Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باواجی

 
ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آج ہماری فہم و فراست کا بڑا حصہ محترم ”میدا “ کی عطا کی ہوئی آگہی پر مبنی ہے
 
شہزاد اعظم
 
ہم نے اپنا بچپن وطن عزیز کے کسی ایک شہر میںجھک مار کرنہیں گزارا بلکہ مختلف صوبوں کے بڑے بڑے شہروںکو ہم نے ”اعزازِقیام“ سے نوازا۔سیکھنے کی لت نے اوائل عمری سے ہی ہمارا پیچھا لے لیا تھا یہی وجہ تھی کہ ہم جہاں بھی جاتے وہاں سے ہم کچھ نہ کچھ سیکھتے اور اچھوتی داستانیں سمیٹ کر انہیں اپنی کتابِ حیات میں شامل کر لیتے۔ اسی دوران ہم نے یہ سیکھا کہ لاہور میں جس نام کی عرفیت شیدا ہوتی ہے ، کراچی میں اسی نام کی عرفیت ”شیدو“ ہوتی ہے۔ اسی طرح کراچی میں کسی لڑکے کو اگر ”گڈو“ کہہ کر پکارا جاتا ہے تو لاہور پہنچ کر وہ ”گڈا“ ہو جاتا ہے ۔ ان حقائق کی روشنی میںہم نے سوچا کہ جب ہمارے ایک وطن کے دو شہروں میں تلفظ کا اس قدر فرق ہو سکتا ہے تو دو براعظموں میں تلفظ کا کتنا فرق ہو تا ہوگا؟ہمیںچند برسوں کے اندر اندر اس سوال کا جواب بہر حال مل گیا۔وہ جواب کیا تھا، اس کے لئے آپ کو ذیل میں مرقوم تحریر کی خواندگی مکمل کرنی ہوگی:
”شیدا“ ہمارا انتہائی گہرا دوست تھا، اس کے والد محترم کا نام ”میدا“تھا۔ وہ انتہائی ”پھنے خاں“قسم کی شخصیت تھے۔ ایک تو ہمارا بچپن ہی پچھلی صدی کا واقعہ ہے اور اس پر طرہ یہ کہ محترم ”میدا “ کی عمر اُس وقت 75برس کی تھی ۔ یوں ہمارا یہ واقعہ گزشتہ 2صدیوں کا احاطہ کرتا ہے ۔”میدا“ صاحب سے ہمارا آمنا سامنا اکثر و بیشتر اس وقت ہوتا جب وہ اپنے صاحبزادے ”شیدا“ کو ڈانٹتے اور ہمیں بھی اس سرزنش میں لپیٹ لیتے تھے۔’محترم ”میدا “ کا ایک وتیرہ ہمارے لئے بہت ہی فائدہ مند تھا، وہ شیدے کو ڈانٹنے کے بعد کوئی نہ کوئی عقدہ ضرور بیان کرتے تھے۔یہاںہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آج ہماری فہم و فراست کا بڑا حصہ محترم ”میدا “ کی عطا کی ہوئی آگہی پر مبنی ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ کسی بات پر شیدے کوہنٹر سے مارا اور ساتھ ہی ہمیں خوب لتاڑا۔ اس کے بعد گویا ہوئے کہ پتا ہے میں نے1895ءکے دورا ن ریلوے میں بحیثیت کلرک نوکری کا آغاز کیا تھا ۔ اس وقت انگریز کی حکومت تھی اوراس کا طوطی اسی کی انگریزی زبان میںبولتا تھا۔ مجھے پہلی تاریخ کو پہلی بار10روپے2آنے تنخواہ ملی تو میں دوڑتا ہوا ماں کے پاس گیا اورخوشی سے سرشارہو کر چلاتے ہوئے کہا کہ میّا جان! یہ میری ”پہلی بار اَرن“کی جانے والی دولت ہے جو 162آنے پر مشتمل ہے۔ماں نے خوش ہو کر دعائیں دیں۔ میری افسر نے مجھ سے پوچھا”میدا! تم اتنا ہیپی کیوں ہے؟“ میں نے کہا ”مس! میں نے ٹین روپیز ٹو آناز ”پہلی بار اَرن“ کئے ہیں۔پھر وقت گزرتا گیا ، میں سینیئر کلرک ہو گیا۔ وہ مس، پہلے مسز ہوئی اور پھر واپس برطانیہ جانے کی تیاریاں کرنے لگی۔ ایک روز وہ بہت ہی خوش تھی۔ اس نے دفتر کے تمام سینیئر اور جونیئر کلرکوں کو ایک ایک پیسہ دیا اور کہا کہ میری طرف سے اپنی پسند کی مٹھائی کھا لینا۔ میں نے اپنی افسر سے پوچھا کہ آپ نے کس خوشی میں ”پیسہ“ تقسیم کیا ہے ، اس نے جواب دیا میں نے ”پلی بار گین “ کیا ہے۔
مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔ میں نے اس وقت تو ہنس کریوں ٹال دیا جیسے میں بات کی گہرائی کو بھانپ گیا ہوں مگر بعد میں اپنے ہیڈ کلرک سے میں نے پوچھا کہ ”سر جی! یہ ”پلی بار گین“ کیا ہوتا ہے؟ “اس نے کہا کہ یا دہے تم پہلی تنخواہ لے کر کتنے خوش ہوئے تھے اور ماں سے کہا تھا کہ ”امی! یہ میری ”پہلی بار اَرن“ ہے ۔ اسی طرح ہماری افسر نے کہا ہے کہ یہ ان کی جانب سے ”پہلی بار گین “ ہے۔ در اصل زبان کا فرق ہے، اُن کی انگریزی میں ”ہائے ھوز“ کا استعمال کم و کاست ہی ہوتا ہے اس لئے ان کی زبان سے’پہلی بار“کی جگہ ”پلی بار“نکل گیا۔ رہا سوال کہ انہوں نے” بارگین“ کیوں کہا، ”اَرن“ کیوں نہیں کہا، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں ہی انگریزی کے لفظ ہیں۔ ”اَرن“ وہ معمولی رقم ہوتی ہے جو محنت مشقت کے ذریعے ، خون پسینہ بہا کر ، دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لئے کمائی جاتی ہے اور یہ عموماًچند پیسوں سے لے کر، چند آنوں یا چند روپے تک محدود ہوتی ہے جبکہ ”گین“ وہ دولت ہوتی ہے جو کسی محنت مشقت کے بغیر حاصل ہو جاتی ہے ۔ یہ عموماًلامحدود ہوتی ہے چنانچہ سیکڑوں سے لے کر ہزاروں، لاکھوں، کروڑوںاور اربوں میں ہو سکتی ہے۔ یہ رقم زندگی میں عیش کرنے، بیرون ملک گھومنے پھرنے، جائدادیں خریدنے، فیکٹریاں قائم کرنے ، مہنگے سے مہنگے اسپتالوں میں علاج کرانے اور ایک سے زائدشادیاں کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ہماری افسر نے چونکہ زندگی میں پہلی مرتبہ کسی محنت کے بغیر بھاری رقم اینٹھی ہے اس لئے وہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ یہ میں نے ”پہلی بارگین“ کی ہے مگر وہی زبان کا تفاوت ،وہ درست تلفظ کے ساتھ اردو بولنے سے قاصر رہیں چنانچہ کہہ ڈالا کہ ”یہ میں نے ”پلی بار گین “کی ہے۔پھر یوں ہوا کہ وقت گزرتا گیا۔ہماری افسر کو برطانیہ گئے ہوئے کئی برس بیت گئے ۔ میں سینیئر سے ہیڈ کلرک ہو گیا۔ایک روز مجھے بھی”گین“ کرنے کی پیشکش ہوئی ۔رقم کا حجم320آنے یعنی 20روپے پر مبنی تھا۔سب معاملات ”زیرِ میز“ طے ہوئے۔ رقم میری جیب میں آئی اور میں خوشی سے اچھلتا کودتا گھر پہنچا۔ اپنے ”باوا جی“ کو بتایا کہ میری جیب میں 20روپے ہیں۔ انہوں نے کہا کہاں سے آئے؟ میں نے کہا ”پہلی بار گین“ کئے ہیں۔ یہ سنتے ہی انہوں نے کمر کسی اور کھونٹی سے لٹکا ہنٹر اُتار کر اس پر سرسوں کا تیل چپڑا اور پھر گویا ہوئے کہ ”شیدے! مرغا بن جا۔“ میں نے کوکیں مار کر روتے ہوئے سبب دریافت کیا تو باوا جی نے کہا کہ بے محنت، بے مشقت ، محض عہدے پر فائز ہونے کے ناتے رقم بٹورتا ہے ناجائز اور پھر کہتا ہے کہ میں نے کیا کیا ہے؟یہ کہتے ہی باوا جی نے تڑا تڑ ہنٹر برسانے شروع کر دیئے۔ میں نے منہ پھاڑ کر بطرزِ ہا ہا کار ونا شروع کر دیااور مدد کے لئے اپنی ماں کو بلالیا جسے میں ”میّا“کہتا تھا۔ انہوں نے آتے ہی اپنے شوہر سے استفسار کیا کہ میرے لعل کی لترول کا سبب کیا ہے؟ باواجی نے کہا یہ ”پلی بار گین“ کر کے آیا ہے۔ انہوں نے ہاہا کہتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھا اور مجھ سے پوچھا کہ تجھے کیا ہوا، تیری غیرت کہاں مر گئی؟ کتنے اینٹھ کر لایا ہے؟میں نے جواب دیا”میا! صرف 20روپے۔“ انہوں نے اپنے شوہر سے کہا ،اجی بس کرو! اس نے صرف20روپے ہی ”گین“ کئے ہیں، پہلی بار ہے ، بس کرو۔ باوا جی نے غراتے ہوئے کہا کہ 20روپے اینٹھنے پر 200درے ماروں گا ۔ اگر اس سزا میں کمی ہوئی تو یہ 20روپے کی جگہ 20سو روپے ”گین“ کر کے لے آئے گا۔“یہ واقعہ سنا کر میدے نے کہا کہ ”پہلی بار گین“پر مجھے اتنی قرار واقعی سزا ملی کہ میں نے ”دوسری بار گین“کرنے کا تصور بھی نہیں کیا اور اپنی لغت سے یہ لفظ ہی نکال دیا۔
چند روز قبل ہم نے سنا کہ کسی لٹیرے کو 40ارب لوٹنے پر پکڑا گیا ا ور 2ارب کی” پلی بارگین“کے بعد بے قصور قرار دے دیا گیا۔ یہ سن کر ہمیں ”باوا جی “ بہت یاد آئے، ہماری آنکھوںسے آنسو رواں ہوگئے۔ ہم نے میدے کو فون کیا کہ ذرا یہ بتاوکہ 20روپے پرآپ کو 200 ہنٹر کھانے پڑے تھے۔ اگر آپ 40ارب لوٹتے تو کتنے ہنٹر کھاتے؟ شیدے نے کہاکہ میں حساب لگا کر ایک ہفتے تک جواب دوں گا۔بہر حال ہمارے دل سے دعا نکلی کہ کاش کہیں سے پھر کوئی ’ ’باواجی“نمودار ہوجائے ۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: