Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاڑکانہ نے موہنجوداڑوکو بھی پیچھے چھوڑ دیا

’’آقاؤں‘‘ کو خوف ہے کہ اگر ان مفلسوں کو بے فکری کے دو نوالے میسر آگئے تو وہ ان کی ’’غلامی‘‘ کی تمام زنجیریں توڑ ڈالیں گے

 

تسنیم امجد۔ریاض

لاڑکانہ شہر کے نام کے ساتھ نامی گرامی سیاسی شخصیات منسلک ہیں پھر بھی صاحبان کی بے اعتنائی کا یہ عالم۔ اس شہر کی بے بسی و لاچاری نے توہزاروں برس قدیم موہنجوداڑوکی تہذیب کوبھی پیچھے چھوڑ دیا۔بلا شبہ موہنجوداڑو جیسے آثار کی ثقافتی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے ہاں کے غریب لوگوں کو نہ تعلیم میسر ہے اور نہ ہی زندگی کی آسائشیں۔پریشان حال یہی سمجھتے ہیں کہ وہ گھسٹ گھسٹ کر زندگی گزارنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر انہیں رات کو دو نوالے میسر آجائیں تو وہ خود کو ’’خوش نصیب تونگر‘‘سمجھنے لگتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیم شعور سے نوازتی ہے ، پیٹ کی فکرسے آزاد ی انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور سوجھ بوجھ عطا کر دیتی ہے۔ اسی لئے ہمارے عوام کو غربت اور نہوت کے پنجے سے آزاد کرانے کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کی جاتیں کیونکہ ’’آقاؤں‘‘ کو خوف ہے کہ اگر ان مفلسوں کو بے فکری کے دو نوالے میسر آگئے تو وہ ان کی ’’غلامی‘‘ کی تمام زنجیریں توڑ ڈالیں گے ۔ اسی لئے وہ ان ’’غلاموں‘‘ کو تعلیم و صحت جیسی سہولتیں فراہم کرنے سے گریز اں رہتے ہیں اورکوشش کرتے ہیں کہ عوام میںحقوق طلب کرنے کا احساس گہری نیند سویا رہے ۔ ہم سالانہ مختلف ایام صرف اس لئے مناتے ہیں کہ واہ واہ ہو جائے میڈیا پر دکھائی جانے والی تصاویر اور بیانات سے یہ ظاہر ہوسکے کہ ہم کتنے محب وطن ہیں۔لاڑکانہ صوبہ سندھ کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ 2000ء میں اس کا یوم نہایت اہتمام سے منایاگیا۔ اس موقع پر دل کھول کر پیسہ خرچ کیا گیا، کاش انہی دنوں اس کی بے سروسامانی پر نظر کرم ہوجاتی۔

اس شہر کے گرد 2نہریں ہیں جن میں اکثر غلیظ پانی نظر آتا ہے کیونکہ شہر بھر کی غلاظت اور صنعتی فضلہ انہی نہروں میں بہا دیا جاتا ہے ۔ حال ہی میں معلوم ہوا کہ سیاحوں کی ایک ٹیم اس گندگی پر خاصا چبھتا ہوا تبصرہ کررہی تھی۔ بدبو کی وجہ سے انہوں نے ناک پر رومال باندھ رکھے تھے، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان سیاحوں کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر ہمارے سر شرم سے جھک گئے ۔ کوئی جواب بن نہیں پارہا تھا۔ سنا ہے عوامی شکایت کے باوجود ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اتھارٹیز کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی جبکہ دادو جیسی نہروں کا شہر کے گرد ہونا خود شہر کا حسن ہے۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف روس اور سائبیریا سے مختلف اقسام کے پرندوں کا آنا اور چہچہانا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ قدرت کا عطا فرمودہ حسن ہے جس کی حفاظت اور افزائش ہمارا فرض ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جس کی تہذیب نے دوسروں کو معیار زندگی بلند کرنے کی ترغیب دی۔

دنیا میں بودوباش کے مثالی انداز کیا ہیں، اس کے داعی بھی ہم رہے۔ اسلام کی عالی تعلیمات کو دوسری اقوام نے مستعار لیا اور مثال بن گئیں۔ صفائی ستھرائی ہمارا طرۂ امتیاز ہے مگر ہم نے اسے چھوڑ دیا۔ہم نے مغرب کی پیروی کی اور بدقسمتی سے اپنی روایات کو نقصان پہنچایا لیکن ان کے وہ انداز نہیں اپنائے جو قوم کیلئے مفید ثابت ہو سکتے تھے ۔ صفائی ستھرائی یعنی ماحولیات کے بارے میں سیمینار بھی ہوتے ہیں جن میں حکومتوںکو یہ تجاویز دی جاتی ہیں کہ ماحولیات کا مضمون ابتدائی کلاسوں سے ہی پڑھایا جانا چاہئے ۔ بحیثیت مسلمان یہ احساس ہونا ضروری ہے کہ ہمیں گھر ، محلے اور شہر کو صاف رکھنا ہے۔ گندہ پانی آبی مخلوق کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ اس پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزار کر سمندر میں ڈالنا ضروری ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کیچڑ اور غلاظت والے ماحول میں عوام کی یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہے۔ کاش عوام کو بھی جمہوریت کا سبق پڑھایا جائے تاکہ وہ انتخابات کے وقت اپنے ووٹ کی اہمیت سے واقف ہوسکیں۔ماحول شخصیت کی تعمیر میں اولیں حیثیت رکھتا ہے۔ افرادی قوت پر توجہ اتنی ہی اہم ہے جتنی ٹیکنالوجی اور دوسرے شعبوں پر ۔

اصولی طور پر جمہوریت عوام دوست ہوتی ہے، حکومت اپنی پالیسیوں میں عوام کو ترجیح دیتی ہے لیکن افسوس! ہمارے ہاں جمہوریت کو اشرافیہ کی للو پتو سے فرصت ہی نہیں ملتی ۔ عوام روٹی ،کپڑے اور مکان کی سوچ سے باہر ہی نہیں آپائے ۔ کاش وطن میں بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق حالات پر منصوبہ بندی کی جائے ۔ پانی ایک ایسا محلل ہے جس میں کئی کثافتیں بآسانی حل ہوجاتی ہیں،آلودہ پانی زراعت کے لئے بھی مضر ہے ۔ یہ کثافتیں پودوں کی جڑوں سے ہوتی ہوئی پھل یاسبزی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یہ خوراک کے طور پر خودمہلک امراض کو دعوت دینے کا سبب بنتی ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ ہمیں اس صداقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر چیز کا معیار ہمیشہ اپنے معیار کے مطابق رکھنا چاہئے۔ اعلیٰ مخلوق کا معیار یقینا اعلیٰ ہونا چاہئے۔ ذہنی آلودگی بھی تبھی ہوتی ہے جب ماحول آلودہ ہو، اس کا اثر بدنظمی ، ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ پر منتج ہوتا ہے ۔بحیثیت مسلمان ہمیں فکر و تدبر کی ذمہ داری نبھانی چاہئے ۔ بقول شاعر:

دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے

نگاہوں میں نہ ہوں پیدا اگر انداز آفاقی

شیئر: