10سال کیلئے بناکر میرے حوالے کردیا۔

بابومیاں:آپ پر کبھی کوئی مخالفہ نہیں آیا ہوگا، کبھی کوئی خلاف ورزی پر جرمانہ یا ساھر کا فلیش بھی نہیں پڑا ہوگا۔

چندو:جی بابو میاں، اب اس موجودہ عشرے میں لگتا ہے کہ زندگی کی گاڑی مسائل کی ٹریفک سے نکل کر ساھر کے فلیش کا شکار ہوسکتی ہے۔ مگر دیکھتے ہیں گاڑی کب ہاتھ لگتی ہے ،اب فی الحال اپنے ہاتھ میں گاڑی نہیں لائسنس ہے۔

شیئر: