Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں کھیت کھلیان آباد کرنے والے پاکستانی کسان

پردیس میں رہتے ہوئے ہمیں پیسے مل جاتے ہیں ، دوست احباب اور گلی محلہ یاد کرتے ہیں،ہم تو یہاں ایک کھانا کئی دن بھی کھاتے ہیں مگروہاں بچے اچھا کھاتے ہیں ،ان کا وقت اچھا گزر رہا ہے بس یہی سوچ کر دل خوش ہوتا ہے

 

* * * * * * رپورٹ وتصاویر :مصطفی حبیب صدیقی* * * * * * *

سعودی عرب میں مقیم پاکستانی اور ہندوستانی ہر شعبے میں اپنی محنت سے ملک کا نام روشن کررہے ہیں ،اردونیوز نے ہم وطنوں کی اس محنت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی قربانیوں اور مسائل کو بھی سامنے لانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔اسی حوالے سے گزشتہ دنوں ہم نے طائف سے 30کلومیٹر کے فاصلے پر الفیتات گائوں کا رخ کیا۔مکہ سے طائف جاتے ہوئے ہدا سے دائیں جانب واقعہ پہاڑی سلسلے میں یہ چھوٹا ساگائوںنما علاقہ کھیتی باڑی کیلئے معروف ہے۔

اس مرتبہ بھی ہمیں سلیم بھائی کی رہنمائی حاصل تھی ،پہلے انہوںنے مکہ میں پہاڑوں پر قائم روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تک پہنچنے اور رپورٹ بنانے میں ہماری مدد کی تھی گوکہ وہ خود بھی روہنگیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری گاڑی سڑک سے جب کھیت کھلیان کے درمیان کچی پکی سڑک کی جانب مڑی تو ایسا لگا جیسے ہم پاکستان یا ہند کے کسی گائوں دیہات میں پہنچ چکے ہوں۔چاروں طرف موجو دہریالی ،خوشگوار اور ٹھنڈی ہوااور دلفریب نظارے ہمارے منتظرتھے مگر ہمارا مطمع نظر تو اپنے ہم وطنوںسے ملاقات تھی۔ اس علاقے کو الفیتات کہتے ہیں ۔

یہ گو یا ایک چھوٹا سا گائوں ہے جہاں جرجیل اور کوسہ کے کھیت لگے تھے۔ نماز کا وقت ہوچکاتھا اس لئے پہلے مسجد کا رخ کیا۔گائوں کی چھوٹی مگر ہر لحاظ سے صاف ستھری مسجد میں نماز ادا کرنے پہنچے تو ہماری ملاقات عدنان سے ہوگئی۔شلوار قمیض میں ملبوس دیکھ کر ہی میں نے اندازہ لگالیا یہ پاکستانی ہے۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ سامنے کھیتوںمیں آپ کو پاکستانی کسان مل جائیں گے۔عدنان یہا ں ایک گھر میں ڈرائیور ہے۔ نماز کے بعد مسجد سے نکلنے لگے تو ایک سعودی شہری عبداللہ الاوفی سے ملاقات ہوئی ۔عبداللہ الاوفی کی اپنی کئی زمینیں ہیں ۔

وہ سبزیاں اگاتے ہیں۔وہ اصرار کرکے ہمیں اپنی زمین پر لے گئے جہاں ان کے کھیتوں میں ایک نوجوان کام کررہا تھا۔نام پوچھنے پر اس نے نوید بتایا ۔اس کا تعلق لاڑکانہ سے ہے۔عبداللہ الاوفی کے پاس 13سے زیادہ کھیتیاں ہیں اور درجنوں پاکستانی وہندی کسان ہیں۔ ان کے تمام کھیتوںمیں سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔ان کے کھیتوں میں12سے زیادہ سے پاکستانی وہندوستانی کسان ہیں۔ نوید ہمیں دیکھ کر کچھ دیر تو حیران رہا پھر خوشی اس کے چہرے پر نمایاں تھی ۔یقینا ہم وطن کو دیکھ کر خوشی ہونی بھی چاہئے۔نوید کب سے ہو اور کیسے گزراوقات ہوتی ہے ۔ہم نے جاتے ہی ہاتھ ملایاسلام کیا اور سوال کرڈالا۔ نوید نے بتایا:میں یہاں 2مہینے پہلے آیا ہوں۔1500ریال تنخواہ ہے جبکہ سب ذمہ داری بھی کفیل کی ہے۔کھیتی باڑی کرتا ہوں۔پاکستان میں لاڑکانہ سے تعلق ہے ۔وہاں بھی کھیتی باڑی کرتے تھے۔وہاں چاول اگاتے تھے۔پاکستان مہینے میں ایک مرتبہ بات ہوتی ہے۔انٹرنیٹ نہیں ہے۔

اس لئے فون کرنے میںپیسے بہت لگتے ہیں اس لئے کوشش کرتے ہیںکہ پیسے بچ جائیں۔نوید کافی بھولالگا ۔معصومیت چہر ے پر عیاں تھی ویسے ہی معصومیت جو ہمارے ممالک میں دیہی علاقوں کے باشندوں میں ہوتی ہے۔نوید نے بتایا کہ وہ یہاں جرجیل اگاتا ہے جبکہ ساتھ ہی کھیت اطراف امرود کے درخت بھی لگے تھے گو کہ امرود نہیں تھے ۔نوید نے بتایا کہ یہاں کھیتی باڑی آسان ہے وہاں مشکل ہے۔ عبداللہ الاوفی نے کافی اصرار کیا کہ ہم ان کے ساتھ اندر مزید کھیتوں میںجائیں مگر ہم پیچھے ایک کھیت چھوڑ آئے تھے جہاں کچھ پاکستانی کسان نظر آئے تھے لہذا ہم نے معذرت کی ،شکریہ اداکیا اور پھر دوبارہ اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ یہ کوسہ یا تورئی کہہ لیں اس کا کھیت تھا۔ہم اپنی گاڑی سے اترے تو وہاں موجود کسان کچھ دیر کیلئے ہماری طرف متوجہ ہوئے پھر کام میں لگ گئے۔خیر تھوڑا قریب پہنچ کر ہماری ملاقات قاسم ہوئی ۔

قاسم بھی لاڑکانہ سے تعلق رکھتا ہے ،7ماہ سے کھیتوں میںکام کررہا ہے۔قدرے پڑھالکھا لگا ،نوجوان ہے اس لئے اعتماد بھی کافی زیادہ تھا۔میں نے اپنا تعارف کرانے کے بعد سوال کیا کب آئے ،کیا کرتے ہو،بیوی ہے وغیرہ یہ میرا انداز ہے کہ تاکہ زیادہ سوالات کے بعد سامنے والا کھل کر بات کرے اور اسے رکنانہ پڑے ،قاسم میرے سوالات پر بتانے لگا۔ شادی کے ایک سال بعد ہی یہاںآگیا۔ ایک بچہ ہے ۔بس یہاں سے بیٹھ کر بیوی کو یاد کرتے رہتے ہیں۔لاڑکانہ سے تعلق ہے ۔کھیتی باڑی کرتا ہوں۔بڑی مشکل سے پاکستان بات ہوتی ہے کیونکہ پیسے نہیں ہوتے۔انٹرنیٹ ہے ۔یہاں جو بھی کماتے ہیں کچھ نہیں بچتا۔تنخواہ 1200ریال ہے ،رہائش اور کھانا کفیل کا ہی ہے۔یہاں ہم سبزیاںاگاتے ہیں وہی کھاتے بھی ہیں۔رہائش کھیتوں کے ساتھ ہی ہے۔بس جب بیوی یاد آتی ہے تو یہیں بیٹھ کر کچھ دیر سوچ لیتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔ یہیں جانور بھی مل جاتے ہیںکبھی کبھار انہیں ذبح کرلیتے ہیں مگر اکثر سبزیوں پر ہی گزارا ہوتاہے۔ہم اب واپسی کا سوچ رہے ہیں ،سوچتے ہیں کہ اتنی محنت وہاں جاکر اپنے لوگوں میں کرینگے ۔ کھیتوںمیں کام کرتے ہوئے کچھ اور کسان بھائیوںسے بھی ملاقات ہوئی ان میں ایک کا نام نجم دین ہے ۔

ان تمام ہی کسانوں کا تعلق لاڑکانہ ضلع سے ہے جبکہ ان کے علاقے کا نام نصیرآباد ہے۔ نجم دین نے ہمارے سوال پر بتایا کہ صبح6بجے سے اٹھ کر کام شروع کرتے ہیں ۔9بجے کے بعد ناشتہ کرتے ہیں ۔12بجے کام ختم ہوتا ہے۔2بجے پھرکام شروع کرتے ہیں اور شام6بجے تک کھیتی باڑی کرتے ہیں۔یہاں سب کام ہاتھ سے ہوتا ہے۔ٹریکٹر ایک مرتبہ آکر زمین پر چلتا ہے اس کے بعد بیچ وغیرہ ڈالنا اور دیکھ بھال رکھنا ہمارا کام ہوتا ہے۔ہر ماہ نیا کھیت لگاتے ہیں۔ یہاںکافی آسان کھیتی باڑی ہے جبکہ وہاں کافی مشکل مرحلہ ہوتے ہیں۔ہمیں دو اور ایک سال ہوچکا ہے۔یہاں کام بہت ہے۔جمعہ کو بھی کام کرتے ہیں۔پاکستان میں اپنی بیوی بچوں اور ماں باپ کیلئے محنت کررہے ہیںمگر وہاںپاکستان میں گھر والے نہیں مانتے کہ یہاںاتنا کام ہے۔وہ کہتے ہیںکہ تم جھوٹ بول رہے ہو تاکہ ہم پیسہ نہیںمانگیں جبکہ ہم تو سارا پیسہ بھی انہیں بھیجتے ہیں۔یہاں دن رات کام ہوتا ہے۔

تفریح وغیرہ کچھ بھی نہیں۔یہاں ہم زیادہ کماتے ہیں یہاں ہمارا 1000،1200 ریال تک دیہاڑی بن جاتا ہے جبکہ وہاں روز کا 200روپے تک ہی بڑی مشکل سے ہوپاتا تھا۔ادھر ہم خوش ہیںکہ ہمیں اچھی خاصے پیسے مل جاتے ہیں جس سے ہمارا خاندان اچھی زندگی گزارتا ہے۔ بس ہم مہینے میں ایک مرتبہ فون کرلیتے ہیں کیونکہ پیسے بچانے ہوتے ہیں ۔ نجم دین نے اعتراف کیا کہ پردیس میں رہتے ہوئے ہمیں پیسے مل جاتے ہیں مگر دوست احباب اور گلی محلہ یاد کرتے ہیں ۔ میرے سوال پر ایک اور کسان نثر نے کہا کہ یہاں آرام نہیں کرسکتے۔بخار ہو ۔بیمارہوں۔کام کرنا ہوتا ہے کیونکہ اگر کام نہیں کرینگے تو اس دن کا پیسہ کٹ جائے گا۔ ہم غریب ہیں پیسے کٹ جائیں تو پھر پاکستان میں کیا بھیجیں گے۔تفریح کا کوئی موقع نہیں ہوتا۔دل بھی نہیں چاہتا ۔طائف قریب ہے مگر دل ہی نہیں چاہتا گھومنے پھرنے کا ،بس اپنے بیوی بچوں کیلئے آئے ہیں تو محنت کرتے ہیں۔ قربان نے بتایا کہ کھانے وغیرہ کیلئے ہم یہاں بکرے وغیرہ خود ہی ذبح کرلیتے ہیں،مرغیاں بھی ذبح کرتے ہیں۔ ہم سے سب سے زیادہ بات نجم دین نے کی وہ قدرے ہوشیار اور باتونی لگا جبکہ دل بھی کافی دکھا ہوا تھا ،درمیان میں کہنے لگا کہ بھائی پاکستان بہت یادآتا ہے۔ میرے 5بچے ہیں۔سب سے بڑی بچی 7سال کی ہے ۔ بچے بہت یاد کرتے ہیں ۔بچے بلاتے ہیں کہ ابو واپس آجائومگر ہم جیسے بھی ہوں وہ لوگ تو اچھا کھارہے ہیں۔ بس یہی خوشی ہوتی ہے۔ہم تو یہاں ایک کھانا کئی دن بھی کھاتے ہیں مگروہاں بچے اچھا کھاتے ہیں ،ان کا وقت اچھا گزر رہا ہے بس یہی سوچ کر دل خوش ہوتا ہے۔پاکستان جانے کا دل بھی نہیں کرتا کیونکہ وہاں کام بھی نہیں۔وہاں کی حکومت کوئی کام نہیںکرتی۔ہم کو تو کراچی میں فیکٹری میں بھی کام نہیں ملا۔اگر وہاں کام ہوتا اور لیڈر کام کرتے تو ہم یہاں کیوںآتے۔وہاں ووٹ دیتے ہیں مگر گائوں کا لیڈر ہمیں ووٹ نہیں ڈالنے دیتا وہ خود ہی ووٹ ڈال دیتا ہے۔وہ لوگ کھارہے ہیں۔ہمارے لئے کچھ نہیں کرتے ۔ان ہی سیاستدانوں کی وجہ سے تو ہم یہاں پڑے ہیں۔گائوں کے بڑے بڑے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔غریبوں کا کسی کو خیال نہیں۔ قربان نے درمیان میں جملہ دیا کہ اگر پاکستان میں ہمارے لیڈر کام کریں تو ہم کیوں دردر کی ٹھوکریں کھائیں۔وہ لوگ اپنا پیٹ بھرتے ہیں ہم غریب پردیس میں ٹھوکریں کھاتے ہیں۔یہاں بجلی اور پانی سب کچھ ہے جبکہ ہمارے ہاں سہولتیںنہیں۔ اگر ہماری حکومت بھی ہمیں یہی سہولت دے تو ہم وہاںجاکر کام کریں۔

ایک کسان نثر نے بتایا کہ وہاں گائوں میں ہمارے لیڈر ہمارے ساتھ ناانصافی کرتے ہیںجس کی وجہ سے ہم یہاں پڑے ہیں۔ وہاں گندم چاول اگاتے تھے مگر یہاںچاول یا گندم نہیں ہوتا اگر ہمیں نوکری دیں تو ہم وہاں دوبارہ جائیں اور اپنی فصلوںمیں کام کریں،بھائی پڑھے لکھے ہیں مگر نوکری نہیں۔ پاکستان کے سیاسی لیڈروں اور وڈیروںسے ہزار شکایات کے باوجود کسانوں کی زبان پر اپنے ملک کے لئے دعا ہی تھی ۔آخر میں سوال کیا کہ پاکستان کے رہنمائوںکو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں تو اس کا آغاز بھی دعا سے کیا۔ پاکستا ن کو اللہ خوش رکھے اور ترقی کرے۔پاکستان ہمارا ملک ہے ۔بس بہت یاد آتا ہے ۔ حکومت سئے درخواست ہے کہ ہمیں نوکری دیں اور روزگار دیں تو ہم اپنے ملک آکر کام کریں۔ اپنے گھر والوں کیساتھ رہیں۔ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ ہم تنہا ریہاں رہیں ۔ ہم واپسی کیلئے پلٹے تو راستے میں ہماری ملاقات مولی کے کھیت میں کام کرتے ہوئے ایک کسان محمد جان سے ہوگئی۔

محمد جان کو اردو بالکل نہیں آتی تھی وہ ڈیرہ غازی خان کا رہنے والا ہے۔بڑی مشکل سے میں نے اس کا نام پوچھا۔محمد جان تو نہایت ہی معصوم لگا۔بالکل ایک بچے کی مانند ۔اپنے ملک سے اب تک مانوس اس کی آنکھیں ہی کئی سوالات کررہی تھیں ۔وہ کھیتوں کے ساتھ ہی سبزیاں بھی فروخت کرتا ہے ۔ب

ڑی مشکل سے صرف اتنا بتاسکا کہ پاکستان بڑی مشکل سے بات ہوتی ہے۔اس نے کہا کہ بڑی مشکل ہے مگر کام کرتے ہیں،یہاں مولی اگاتے ہیں۔ اس طرح کھیتوں میں پاکستانیوں سے ملاقات کا ہمارا یہ سفر مکمل ہوا۔واپسی میں سارے راستے یہی موضوع زیربحث رہا کہ اگر ہماری حکومتیں واقعی کچھ کرلیں ،ہمارے لیڈر جو ووٹ لیتے ہیں واقع حقیقی معنوں میں کام کریں تو پھر ہم لوگوں کو بے وطن نہ ہونا پڑے۔ امید ہے کہ آپ لوگوں کو اردونیوز کا یہ سلسلہ پسند آرہا ہوگا۔آئندہ پھر کسی نئے مقام سے ملاقات ہوگی۔آپ کی آراء اور تجاویز کا انتظار رہے گا جبکہ آپ کسی ایسی جگہ ہیںجہاں چاہتے ہیں کہ ہم پہنچیں اور آپ کے مسائل جانیں تو نیچے دیئے گئے ای میل پر یا فون نمبر پر ہم سے رابطہ کریں۔

محترم قارئین !

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز اور کہانیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ۔آئیے اپنی ویب سائٹ www.urdunews.com سے منسلک ہوجائیں۔۔ہمیں اپنے پیغامات کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔ہم سے فون نمبر- 0966122836200 -ext: 3428۔آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔

 ای میل

[email protected]

 

شیئر: