Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میکا:بیٹی کی رخصتی کے بعدسُونا ہونے والا ’’کاشانۂ بلبل‘‘

بیٹیوں کو بچپن سے ہی یہ سبق پڑھانا شروع نہیں کر دینا چاہئے کہ وہ پرایا دھن ہیں ، ایسے اسباق سے ان کا معصوم ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے۔

عنبرین فیض احمد ۔ ریاض

بیٹیاں آکاس بیل کی طرح پوران چڑھتی ہیں اور پلک جھپکتے ہی وہ دن بھی آ پہنچتاہے جب بیٹی بیاہ دی جاتی ہے۔ بیٹی کی رخصتی کے بعدوالدین اور گھر والوں کویہ احساس شدید ہوتا ہے کہ بیٹی تو گھر کی بلبل ہوتی ہے ، جس کے چہکنے سے سارے گھر میں رونق رہتی تھی، آج وہ ’’کاشانۂ بلبل‘‘بالکل سونا ہوچکا ہے۔

گھر میں سکوت کا عالم ہوتاہے۔ بیٹے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں ۔ کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ ماں یا باپ کی خیریت دریافت کرلے۔ والدین میں سے کوئی بھی تکلیف میں ہو تو پوچھنے والاکوئی نہیں ہوتا ایسے میں اپنی بیٹی کی آوازہی کانوں میں گونجتی سنائی دیتی ہے کہ امی جان! اگرطبیعت خراب تھی تو باورچی خانے میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ مجھے آواز دے دی ہوتی۔ اباجان نماز سے فارغ ہوجائیں تو چائے بنادیتی ہوں۔

اسی طرح جب باپ گھر میں قدم رکھتا ہے تو بیٹی ہی بھاگی بھاگی آتی ہے اور کہتی ہے کہ اباجان! آپ تھک گئے ہونگے ۔پانی لادوں ؟ آپ فریش ہوجائیں پھر میں آپ کے لئے گرما گرم کھانا لاتی ہوں۔بھائی اور بہن کی محبت سے بھی ہر کوئی آشنا ہوتاہے ۔ جب بہن رخصت ہوجاتی ہے تو بھائی کو بھی احساس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں بہن کے وجود کی کیا اہمیت تھی۔ بیٹی جب میکے آتی ہے توبھی اسے یہی سننے کو ملتا ہے کہ پرائے گھر سے آئی ہے گویا بیٹی کا سب کچھ ہی پرایا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کا اپنا کیا ہوتا ہے؟ شوہر کا گھر تو واقعی پرایا ہی ہوتاہے ۔ وہاں شوہر کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوجائے تو فوراً ہی طلاق تھما دی جاتی ہے اور شادی کا بندھن توڑ دیا جاتا ہے۔

عورت پر اُس گھر کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کردئیے جاتے ہیں۔ہمیں بیٹی جیسی ننھی کلیوںکو بچپن سے ہی یہ سبق پڑھانا شروع نہیں کر دینا چاہئے کہ وہ پرایا دھن ہیں کیونکہ ایسے اسباق سے ان کا معصوم ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے۔ بیٹی بظاہر لفظ تو بڑا ہی چھوٹا سا ہے مگر اس کی وسعت، دلکشی اور شیرینی اتنی زیادہ ہے کہ یہ لفظ ادا کرتے ہی رگِ جاں میں حلاوت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ بیٹیاں گھر کی رونق ہوتی ہیں لہٰذا ان کی پرورش بھی اسی انداز سے کی جانی چاہئے کہ وہ دنیا میں ایک کامیاب اور باکردار شخصیت کے طور پر زندگی بسر کرسکیں۔ بیٹی ایک ایسا نگینہ ہے جس کی حفاظت ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کیلئے ماں کو سایہ بن کربیٹی کے ساتھ رہنا پڑتا ہے ۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ بچپن کی تربیت پتھر پر لکیر کی طرح ہوتی ہے اور جوانی کی تربیت پتھر پر پانی کی طرح یعنی بچپن کے نقوش انمٹ ہوتے ہیں اور وہی واقعات انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے دور میں بیٹیاں ہی والدین کا سہارا بنتی ہیں۔ اکثر بیٹے ایسا نہیں کرپاتے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ وہ لمحہ والدین پر بہت گراں گزرتا ہے جب کوئی ان کی بیٹی کو مسترد کرکے چلاجاتا ہے۔

وہ گلاب کے پھول کی مانند ہوتی ہیں جو گھر کو اپنی خوشبو سے معطر رکھتی ہیں ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ بحیثیت والدین ان نازک کلیوں کی اچھی آبیاری کریںتاکہ گلشن کی رونق برقرار رہے ، ورنہ مرجھائی کلیوں سے گلشن کا حسن ماند پڑسکتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جب دوسروں کی بیٹیاں بہو بن کر آتی ہیں تووہ ہمیں بری کیوںلگتی ہیں؟ ہماری اپنی بیٹی کو سسرال میں ذرا سی تکلیف پہنچ جائے تو ہمیں دلی اذیت ہوتی ہے اور دوسروں کی بیٹی کو اپنے گھر لا کر ہم اسے تکلیف پہنچاکر خوش ہوتے ہیں۔ ہمیں ایسا دوغلہ رویہ نہیں اپنانا چاہئے۔ ہمیں بیٹی کی تربیت ایسی کرنی چاہئے کہ اسے سسرال اور سسرالیوں کے ساتھ خوشگوار روابط استوار کرنے کا سلیقہ آتا ہو۔ لڑکی کو اپنے شریک سفر کی خوشنودی کے لئے اس کے تمام گھروالوں کے ساتھ حسن سلوک روا رکھنا چاہئے۔ یوں بھی زندگی ایک سفر ہے اور میاں بیوی اس سفر کے ایسے ساتھی ہیں جن کی منزل ایک ہوتی ہے لہٰذا بیٹی کی تربیت اگر اچھے انداز میں کی جائے تو یقینا اس کی زندگی نہایت ہی آرام اور پرسکون انداز میں گزرے گی بصورت دیگر لڑکی کو اپنے آپ کو نئے ماحول میں ڈھالنے کیلئے بڑا جبر اور صبر کرنا پڑتا ہے۔ بیٹیاں اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہوکر جب سسرال پہنچتی ہیں تو ان کے دل میں نئی زندگی کی شروعات کا خوف سمایا ہوتا ہے۔ ایک آنگن میں لگائے ہوئے پودے کو دوسرے آنگن میں جاکر مستحکم ہونے میں تھوڑا وقت تو درکار ہوتا ہے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ اگر سسرال والے اس پودے کی آبیاری ذرا اچھے انداز میں کریں تو یقینا وہ اس نئے گلشن کی مٹی میں بڑے ہی اچھے انداز میں رچ بس جائے گا ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دوسروں کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھیں اور ان کی شخصیت کی نفی نہ کریں ۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ ہم کسی کو عزت دیں گے تو ہمیں بھی بدلے میں عزت ملے گی ۔ اس طرح وہ بھی اچھی طرح پنپتی ہیں اور اچھے طور طریقے اپناتی ہیں ۔

شیئر: