Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوام کی حالت زار ، صاحبان کو نہیں سروکار

ترقی یافتہ ممالک میں جہاں جمہوری نظام کا طوطی بولتا ہے وہاںکسی شوہر کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کی بیوی کس سیاستداں کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتی ہے عنبرین فیض احمد۔ ریاض جمہوری نظامِ حکومت کا بنیادی مطلب عوام کے لئے ، عوام کی حکومت ،عوام کے ذریعے ہے۔ انتخابات کا ا یک مقصد عوام کے بنیادی حقوق کا مکمل تحفظ ہوتا ہے۔ہمارے وطن عزیز میں بھی جمہوری حکومت رائج ہے۔ جمہوری حکومت میں جو بھی سیاسی رہنما منتخب ہوتا ہے وہ عوام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیتا ہے مگر ہمارے ہاں بعض لیڈرایسے بھی ہوئے جنہوں نے پہلے اپنی تجوری بھری پھر اپنے رشتہ داروں کا خیال کیااور اس کے بعد غریب عوام کی ترقی و خوشحالی کی طرف نگاہ ڈالنے کا ارادہ کیا مگر اسی دوران ان کی مدت مکمل ہو گئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاںبے جا اخراجات اورکرپشن کی وجہ سے غربت اور مہنگائی کی شرح میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل سے مشکل ترہوچکا ہے۔

عوام غربت اور مہنگائی کی وجہ سے رُل چکے ہیں۔ ہمارے ہاںتو انتخابی وعدے صرف عوام سے ووٹ لینے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ یوں انتخابات تو محض ایک سیاسی دنگل ہے جو بروقت اور کبھی بے وقت منعقد کرایا جاتا ہے۔اس دوران عوام کو خوشحالی کے خواب دکھائے جاتے ہیں اور روشن مستقبل کی نوید سنائی جاتی ہے ۔ انتخابات کی تکمیل کے بعد جیتنے والے صاحبان ، اختیارات ملتے ہی ’’یوٹرن‘‘ لیتے ہیں اور پھر ایسے ایسے اقدامات سامنے آتے ہیں جو عوام کو 8، آٹھ آنسو رُلاتے ہیں اور چہار سو کہرام بپا ہو جاتا ہے۔غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے زندگی ایک بوجھ بن کر رہ جاتی ہے ۔ پاکستان کا شمار ایک ایسی ریاست میں کیا جاتا ہے جہاں غربت ، افلاس ، جہالت نیز بے انصافی کو مٹانے کی بھرپور کوششیں جاری رکھی جاتی ہیں۔ ایک ایسی مملکت جہاں روزمرہ ضروریات کی تکمیل کو اپنا بنیادی فرض قرار دیا جاتا ہے اور شہریوں کی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیاہمارا شمار فلاحی ریاستوں میں ہوتا ہے؟ جمہوری نظام بے شک بہت مؤثر ہوتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں یہی نظام رائج ہے لیکن ہمارے ملک میں کئی رکاوٹیں ہیں ، کئی مسائل ہیں ، کئی دشواریاں ہیں جن کی وجہ سے یہ نظامِ ہمارے ملک میں کامیاب نہیں ہوتا۔اس حوالے سے سب سے پہلی جو خامی ہمارے ملک میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ شرح تعلیم 25تا30فیصد ہے جو درحقیقت نہ ہونے کے برابر ہے۔عوام وہ اپنا ووٹ بھی سوچ سمجھ کر استعمال نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات کے نتیجے میں جو بھی جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں، ان کے ادوار میں بے تحاشابدعنوانیاں ہوئیں، فرقہ واریت کو فروغ ملا۔

جمہوری نظام حکومت کاایک اہم پہلو آزادیٔ رائے بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں جمہوری نظام کا طوطی بولتا ہے وہاںکسی شوہر کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کی بیوی کس سیاستداں کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ بلا شبہ انتخابات جمہوریت کی ایسی گاڑی تصور کی جاتی ہے جس پر سوار ہوکر عوام سبک رفتاری کے ساتھ جمہوریت کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں توعوام اس امید پر اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں کہ شاید اب ہمارے ملک میں کوئی ایسی حکومت آجائے گی جو مظلوم کو ا نصاف دلائے گی، عوام کی پریشانیوں ، مسائل اور تکالیف کا مداوا کرے گی مگر ایسا نہیں ہوتااور عوام کی اُمیدیں محض خیال خام ہی ثابت ہوتی ہیں۔ مسندِ اختیارات پر براجمان ہونے سے پہلے ہر سیاسی ماہر بڑی بڑی باتیں کرتا ہے کہ یہ مسند عوام کی امانت ہے ، میں اس میں خیانت کر کے عوام کی نظروں میں گرنا نہیں چاہتا۔ میری زندگی کا مقصد غریبوں کی خدمت کرنا ہے ، یہی میری اولیں ترجیح ہے۔

مجھے آپ نے منتخب کیا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عوامی خدمات میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا مگر جب وہ منتخب ہو جاتا ہے تو اسے عوام یاد رہتے ہیں نہ وعدے، اسے امانت و خیانت کا خیال رہتا ہے نہ خدمت کا۔اسے کچھ یاد رہتا ہے تو صرف یہ کہ اپنا آج اور آئندہ نسلوں کاکل حَسین سے حَسین تر کیسے بنانا ہے ۔ انہیں اپنے اہل و عیال یاد رہتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کی ذمہ داریاں۔ہمارے غریب اور سادہ لوح عوام کے دلوں میں پھر بھی امید کی شمع روشن رہتی ہے کہ ایک دن کسی نہ کسی کو ہماری حالت زار پر رحم ضرور آئے گا، ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے اور ملکی حالات میں بہتری آئے گی۔

شیئر: