Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب انسان انسان کو بیچ رہا ہو

 
زندگی اس قدر تنگ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق152 ممالک کا کوئی نہ کوئی شہری اس وقت 124 ممالک میں کہیں نہ کہیں اسمگل شدہ زندگی گزار رہا ہے
 
وسعت اللہ خان 
 
دنیا میں 3 کاروبار سب سے منافع بخش ہیں۔اسلحہ ، منشیات اور انسانی اسمگلنگ۔ اسلحہ اور منشیات انسان کو ایک بار ہی جان سے مار دیتے ہیں مگر انسانی اسمگلنگ کا شکار اپنی بے کسی ، پکڑے جانے کے خوف ، بلیک میلنگ ، بیگار مشقت اور استحصال کے امکانی ہاتھوں روز جیتا روز مرتا ہے۔ بے کس بوڑھے ، جوان ، بچے بچیاں بہتر اور محفوظ زندگی کے خواب کی تعبیر میں جس سفر پے روانہ ہوتے ہیں اس کا اختتام عموماً جہنم کے دروازے پر ہوتا ہے۔پھر بھی ہر سال 25 لاکھ لوگ انسان نما بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ کے صرف خود کو نہیں اپنے خاندانوں کو بھی ذہنی سولی پر جھلاتے ہیں اور انہیں عذاب میں دھکیلنے والے اسمگلرز 26 تا 32 ارب ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔انسانی دکھ کے گارے سے اٹھائے اس حمام میں سبز باغ دکھانے والے ایجنٹوں سے لے کر ٹرانسپورٹروں اور خوش لباس اہلکاروں تک سب ننگے ہیں۔یہ ایسا جال ہے جس میں پھنسنے والے100 میں سے صرف ایک شکار ہی سلامت نکلتا ہے۔
  گزشتہ ڈیڑھ برس میں 4 لاکھ کے لگ بھگ افراد نے انسانی اسمگلروں کی مدد سے مختلف سمندر عبور کرکے اپنی تصوراتی جنت تک پہنچنے کی کوشش کی۔ان میں سے2لاکھ 7 ہزار بحیرہ روم عبور کرکے لیبیا سے اٹلی پہنچے۔82 ہزار 680 بحیرہ قلزم پار کر کے براستہ ایتھوپیا ، سوڈان و مصر لیبیا پہنچے۔54 ہزار نے خلیجِ بنگال اور آبنائے ملاکا عبور کرکے آسٹریلیا تک جانے کی کوشش کی۔5 ہزار کے لگ بھگ افراد نے جزائر کیربین کے راستے امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کی اور باقیوں نے ترکی اور یونان کے درمیان بحیرہ ایجین عبور کرنے کی کوشش کی۔ان میں سے لگ بھگ 5ہزار سمندروں میں ڈوب کر ہلاک ہوئے جو ہزاروں بدقسمت خواب دیکھنے والے خشک راستوں میں کنٹینرز میں دم گھٹنے یا سرحدی محافظوں کی گولیوں کی بھینٹ ہوئے وہ الگ ہیں۔
( ویسے تو افریقی تارکینِ وطن مراکش کے راستے سمندر عبور کرکے اسپین پہنچنے کی بھی کوشش کرتے ہیں لیکن ان دنوں طوائف الملوکی کے شکار لیبیا میں مقامی قبائل اور جنگجو ملیشیاوں کے تعاون سے انسانی اسمگلنگ کی سنڈیکیٹس کھلے عام دونوں ہاتھوں سے زر کی گنگا نہا رہی ہے)۔
  زندگی اس قدر تنگ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق152 ممالک کا کوئی نہ کوئی شہری اس وقت 124 ممالک میں کہیں نہ کہیں اسمگل شدہ زندگی گزار رہا ہے۔ان میں سے 53فیصد تارکینِ وطن زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں اور40 فیصد جبری مشقت کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔صرف 7 فیصد ایسے ہوتے ہیں جو بالاخر اپنے من پسند ملک میں قانونی شہری بننے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
پاکستان بھی ان ممالک میں ہے جہاں بڑی تعداد میں غیرملکی باشندے اسمگل ہو کر آتے بھی ہیں اور مقامی باشندے بیرونِ ملک جاتے بھی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں3 سے 5 ملین کے درمیان غیر ملکی غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ان میں افغان ، بنگلہ دیشی ، ایرانی ، ہندی، برمی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے باشندے سب سے زیادہ ہیں۔
( پاکستان ماریطانیہ اور ہیٹی کے بعد ملکی آبادی کے تناسب سے جبری غلاموں کی اوسط تعداد کے اعتبار سے تیسرا بڑا ملک ہے۔ہند چوتھے نمبر پر ہے)۔
پاکستان سے یورپ اور خلیجی ریاستوں میں اسمگل ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق پنجاب کے وسطی و جنوبی علاقوں اور خیبر پختونخوا وغیرہ سے ہے۔
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی ریڈ بک کے دسمبر2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 93 بڑے انسانی اسمگلر اور ٹریول ایجنٹ ایف آئی اے کو مطلوب ہیں ( زیادہ تر گوجرانوالہ ، گجرات ، منڈی بہاو الدین ، سیالکوٹ ، اسلام آباد ) اور آزاد کشمیر میں سرگرم ہیں اور ان کی پشت پر طاقتور سیاسی و انتظامی ہاتھ ہیں)۔
انسانی اسمگلر گوادر سے عمان یا کوئٹہ سے ایران اور ترکی کے راستے یونان یا پھر وسط ایشیائی ممالک سے براستہ روس مشرقی یورپ کی راہداری استعمال کرتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت لگ بھگ ساڑھے8 ہزار پاکستانی بیرونِ ملک جیلوں میں ہیں۔(یہ ان کے علاوہ ہیں جن کے بارے میں پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ 2008ءسے2013ءکے درمیان5ہزار 665 پاکستانیوں کو بیرونی جیلوں سے رہائی دلوائی گئی )۔
کتنے پاکستانی گزشتہ 5 برس میں غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک اسمگل ہوئے ؟ اس بابت شائد کبھی بھی حتمی حقائق سامنے نہ آ سکیں لیکن بیرونِ ملک سے بے دخل ہونے والوں کی تعداد سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ ضرور ہوسکتا ہے۔مثلاً 2009ءسے2013ءکے 5 برس میں پاکستان نے26 ہزار غیر ملکی باشندے دو درجن ممالک کے حوالے کئے۔اس کے برعکس اسی عرصے میں54 ممالک سے 3 لاکھ 80 ہزار پاکستانی ڈی پورٹ ہوئے( یعنی208 فی دن )۔ان پاکستانی ڈی پورٹیز کی70 فیصد تعداد خلیجی ممالک سے نکالی گئی۔
کوئی حل ہے ؟ کہتے ہیں کہ بنیادی سہولتیں مل جائیں تو کون زمین چھوڑتا ہے اور بنیادی سہولتیں نہ بھی ملیں تو بھی بہت کم لوگ زمین چھوڑیں گر مٹھی بھر امن ہی میسر آ جائے۔
تیل سے مالا مال مگر بدامنی اور کرپشن کے سرطان میں جکڑے نائیجیریا کی22 سالہ ہیئر ڈریسر علیمہ کو جب اطالوی کوسٹ گارڈز نے سمندر سے نکالا تو وہ چیخ رہی تھی ” اگر میں اپنے ملک میں خوش ہوتی تو ماں کو پیچھے چھوڑ کے راستے میں زیادتی ، اغوا ، غلامی اور موت کے خوف کے باوجود انجان مستقبل کی تلاش میں کیوں نکلتی۔مجھے تم نے کیوں بچا لیا ۔
******

شیئر: