Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ سب جھنڈے ملیں گے تو اِک وحدت بن جائیں گے

زندہ قوم اپنی شناخت اپنے قومی پرچم سے کراتی ہے۔ ہم سب ایک ہیں ، ہمارا پرچم ایک ہے، اسکے علاوہ جتنے ہنگامے ہیں،وہ انفرادی شناخت ہے

 

اُم مزمل۔جدہ

 

وہ مشین پر جھکی بخیے چیک کررہی تھی۔ چاہتی تھی کہ جلد سلائی کا کام مکمل ہوجائے۔ وہ آیا تو حیرت سے پوچھنے لگا ،یہ سب جھنڈے گھر پر تیار ہونگے؟ وہ کہنے لگی ہمارے تو چار بیٹے ہیں، اس لحاظ سے تو مجھے چار ہی جھنڈے تیار کرنے ہیں لیکن جو ہمارا قومی پرچم ہے وہ تو باہر جاکر بڑے سائز کا خوب اچھے کپڑے کا خریدیں گے ۔ وہ کہہ رہا تھاکہ گھنٹوں سے سلائی مشین چل رہی ہے ،اب تو فجر کی اذان بھی ہوگئی۔

چائے کے انتظار میں ہوں۔ اس نے جواباً کہا آپ نماز پڑھ کھر اخبار لیکر آجائیں جب تک چائے بھی تیار ہوجائے گی۔ وہ بچوں کو اپنے ملک کے بارے میں بتاتی رہتی تھی، تمام مسلم حکمرانوں اور ان کی حکومتوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی تذکرہ ضرور کرتی تھی۔ چاہتی تھی کہ ہماری نسل اپنے اسلاف کے کارنامے بھی ضرور جانے۔ اس سے حوصلہ ملے گا۔ آج جس جانب نگاہ دوڑائیں ،یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم صرف غلامی کررہے ہیں۔دوسروں کی تہذیب کو ہو بہو اپنا کر اپنی ذہنی غلامی کا اعلان کررہے ہیں۔ شیطان نے بھی ہمیں خوب دلکش پیرائے میں یہ بتانا چاہا ہے کہ چلو کوئی بات نہیں، اس طرح پریشانی اور مایوسی میں چند لمحوں کی خوشی میسر آجاتی ہے ۔ چاہے نیوایئر ہو ، چاہے لا یعنی و بے معنی سالانہ ایام،کچھ نہ کچھ غل غپاڑہ اور دھوم دھڑکا کرنے کا بہانہ ہاتھ آ ہی جاتا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ چند برسوں سے اور بھی دراز ہوگیا ہے کیونکہ اب تو پہلی اور دوسری دنیا کے باسیوں نے باقاعدگی سے ہر سال’’ فادر ،مدر ، سن اینڈ ڈاٹر‘‘کے دن منانے شروع کر دیئے ہیں۔ اس روز ہی ان رشتوں سے اچھا سلوک کیاجاتا ہے اور باقی ایام میں وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے جیسا بھی سلوک کریں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ دن منا کر انہوں نے ہمیں بھی ’’اذیت‘‘ کا شکار کر دیا ہے کیونکہ ہم تو اُن کی تقلید کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔

بچے جو اب ہائی اسکول کے طلباء تھے ،ولولہ انگیزی ان میں حد درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ الیکشن نزدیک ہے تو ہمیں بھی بتانا چاہئے کہ ہم کس پارٹی کو ووٹ دینے والے ہیں۔ان کے والد نے کہہ دیا تھا کہ ایسے گھر پہلے زمانے میں ہوا کرتے تھے کہ جسکے چاروں طرف ہر کونے پر ایک باغیچہ بناہوتا تھا۔ اس پائیں باغ میں پھولوں کی بہار اور کبھی کوئی ایک آدھ شوقیہ پھل کے درخت لگالئے جاتے تھے۔ اب بچوں کو اپنے چھوٹے سے گھر میں صرف چھت کا ایک کونہ ملا ہے،جہاں وہ پول پر اپنی مرضی کے جھنڈے لگائیں اور دن رات الیکشن تک اس کی خدمت کریں گے۔ یہ گرجائے گاتو دھوکر دوبارہ لگالیں گے ، ہوا سے اڑ جائے گا تو تلاش کرکے لائیںگے۔ اب تو محلے میں سب ہی گھروں میں جھنڈے نظر آنے لگے تھے۔ چند دن بعد ہی ووٹ ڈالنے جانا تھا، یہ کیا؟ چاروں جھنڈے ایک ایک کرکے بیکار ہوگئے۔ کوئی ہوا کے ساتھ سفر کرتا نجانے کہا ںگیا کہ دوبارہ ملا ہی نہیں۔ دوسرا کیل لگنے سے پھٹ گیا، تیسرا چھت سے گرا اوربراہ راست کھلے گٹر میں لینڈ کرگیا۔ چھوٹے کے ساتھ یہ معاملہ ہوا کہ زیادہ صفائی ستھرائی کے خیال سے بلیچ استعمال کیا گیا کہ کئی دنوں سے چھت پر دھول مٹی میں موجود ہے تو ذرا اچھے طریقے سے صفائی ہوجائے گی ۔ بلیچ نے کام دکھایا اور کپڑے پر موجود ہر رنگ غائب ہوگیا ۔

معلوم ہی نہیں ہورہا تھا کہ یہی وہ جھنڈا ہے جسے کئی دنوں سے محلے والوں نے بڑی شان سے چھت کے ساتھ لگایا تھا۔ وہ اپنے بچوں کو سمجھا رہی تھی کہ دیکھو جب انسان الگ الگ اپنی جداگانہ شناخت کی خواہش رکھتا ہے تو وہ یونہی کسی سبب ناکام رہ جاتا ہے ، جیسا کہ ہمارے یہاں ہورہا ہے ۔ اغیار کسی نہ کسی طرح یہ فتور ہمارے ذہن میں ڈال دینا چاہتے ہیں کہ جو ہمارے ہموطن ہیں وہ ہمارے لئے نہیں صرف اپنے لئے جیتے ہیں۔ یہی سوچ تفرقہ ڈالنے کا سبب بن جاتی ہے ۔ہرصوبہ اپنا مفاد سوچتا ہے ۔ اتحاد میںدراڑ پڑجاتی ہے ۔ وہ بچوں کو لئے چھت پر پہنچی اور کہا کہ سب کے الگ الگ جھنڈے کسی نہ کسی وجہ سے صرف ایک نظریہ حیات یعنی منشور کی نمائندگی کررہے ہیں۔ جب یہ سب جھنڈے مل جائیں گے تو ایک وحدت بن جائیں گے۔ کسی کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے ۔ اتحاد سے رہیں گے تو کسی طوفان یا کسی مشکل وقت سے گزر نامشکل نہیں لگے گا۔ بچوں نے چاروں جھنڈوںکے ڈنڈوں کو سب سے خوبصورت سبز ہلالی پرچم کے ساتھ جوڑدیا اور کہا کہ جب ہم ایک ہی جگہ پر سب ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کی ڈھال بنے کھڑے ہونگے تو ہمارے اتحاد کی وجہ سے کوئی ہمیں کمزور نہیں سمجھے گا۔پڑوسی کا بیٹا جو اس کے بیٹے کا دوست تھا ،چھت پر پہنچا تو کہنے لگا کہ تمہارے چاروں مختلف سیاسی جھنڈے کہاں گئے۔

ان چاروں نے یک زبان ہوکر کہا کہ اب اسکی ضرورت نہیں رہی ۔ بس الیکشن میں کوئی انتخابی نشان الاٹ کردیا جائے، ہم سب صرف ایک پرچم تلے جمع ہوجائیں گے جیسا کہ ہمارے ملک کے بانی قائد اعظم نے ایک جھنڈے تلے تمام برصغیر کے مسلمانوں کو جمع کیا تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ زندہ قوم اپنی شناخت اپنے قومی پرچم سے کراتی ہے۔ ہم سب ایک ہیں ، ہمارا پرچم ایک ہے، اسکے علاوہ جتنے ہنگامے ہیں،وہ انفرادی شناخت ہے، سب فالتو چیزیں ہیں۔ چھت سے نیچے نظر پڑی تو ایک آدمی سڑک پر کھڑے پانی میں ٹھیلے پر لڈو رکھے بچوں کو آواز دے رہاتھا۔ لڈو کھاؤ ، لڈو خریدلو، پڑوسی نے کہا کہ دیکھو اس نے ٹھیلے پر اپنے پسندیدہ پرچم کی رونمائی اس طرح کی کہ اسے ٹھیلے پربچھا لیا ۔ میزبان کے سب سے چھوٹے صاحبزادے نے مستحکم لہجے میں کہا کہ اب ہم سب کو بتائیں گے کہ جھنڈے ہمیں کچھ فائدہ نہیں دیں گے ۔ ہمیں چاہئے کہ ان اشتہارات جیسے جھنڈوں پر رقم خرچ نہ کریں بلکہ اپنے محلے میں موجود پانی کی صفائی کروالیں جو نجانے کتنی بیماریوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ۔ ہم مالکِ حقیقی سے مدد مانگ کر اپنا کام کرتے رہیں گے ، حکمران ہماری فکر نہ کریں لیکن خود اپنی فکرِ آخرت تو کریں۔

شیئر: