Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سی پیک میں مغرب کی دلچسپی

 
مغرب کی یہ خوبی ہے کہ وہ اقتصادی مفادات کو سیاسی تنازعات یا اختلافات کا شکار نہیں ہونے دیتے
 
ارشادمحمود
 
پاک چین معاشی راہداری کی گونج اب مغربی ممالک میں بھی سنائی دے رہی ہے۔یورپی یونین کے کئی ایک ممالک خاص طور پر برطانیہ سی پیک میں گہری دلچسپی لے رہاہے۔پہلی مرتبہ برطانیہ نے پاکستان میں انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ میں براہ راست خطیررقم کی امداد فراہم کی۔قبل ازیں برطانیہ پاکستان کی تعلیم اور سماجی شعبے میں مدد کیا کرتاتھا۔ 
مغرب کی یہ خوبی ہے کہ وہ اقتصادی مفادات کو سیاسی تنازعات یا اختلافات کا شکار نہیں ہونے دیتے۔وہ تنازعات اور سیاسی محاذ آرائی کے بیچ سے بھی اپنے عوام اور ریاست کی خوشحالی کی راہیں نکال لیتے ہیں۔روس، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی سی پیک میں دلچسپی نے اسے غیر معمولی اہمیت کا حامل بنادیا ہے۔ہر کوئی اس مختصر روٹ سے فائدہ اٹھانا چاہتاہے اور اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرناچاہتاہے۔جرمنی کے اسلام آباد میں سفیر باخبر شہریوں سے ملاقاتوں میں استفسار کرتے رہے ہیں کہ ان کا ملک کس طرح سی پیک سے فائدہ اٹھاسکتاہے۔
اقتصادی راہداری کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ کر کئی ایک ممالک کو احساس ہوا کہ وہ اس کا حصہ بن جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اقتصادی ثمرات سے فائدہ اٹھاسکیں۔یہ محض سڑکوں کا کوئی منصوبہ نہیں بلکہ کئی بڑے اقتصادی منصوبے اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ریلوے، پائپ لائنیں، بجلی گھر اور بڑے اقتصادی زون۔اگلے چند سالوں میں ہونے والی اس سرمایہ کاری سے پاکستان میں ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومے گا۔بیرون ممالک سے کئی ایک سرما یہ دار اور ملٹی نیشنلز بھی پاکستان میں سرما یہ کاری پر راغب ہورہے ہیں۔ ابھی سے مسابقت کا ماحول نظر آنا شروع ہوگیا۔
ملک میں امن وامان کی صورت حال میں آنے والی بہتری سے ہی کاروبار اور روزگار کے بے شمار مواقع نکلتے نظر آرہے ہیں۔ بازاروں میں غیر ملکیوں اور خاص کر چینی شہریوں کی بڑی تعداد گھومتی پھرتی نظر آتی ہے۔تعلیمی اداروں میں چینی زبان پڑھائی جانا شروع ہوچکی ہے۔نجی تعلیمی ادارے بھی چینی زبان کے چھوٹے چھوٹے کورسز کرارہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو چینی کمپنیوں کے دفاتر اور فیلڈ میں کام میسر آسکے۔
افراد اور اداروں کی طرح ملکوں نے بھی ایک تھریش ہول عبور کرنا ہوتاہے۔اس کے بعد غربت کا خاتمہ کوئی بڑی بات نہیں رہتی۔سرمایہ سرمائے کو کھنچتاہے اور ڈوبتے ہوئے ادارے اپنے پاوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔دنیا نے دیکھاکہ چین پاکستان میں50 بلین ڈالر سے زائد کی رقم مختلف تعمیراتی منصوبوں میں صرف کرنے جارہاہے تو دوسرے ممالک اور عالمی اداروں کا دلچسپی لینا ایک فطری امر ہے۔ جموں وکشمیر کی وزیراعلی محبوبہ مفتی نے بھی تجویز پیش کی ہے کشمیر کے ذریعے ہند اقتصادی راہداری سے مربوط ہوسکتاہے۔اس طرح اسے قدیم اور تاریخی سلک روٹ سے منسلک ہونے کا موقع ملے گا اور یہ خطہ ترقی کرے گا۔انہوں نے پہلے جاری انٹرا کشمیر ٹریڈ روٹ کی مثال دی جس کے معاہدے میں معمولی سی تبدیلیوں سے کشمیر کو بھی سی پیک کے ثمرات سے مستفید کیا جاسکتاہے۔چند دن قبل پی جے پی کے رہنما یشونت سنہا نے سینیئر ہندوستانی شہریوں کے ہمراہ کشمیر کے دورے کے بعد ایک رپورٹ حکومت کو پیش کی جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں پاک، چین اقتصادی راہداری کے ساتھ جڑنے کے لیے کافی اشتیاق پایاجاتاہے۔بلوچستان کے کورکمانڈر لیفٹینٹ جنرل عامر ریاض نے بھی ہند کو دعوت دی ہے کہ وہ پاک چین راہدا ری کے اقتصادی ثمرات کو سمیٹے کے لئے اس کا حصہ بن جائے اور اس کی مخالفت ترک کردے۔فی الحال تو ہند اس طرح کا کوئی فیصلہ کرنے کے موڈ میں نہیں بلکہ وہ ہمسا یہ ممالک کے اشتراک سے متبادل روٹ اور سرما یہ کاری کے منصوبوں پر سرگرمی سے کام کررہاہے۔
امریکہ نے ابھی تک کھل کر پاک، چین اقتصادی راہداری کی مخالفت نہیں کی لیکن وہ اس سے خوش بھی نظر نہیں آتا ہے۔چین کے ساتھ اس کی اقتصادی مسابقت ہی نہیں بلکہ وہ اس کے فروغ پذیر عالمی کردار سے بھی خائف ہے۔ ساوتھ چائنا سی میں امریکہ اور جاپان مشترکہ طور پرچین کے خلاف مورچہ قائم کرچکے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ وہ چین کے بارے میں کیا پالیسی اختیار کریں گے لیکن یہ ضرور کہا جاسکتاہے کہ واشنگٹن کی موجودہ اسٹبلشمنٹ چین اور روس کے سخت خلاف ہے۔اگر ٹرمپ نے کوئی لچک دار پالیسی نہ اپنائی تو خطے میں امریکہ اورہندکے مفادات یکساں ہوجائیں گے۔ وہ دونوں جاپان کے ساتھ مل چین کے خلاف اقدامات کریں گے کیونکہ پاکستان بھی چین کا گہرا حلیف ہے لہذا اسے بھی مشکلات کا شکار کیا جاسکتاہے۔خاص طور پر افغانستان میں اس کا کردار اور ہند مخالف شدت پسندگروہوں کی پاکستان میں موجودگی مغربی دنیا بالخصوص امریکہ میں پاکستان مخالف لابی کے آزمودہ ہتھکنڈے ہیں۔۔ ایسا لگتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دور بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔
خوش قسمتی سے امریکہ اور چین کے تعلقات میں ٹھہراوآگیا تو پھر امکانات کے نئے دروازے واہوسکتے ہیں۔خاص کر افغانستان میں قیام امن کے لیے دونوں ممالک مل کر کام کرسکتے ہیں۔امریکہ ہند کوجب کہ چین پاکستان کو افغانستان میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرنے کی طرف راغب کرسکتاہے۔امریکہ اور چین مل کر پاک ہند تعلقات میں بہتری کےلئے بھی کام کرسکتے ہیں۔
اگلے چند ماہ میں ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کے کچھ خطوط اور مستقبل کا نقشہ سامنے آئے گا۔فی الحال صرف قیاس آرائی ہی کی جاسکتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ پاکستان کو جہاں داخلی سلامتی کی فکر کرنا ہوگی وہاں ان غیر ریاستی عناصر کی بھی سختی سے سرکوبی کرنا ہوگی جو پاکستان کی سرزمین کودوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرتے ہیں یا پھر اس کے جھوٹے اعلانات کرتے ہیں۔
یہ سو چنے کی بھی ضرورت ہے کہ کب تک چین جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو سلامتی کونسل میں ویٹو کرکرکے دہشت گرد قراردلوانے سے بچاتارہے گا۔پاکستان نے ان عناصر کو غیر موثر کرنے کے لئے بے پناہ کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں کافی کامیابیاں بھی ملی ہیں لیکن مزید اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ ترقی کا سفر اور مغربی ممالک کی مخالفت بالخصوص امریکہ سے محاذآرائی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔کہتے ہیں نا کہ ہاتھی کے پاوں میں سب کے پاو¿ں۔فی الحال دنیا کے مالیاتی،سماجی اور ابلاغی اداروں پرامریکہ کی گرفت مضبوط اور گہری ہے۔ایسے مواقع پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے جہاں ہند اورامریکہ مشترکہ طور پر پاکستان کے خلاف بروئے کار آسکیں۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: