Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گرہستی کی ماہر ہی کامیاب عورت ہوتی ہے ، ڈاکٹر نغمہ ریحان

قدرت کے حَسین و جمیل نظاروں کوہو بہو’’ قرطاسِ مصور‘‘پر منتقل کرنا صنفِ نازک کے لئے کسی طور مشکل نہیں

تسنیم امجد ۔ ریاض

ہرفرد اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش میں خوب سے خوب تر کی جانب گامزن رہتا ہے۔وہ اپنی زندگی کے کینوس کو حَسین بنانے کے لئے اپنی سوچ ، صلاحیت اور بساط کے مطابق رنگ بھرتارہتا ہے۔ رنگوں کی اس قوس قزح میں عورت کا وجود منفرد حیثیت کا حامل ہے۔اسی لئے معاشرے کے حساس طبقے ، شعرائے کرام نے اپنی شاعری کا محور اکثر عورت کو ہی بنایا ہے ۔ اگرعورت کی اہمیت کو محض ایک جملے میں بیان کرنے کی کوشش کی جائی تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ زندگی ایک فن ہے اور عورت اس کی فنکارہ۔ بلا شبہ عورت اپنے ہاتھوں سے تصویرِکائنات میں رنگ بھرتی ہے ۔

اس تصویر کا ایک کردار مرد بھی ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عورت چاہے تو مرد کی زندگی مثل جنت بنادے اور چاہے تو جہنم میں بدل دے ۔ عورت وہ ہستی ہے جو ماں ، بیوی، بہن ، بیٹی کے روپ میں اس کائنات کو رنگوں کا مرقع بنانے میں مصروف رہتی ہے۔ یہ مرد کی معلمہ ہے، اس معلمہ کی تربیت ، تعلیم اور دعائوں کے سائے میں وہ بچپن سے جوانی تک معاشرے کی ہر اونچ نیچ سے کامیابی کے ساتھ نبردآزما ہونے کے قابل بنتا چلاجاتا ہے ۔ ڈاکٹر نغمہ ریحان ایک ہمہ صفت وہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں وہ جہاں اپنے پیشے کی ذمہ داریاں نہایت خلوص سے ادا کررہی ہیں وہیں وہ فائن آرٹس پر بھی خاصا عبور رکھتی ہیں ۔ان سے مل کر اور انکے فن پاروں کو دیکھ کر احساس ہوا کہ صنف نازک کے لئے زندگی کی حقیقتوں کو کینوس پر منتقل کرنا مشکل نہیں کیونکہ وہ تو بذاتِ خود ایسا وجود ہوتی ہے جس کے باعث تصویرِ کائنات میں رنگ دکھائی دیتا ہے ۔ اسی لئے قدرت کے حَسین و جمیل نظاروں کوہو بہو’’ قرطاسِ مصور‘‘پر منتقل کرنا صنفِ نازک کے لئے کسی طور مشکل نہیں کیونکہ وہ تو خود قدرت کے حُسن و جمال کا پرتو ہوتی ہے ۔ اسے حَسین مناظر میں اپنا عکس دکھائی دیتا ہے چنانچہ زندگی کی حقیقتوں کوسمیٹ کر کینوس پر بکھیرنا اس کے لئے آئینہ دیکھنے کے مترادف ہوتا ہے۔ تصویر کے تمام رنگ اسے اپنی ہستی کے ترجمان دکھائی دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر نغمہ ریحاننے ’’ہوا کے دوش پر‘‘ اردونیوز سے ملاقات کے دوران کہا کہ مالک حقیقی نے یہ دنیا نہایت خوبصورت بنائی۔ اکثر دل چاہتا ہے کہ لانگ ڈرائیور پر دور، بہت دور جاکر فطر ت کی ساری خوبصورتی کیمرے میں قید کرلی جائے لیکن ہر وقت تو ایسا ممکن نہیںہو سکتاا س لئے ہم ان مناظر کومن و عن کینوس کی نذر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

ڈاکٹر نغمہ نے اپنے نام کے معنی سے پورا انصاف کیا ہے۔ وہ ایک خوش مزاج خاتون ہیں ، جو اپنے اخلاق کی حلاوت سے ہی مریضوں کو نئی زندگی کی اُمید دلاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرے والد میجر ہارون رشید نے والدہ رفعت ہارون کی ہمراہی میں ہمیں بھرپور ماحول دیا۔ آرمی والوںکی زندگی ٹپ ٹاپ سے بھرپور ہوتی ہے۔ گھر میں ڈسپلن بھی خوب تھا۔ہمارے والدین نے ہمیں تعلیم بھی اعلیٰ اسکولوں میں دلوائی۔میں نے اسکول کے زمانے سے ہی آرٹ کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ میٹرک سینٹ میری اسکول، حیدرآباد سے کیا۔ سینٹ جوزف کالج کراچی سے انٹر اور ایم بی بی ایس سندھ میڈیکل کالج سے کیا۔ والدہ گرہستن تھیں ۔ایسی گرہستن جن کے سامنے ایک آئیڈیل گھر کی تصویر رہی ۔انہوں نے اس تصویرمیں نہایت خوبصورت رنگ بھرے ۔ ہم دو بہنیں اور ایک بھائی والدین کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش میں رہے۔ بہن کا نام نجمہ فضل ہے۔ بھائی فیصل امین رشید آجکل لیفٹیننٹ کرنل ہیں، ابو کی خواہش پر انہوں نے آرمی کا انتخاب کیا۔ میری شادی ارینجڈ تھی یعنی فریقین کی خواہش پر ہوئی۔ شوہر بھی ڈاکٹر ہیں دونوں جانب یہ خواہش تھی کہ بہو اور داماد ڈاکٹر ہوں۔ سسر ڈاکٹر علی گوہر اور ساس عالم آراء نے مجھے کبھی پرایا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ریحان گوہر شوہر کی حیثیت سے مثالی ہیں۔ ان کے ایک بھائی علی جوہر ٹورانٹو میں ہیں۔ ڈاکٹر عمران گوہر لندن میں ہیں جبکہ فرحان گوہر کراچی کے ا یک نجی ٹیلی وژن میں نیوز ڈائریکٹر ہیں ۔ اکلوتی نند رخشندہ طارق ٹورانٹو میں تھیں جن کا انتقال ہوچکا ہے ۔ تعلیم یقینا انسان کو مہذب ، تہذیب یافتہ بناتی ہے جو خوش قسمتی سے ’’میکے اور سسرال‘‘ دونوں جانب سے میرے حصے میں آئی۔پروفیشنل خواتین کو جب تک شوہر کی سپورٹ نہ ہو وہ کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تین اولادوں سے نوازا ، شایان گوہر ، ایان گوہر اورھبہ گوہر۔ ڈاکٹر ریحان گوہر آئے تو ا نہوں نے کہا کہ نغمہ بہترین شریک حیات اوربچوں کی مثالی ماں ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے ملازمت کو کبھی گھرداری میں حائل نہیں ہونے دیا۔ ان کی شخصیت میں وہ تمام اوصاف موجود ہیں جو کامیابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کے مسائل خاصے ہوتے ہیں، گھر کی فضا کو خوشگوار رکھنا ضروری ہے جس کا زیادہ تر انحصار مردوں پر ہوتاہے۔ آپس کی کھٹ پٹ رشتوں کو گھن کی طرح کھوکھلا کردیتی ہے۔ زن و شو کے تعلقات کی دنیا بھی عجیب ہے ۔اکثر دیکھا ہے کہ انہیں سمجھتے سمجھتے زندگی بیت جاتی ہے ۔ ڈاکٹر نغمہ اپنے شوہر کی زبان سے اپنے لئے تعریفی کلمات سن کر کہنے لگیںکہ شوہر کی جانب سے کی جانے والی تعریف اک لازوال احساس عطا کرتی ہے ۔ عورت، بیوی کے روپ میں اور زیادہ لطیف احساسات کی حامل ہوجاتی ہے ، اسے ہر لمحہ شوہر کی محبت درکار ہوتی ہے ۔ اس کے بدلے ’’ہوم سویٹ ہوم‘‘ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے ۔

میں ڈاکٹر صاحب کی ممنون ہوں ،انہوں نے بھرپور تعاون کیاجس کے باعث ہم اپنے بچوں کو من پسند تربیت و تعلیم دینے کے قابل ہوسکے ۔ ما شاء اللہ، ہمارا بڑا بیٹا گریڈ 12میں ہے۔ اس کا بھی میڈیکل میں جانے کا پروگرام ہے۔ بیٹی اولیولز میں ہے جبکہ چھوٹا بیٹاگریڈ سیون میں ہے ۔ بیٹی کو خود بھی شوق ہے لیکن میں اسے گھر گرہستی کی ذمہ داریاں سونپتی رہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ بچیوں کو شروع سے ہی یہ شعور دینا چاہئے۔ صرف ڈگریاں لاددینے سے شخصیت کی تکمیل نہیں ہوتی۔ عورت کتنا بھی پڑھ لکھ کر باہر کی دنیا میں کامیاب ہوجائے، جب تک وہ اچھی گرہستن نہ ہو،اسے کامیاب تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کامیاب عورت وہی کہلاتی ہے جو گرہستی کی ماہر ہو۔ عورت کی اصل پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ بچوں اور گھر کوکیسا رکھ رہی ہے، کس طرح سنبھال رہی ہے۔ ڈاکٹر نغمہ اور ڈاکٹر ریحان دونوں ہی عسکری اسپتال میں ہیں۔

نغمہ نے کہا کہ آنکیالوجی ڈپارٹمنٹ ایک حساس شعبہ ہے ، اللہ کریم کا شکر ہے کہ میں محبت کے چند بولوں اور شفقت سے اپنے مریضوں کو اُمیدِ حیات دلانے کی کوشش کرتی ہوں ورنہ بے چارہ کینسر کا مریض تو عجیب زندگی ہارنے والی حالت میں ہوتا ہے۔ انہیں یقین دلانا پڑتا ہے کہ اب کوئی مرض لاعلاج نہیں رہا ۔ میں نے ناممکن کو اپنی لغت سے نکال دیا ہے ۔ ڈاکٹر نغمہ دن بھر کی مصروفیت اور بعض اوقات مریضوںکے ڈپریشن کے اثرات کو پینٹنگ کے رنگوں سے زائل کرتی ہیں۔ برش تھام کر وہ کینوس پر خاموش داستانوں میں زندگی کے رنگ بھرتی ہیں ہم سوچنے لگے کہ ابتدائی زمانے سے ہی انسان نے اپنے جذبات و احساسات کو نقش گری اور مصوری سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اس شعبے کو باقاعدہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ قدرتی مناظر میں ڈاکٹر نغمہ حقیقت کے رنگ بھرنے میں یقینا کامیاب ہیں۔ انہیں شاعری سے بھی لگاؤ ہے۔ احمد فراز اور پروین شاکر کی شاعری انہیں زیادہ پسند ہے ۔

ڈاکٹر نغمہ نے کہا کہ اردونیوز کا ہم دونوں کی جانب سے بہت شکریہ۔کمیونٹی کو اپنے وجود کا احساس دلانے کے حوالے سے ہم اس جریدے کی گرانقدر خدمات کا دل کی گہرائیوں سے اعتراف کرتے ہیں ۔ اسی میڈیا کے حوالے سے میں خواتین کیلئے ایک پیغام ضرور دینا چاہوں گی کہ عورت اس کائنات اور گھر کی چار دیواری میں نہایت اہم وجود کی حامل ہے ۔ شکایتیں ، نزاکتیں، عنایتیں اور محبتیں اسی کے دم سے ہیں۔ یہ ان رنگوں سے گھر کو رنگین بناتی چلی جاتی ہے ۔ ماں ہونے کے ناتے یہ ہم پر بڑی ذمہ داری ہے کہ تربیت کو بھی پیش نظر رکھیں۔جنت ماں کے قدموں تلے ہے ، یہ حقیقت عورت کی اہمیت اور عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، قوم کی تربیت کی ذمہ داری اس کے شانوں پر ہے ۔ہم خواتین مغرب کی نقالی میںحقوق کا نعرہ لگاتی ہیں لیکن یہ نہیں سوچتیں کہ مشرقی عورت زیادہ حقوق یافتہ ہے۔ ہمارا تقدس چادر اور چہار دیواری سے قائم ہے ۔ اخلاقی اصولوں سے متصادم ہوکر جدیدیت ہمیشہ تہی دامن رہی، اکثر دھواں دھار بحث سننے کو ملتی ہے کہ ہم تعلیم کے دوران دیگرذمہ داریاں نہیں سنبھال سکتیں لیکن اسطرح وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ مسابقتی دوڑ بھی خوب جاری ہے ۔ اس رویے کو خیرباد کہنے کی اشد ضرورت ہے ۔

شیئر: