Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پانامہ لیکس اور نیب کا نرالا قانون

 
نیب کی ساکھ کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پلی بارگین کے اصول پر قومی خزانے سے لوٹی دولت میں سے کچھ ازخود وصول کرلی
 
محمد اسلم محمود بٹ
 
پانامہ لیکس میں غیر ملکی عناصر کے ملوث ہونے کے شواہدبھی سامنے آئے ہیں۔ برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں بیان کیاگیا ہے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے لندن کے بیش قیمت علاقے مے فیئر میں واقع فلیٹس آف شور کمپنیوں کی وساطت سے 1993 ءسے ملکیت کے حامل ہیں۔ بی بی سی کو بظاہر یہ علم ہی نہیں کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ وزیراعظم کے غیر ملکی اثاثوں کیخلاف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے دائر کردہ مقدمات کی سماعت جاری رکھے ہوئے ہے۔ صحافت کے مقبول اصولوں کے مطابق کسی بھی " سب جوڈش" معاملے کو نشر یا تشہیر نہیں کیا جا سکتا مگر اس معاملے میں صحافت کے اس اصول کو خاطر میں نہیں لایاگیا۔ تحقیقاتی ادارے برائے انسداد کرپشن بھی خصوصاً ترقی یافتہ دنیا بھی اس اس سازش میں ملوث ہے جس نے مبینہ طور پر صرف ترقی یافتہ ممالک کے رہنماوں کیخلاف تحقیقات مکمل کیں اور انہیں پانامہ پیپرز کے عنوان سے عالمی سطح پر شائع کیا۔ 
یہ امر کسی سنگین مذاق سے کم نہیں کہ صرف پاکستان کے وزیراعظم کے بچوں کو آف شور کمپنیوں کا مالک قرار دیاگیا جبکہ ہند میں صرف ایک اداکار اور ہدایت کار امتبابھ بچن کو ہی ایسے غیر ملکی اثاثوں کا مالک قرار دیاگیا جس کے خلاف ہند میں ایسا ہنگامہ برپا نہیں ہوا جیسا منظر پاکستان میں دیکھا گیا ۔ پورے ملک میں اس معاملے پر شور برپا ہے کہ وزیراعظم کے بچے غیر ملکی اثاثوں کے مالک پائے گئے جس کیخلاف مقدمات کی سماعت عدالت عظمیٰ تک پہنچ چکی ہے۔ اس دوران عمران خان اور حزب اختلاق کے دیگر رہنماوں کو بھی وزیراعظم کیخلاف الزام تراشی کا موقع میسر آگیا کہ وہ وزیراعظم کیخلاف اس الزام تراشی کا آغاز کرسکیں کہ وہ پاکستان کے عوام کی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرکے ان اثاثوں کی ملکیت کے حامل بنے۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر اعلانیہ اثاثوں کا عالم گیر سطح پر چرچا ہے۔ خود برطانیہ جو دنیا بھر کے حکمرانوں کی غیر اعلانیہ دولت کی آماجگاہ ہے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے بدعنوان حکمرانوں نے اپنے اثاثے چھپا رکھے ہیں مگر اس ناجائز دولت کا ذکر کرنے کی کوئی توفیق ایسے تحقیقاتی اداروں کو حاصل نہ ہوسکی۔ ایسے ہی ناجائز اثاثوں کے تحفظ کیلئے برطانیہ کے زیر اثر سوئس بینک قائم کئے گئے جہاں بینکوں کے عالمی اصولوں کے برخلاف رقوم جمع کروانے و الی شخصیت کا نام، ذریعہ آمدن ظاہر کرنا لازمی نہیں اور جہاں جمع کروائی گئی رقوم میں اضافہ نہیں کمی ہوتی ہے۔ 
سابق صدر آصف زرداری نے اپنے اثاثے سوئس بینکوں میں جمع کروائے تھے اور انہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ امریکہ کے دباو پر این آر او طے کروایا تھا۔ زرداری نے اپنے دور کے 2وزرائے اعظم کو قربان کردیا مگر عدالت عظمیٰ کے اس دور کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ان احکامات پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا کہ حکومت سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو یہ خط تحریر کرے کہ وہ مقدمات جو این آر او کے تحت واپس لئے گئے تھے کا دوبارہ آغاز کرے۔ عوام الناس آج دن تک اس امر پر حیران ہیں کہ ان کیخلاف نیب کے زیر سماعت مقدمات کا کس طرح ان کے حق میں فیصلہ کردیاگیا۔ نیب کی ساکھ کا عوام پاکستان بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں جس نے پلی بارگین کے اصول کے تحت قومی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت میں سے کچھ رقم ازخود وصول کرکے کیا۔ حالیہ مہینوں میں بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ مجموعی طور پر 40 ارب روپے لوٹے جانے کے مرتکب ہوئے جسے محفوظ رکھنے کی ان کے پاس کوئی جگہ نہیں تھی اور وہ اپنے گھر میں ہی عوامی خزانے سے لوٹی گئی دولت محفوظ رکھنے میں اپنی خیریت خیال کر رہے تھے۔ پاکستان کے عوام نے اپنی ٹیلیویژن اسکرینوں پر یہ منظر دیکھا کہ کس طرح ایک سرکاری افسر کے گھر سے یوں کرنسی نوٹ برآمد ہوئے جیسے وہ ردی کے کاغذ ہوں۔ اطلاعات کے مطابق یہی افسر کراچی میں متعدد بیش قیمت بنگلوں کی ملکیت کے حامل بھی پائے گئے جن میںکچھ انہوں نے نیب کے حوالے کرنے اور تقریبا ً ڈھائی ارب روپے واپس کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ 
عدالت عظمیٰ نے مقدمے کی ابتدائی سماعت کے دوران کہا کہ نیب کا یہ اصول نرالا ہے کہ صرف 150 روپے کی کرپشن کے حامل افراد کو تو گرفتار کرلیا جاتا ہے اور اربوں روپے لوٹنے کے مرتکب افراد کے ساتھ پلی بارگین کا اصول اختیار کرلیا جاتا ہے۔ قانون کے ساتھ مذاق کے مترادف اس اصول پر عمل درآمد جاری تھاکہ عدالت نے اپنے حتمی فیصلے سے پہلے نیب کے چیئرمین کے صوابدیدی اختیارات پر عمل درآمد کو معطل کردیا۔ اسی اثناء میں پانامہ پیپرز اور اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کے روبرو عمران خان اور حزب ا ختلاف کے دیگر رہنماوں کی جانب سے مقدمات کا ہنگامہ برپا ہوگیا۔ وزیراعظم اپنے خلاف حزب اختلاف کی اس ہنگامہ آرائی سے قطع نظر ملک کی تعمیر او ر ترقی میں مصروف ہیں اور سابق سپہ سالار را حیل شریف کے تعاون سے دہشت گردی کے اس عفریت کو بڑی حد تک شکست دے چکے ہیں جس نے ملکی وحدت کو چیلنج کررکھا تھا۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: