Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرکز اور ریاستوں کے درمیان کشیدگی

 
ملک کی آزادی کے فورا ً بعد ای ایم ایس نمبودری پدکیرالا کے وزیراعلیٰ تھے۔ ان کا نئی دہلی سے اختلاف تھا جہاں کانگریس کی حکومت تھی
 
کلدیپ نیر
 
ترنمول کانگریس او ر بی جے پی کے درمیان ٹکراو میں ایک تبدیلی جس پر توجہ نہیں دی گئی وہ مرکز اور ریاستوں کے درمیان روابط کی کمزوری ہے۔ جب مرکزی ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) نے مغربی بنگال میں بی جے پی دفتر کی حفاظت کی تو اس سے عوام تک یہ پیغام گیا کہ مرکز کو حتمی اختیار حاصل ہے اور یہ کہ وہ اپنے وعدے کی تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے اس کی اپنی فورس ہے۔
جب مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی نے کہا کہ ان کی بھی حکومت ہے تو انہوں نے گویا مرکز کو مقابلے کی دعوت دی کہ ریاست خود اپنے امور میں سب سے زیادہ بااختیار حیثیت رکھتی ہے۔ ہندوستان ایک وفاقی سیاسی نظام ہے۔ جیسا کہ آئین میں مذکور ہے۔ ریاستوں کی اپنی خود مختاری ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے کئی فیصلوں میں کہا ہے کہ مرکز ریاستوں کو دبانے کے لئے بیجا اقدامات نہیں کرسکتا۔ یہ وہی پرانی کہانی ہے یعنی مرکز کیخلاف ریاستوں کا اصرار ہے۔ یہ بات پہلے بھی کئی ریاستوں کے ساتھ ہوئی ہے۔ کیرالہ میں جہاں کے معاملات میں اکثر کمیونسٹوں کو بالادستی حاصل رہی ہے، نئی دہلی نے کئی بار خلل ڈالا جس میں ملک میں پہلی بار صدر راج کا نفاذ بھی شامل ہے۔
ملک کی آزادی کے فورا ً بعد ای ایم ایس نمبودری پدکیرالا کے وزیراعلیٰ تھے۔ ان کا نئی دہلی سے اختلاف تھا جہاں کانگریس کی حکومت تھی۔ مرکز انسدادی حراست قانون میں توسیع کرنا چاہتا تھا لیکن نمبودری پد نے یہ دلیل پیش کی کہ یہ طریقہ برطانوی اقتدار کا تھا اور وہ ملک کے جمہوری ڈھانچے سے موزونیت نہیں رکھتا تھا۔ انہوں نے اس قانون کے نفاذ کی مخالفت کی۔ وزرائے اعلیٰ میں وہ ایسا کرنے والے واحد شخص تھے۔ میٹنگ میں موجود مغربی بنگال کے قد آور وزیراعلیٰ بی سی رائے کو ان پر اتنا غصہ آیا کہ انہو ںنے یہ کہا کہ ہمارے درمیان آپ واحد محب وطن ہیں۔ نمبودری پد اپنے موقف سے نہیں ہٹے اورمحض اتنا ہی بولے کہ ان کے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتے لیکن وہ اپنے انکار کو در ج کرانا چاہتے تھے، جب بات آئی کہ ان کی پارٹی کے موقف کی توثیق کرے یا نہیں تو اس نے نمبودری پد کی مکمل حمایت کی۔
تاہم ان کی بات سچ ثابت ہونے میں زیادہ دن نہیں لگے۔ ریلوے کی ہڑتال کا سامنا جب مرکز کو ہوا تو حکومت کیرالا نے ریلوے ملازمین کی تائید کی، اس سے حوصلہ پاکر ریلوے کارکنان نے ریاست میں مرکزی دفاتر کو آگ لگائی۔ وہاں کی املاک کی حفاظت کیلئے سی آر پی ایف کو تعینات کیا۔ ایسے میں پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا مشکل ہوجاتا ہے جب اس ریاست کی پولیس فورس ملک کی املاک کے تحفظ کیلئے کچھ نہ کرسکے اور خود اس ریاست کی املاک کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ خوش قسمتی سے کوئی آر پار کا مقابلہ نہیں ہوا کیونکہ مرکزی حکومت نے ملازمین کے مطالبات تسلیم کرلئے اور ہڑتال سے اس طرح نجات مل گئی۔ 
ریلوے ہڑتال کی دھمکی کے نتیجے میں زونل کونسلوں کی تشکیل کی گئی۔ مشرقی ،مغربی، شمالی اور جنوبی کونسلوں کی صدارت وفاقی وزیر داخلہ کو سونپی گئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ریاستیں آپس میں اس معاملے پر بات چیت کرسکیں تاکہ مسئلے کے پارلیمنٹ کے سامنے جانے سے پہلے وہ اختلافات رفع کرلیں۔ کانگریس کا اقتدار رہنے تک یہ کونسلیں باقی رہیں۔ جب ریاستوں میں دیگر پارٹیوں کا اقتدار ہوگیا تو یہ سلسلہ کارگر نہیں رہ گیا اور آخر کار 1977 ءمیں یہ ختم ہوگیا۔ جب کئی پارٹیوں کے اشتراک سے وجود میں آئی جنتا پارٹی مرکز میں برسراقتدار آگئی، اس وقت یہ کہا گیا کہ زونل پارٹیوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ برسراقتدار پارٹی ان سب کی نمائندگی کر رہی ہے۔
بصورت دیگر بھی مرکز اور ریاستوں کے رشتے اچھے نہیں رہے۔ خصوصاً بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ دیگر پارٹیوں کے زیر اقتدار ریاستوں پر اپنا نظریہ تھوپنے کی فکر میں لگی نظر آتی ہے۔ آر ایس ایس کی اپنی فوج ہے ۔ حزب مخالف اس پر برہمی کا اظہار کرتی ہے۔ اگر بی جے پی نے اس طرح کی پالیسیاں وضع کرنا جاری رکھا جس سے اس کے نظریے کی عکاسی ہوتی ہو تو وفاقی ڈھانچے کے تانے بانے کو ہی خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ بی جے پی کے سرکردہ افراد کو اس پر توجہ دیتے ہوئے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ملک کے اتحاد پر ضر ب نہ پڑے۔
لیکن بدقسمتی سے 5 ریاستوں یعنی اتر پردیش، اتراکھنڈ، پنجاب،منی پور اور گوا میں انتخابات کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی بی جے پی ان ریاستوں میں اقتدار پر قابض ہونے کے لئے تمام ہتھکنڈے آزمانے پر کمربستہ ہوگئی ہے۔ وزیراعظم مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ پارٹی کے اقتدار کو وسعت دینے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی تقریریں پارٹی کے ارادوں کی غماز ہیں۔
بڑی حد تک سماج وادی پارٹی میں خانگی اختلافات کی وجہ سے بی جے پی کا مقصد حل ہوگیا مگر الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے اکھلیش کی پوزیشن مضبوط ہوگئی، پہلے بھی کیونکہ وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کے ساتھ ایم ایل اے صاحبان کی اکثریت ہے اور انہیں ہٹائے جانے کا کوئی سوال تھا نہیں۔ ہوسکتا ہے کوئی اہم بات نہ ہو لیکن اس سے پارٹی کی شبیہ داغدار ہوئی ہے۔ اکھلیش کو ضرور فائدہ پہنچے گا کیونکہ رائے دہندگان کی نظر میں ان کی شبیہ ایک صاف ستھرے کردار والے شخص کی ہے جو شفافیت کے ساتھ ریاست کا نظم و نسق چلانے کیلئے کوشاں رہے ہیں۔ ان کے فلاحی اقدامات بھی ان کی شہرت میں معاون ہونگے۔ کانگریس نے بھی بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے ایس پی کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ کا اعلان کردیا ہے۔
پنجاب کا منظرنامہ اس سے کچھ مختلف نہیں۔ اکالی بی جے پی اتحاد کو مزید اکثریت اسلئے حاصل ہوسکتی ہے کہ عام آدمی پارٹی کے پاس ایسا کوئی چہرہ ہے نہیں جسے وہ پنجاب والے شخص کے طور پر سامنے لاسکے۔ اتراکھنڈ عدالت کی مداخلت سے پہلے راوت حکومت کو بے دخل کرنے کی بی جے پی کی کوشش کیوجہ سے کانگریس کو تھوڑا سا سہی فائدہ مل سکتا ہے۔ منی پور او رگوا میں سب سے زیادہ مقامی عناصر کو اہمیت حاصل ہوگی لیکن کانگریس کے مزید واحد متبادل نہ رہ جانے پر بی جے پی سبقت کو بعید ازقیاس قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی رہے بی جے پی کے زیر اقتدار مرکز ان ریاستوں خصوصاً مغربی بنگال کو نظرانداز نہیں کرسکتا جہاں اس کی حالت کمزور ترین ہے۔ ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان آئے دن کی نوک جھونک حالات کو مزید خراب کرسکتی ہے اور عوام کو جمہوری نظام پر ہی سوال اٹھانے پر آمادہ کرسکتی ہے۔
******

شیئر: