Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پانامہ لیکس کے ملکی سیاست پر اثرات

 
 حکومتی اراکین کو یقین ہے کہ پانامہ لیکس کا مقدمہ نواز شریف کے حق میں ہوگا تبھی عمران خان نے واقعہ کی چھان بین کی ضرورت سے انکار کردیا 
 
محمد اسلم محمود بٹ
 
ڈونلڈٹرمپ نے امریکہ کے 45 ویں صدر کا حلف اٹھالیا۔ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ وائٹ ہاوس پہنچے جہاں سبکدوش ہونے والے صدر باراک اوباما اور ان کی اہلیہ نے امریکہ کے ایوان صدر میں خوش آمدید کہا اور ان کیلئے نیک تمناوں کا اظہار کیا۔ امریکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ نومنتخب صدر کی وائٹ ہاوس آتے ہی امریکہ کے طول و عرض میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔ امریکی خواتین نے بھی ان کے صدر منتخب ہوجانے کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا۔
یہ اطلاعات طویل عرصہ سے امریکی ذرائع ابلاغ میں سرگرم تھیں کہ امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کے اولین دشمن روس کے ساتھ مل کر دھاندلی کا ارتکاب کیا۔ ڈونلڈٹرمپ کے باضابطہ مسند صدارت پر فائز ہونے سے پہلے نیویارک کے حسین اور دیدہ زیب مقام مین ہٹن کے ایک پل پر روس کا پرچم لہرا دیا گیاتھا۔ امریکہ نے اپنی ریاست میں اس معاملے پر ارباب اختیار کا ردعمل سامنے نہیں آنے دیا مگر واقفان احوال جانتے ہیں کہ اپنے دیرینہ دشمن کا اپنے وطن میں جھنڈا لہراتا دیکھ کر حکومتی عہدیدار ورطہ حیرت میں ڈوب گئے ہونگے اور اس پر تاویلیں گھڑتے رہے مگر آنے والے حالات نے واضح کیا کہ اس نے ڈونلڈٹرمپ کے تعاون سے امریکہ کے معاشی دارالحکومت نیویارک کے اندر سرنگیں قائم کرلی ہیں جس کے مضمرات آنے ولے دور میں دیکھے جاسکیں گے۔
ابتدائی مرحلے میں ڈونلڈٹرمپ نے روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔ روس نے بھی ماضی کے برعکس امریکہ کے متعلق خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا جس پر امریکی اپنی مخصوص ذہنیت کے سبب شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں البتہ ٹرمپ کے اس اعلان کو خصوصی اہمیت کا حامل خیال کررہے ہیں کہ وہ اسلامی انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے کلیدی نوعیت کے اقدامات کریں گے۔ عالم اسلام پہلے ہی دیکھ رہا ہے کہ کس طرح اس کو تاراج کرنے کی کوششیں کی جارہی ہےں اور دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں کس طرح خونی کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ مسلمانوں سے خصوصی طور پر نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم ہند نریندر مودی نے امریکی صدر کے منتخب ہونے پر بے پناہ جوش و خروش کا اظہار کیا اور ان کے مدح سراوں نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی عہدہ صدارت پر براجمان ہونے پر بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ انہیں یقین ہے کہ جوہری استعداد کے حامل ملک پاکستان کو ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کے ساتھ برسر پیکار کیا جاسکے گا حالانکہ ہند میں بھی پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی امریکی صدر سے ٹیلیفونک رابطے پر بدستور ہیجان برپا ہے۔ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہوتے ہی ایک بار پھر متنازعہ علاقے جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ان حالات میں پاک فوج کے نئے سپہ سالار وقت کے تقاضوں سے آگے چل رہے ہیں۔ پاکستان کیخلاف ہند کی جانب سے کسی جارحیت کے ارتکاب کے جواب میں اس کا غرور خاک میں ملانے کو تیار ہیں۔
یہ امر پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی صفوں میں حکومت کو اپنے قدموں پر ڈھیر کرنے کیلئے حزب اختلاف ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور وزیراعظم نواز شریف پر پانامہ لیکس کیخلاف عدالت عظمیٰ میں متعدد مقامات دائر کردیئے گئے ہیں حالانکہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کا نام ہی نہیں۔ وہ غالباً عمران خان، بابر اعوان، شیخ رشید اور ایسے ہی دیگر ناکام سیاست دانوں کی ہٹ دھرمی کے ہاتھوں مجبور ہوکر انصاف کے میدان میں اتر آئے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ آخر کار فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔ عدالت عظمیٰ میں پانامہ لیکس کیخلاف روزانہ کی بنیادوں پر سماعت کی جارہی ہے ۔ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اس حوالے سے بے پناہ محنت کی مگر عدالت عظمیٰ کے بقول وہ نواز شریف کیخلاف ٹھوس شواہد پیش کرنے سے قاصر رہے۔ اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کے باہر اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس موقف کا اظہار کیا کہ عدالت میں مدعی ہی مقدمے سے ہارتا ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ وکیل کی لیاقت اور قابلیت کام نہیں آتی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی اس مقدمہ میں اپنے دلائل دیئے ا ار کمرہ عدالت میں عمران خان کے بقول ان کے خراٹے گونجتے رہے جو ان کے اس معاملے میں سنجیدگی کا ثبوت ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف عدالت عظمیٰ کے روبرو اپنے دلائل دے رہے ہیں جہاں جوش و جذبات میں وزیراعظم کے خلاف انہوں نے ظفر علی شاہ مقدمہ کے مندرجات پیش کئے جہاں ان کے دعوے کے مطابق وزیراعظم کیخلاف لندن میں اپنے مبینہ فلیٹس کا تذکرہ بیان کیاگیا ہے۔ عدالت عظمیٰ اس حوالے سے حیران و پریشان رہ گئی اس نے توفیق آصف سے سوال کیا کہ اس وقت کی عدالت عظمیٰ نے اس واقعہ کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ آپ صرف عدالت میں وکلاء کی باہمی گفتگو کو  اپنے دلائل منتخب کرسکتے ہیں۔ اس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا اور توفیق آصف کو اس حوالے سے اپنے دلائل واپس لینا پڑے۔ حکومت کے اراکین کو یقین ہے کہ پانامہ لیکس کا مقدمہ نواز شریف کے حق میں ہوگا تبھی عمران خان نے اس واقعہ کی چھان بین کی ضرورت سے صاف انکار کردیا تھا تاہم اب پانامہ لیکس کے فیصلے کا سب کو انتظار ہے ۔ کیس کے فیصلے سے ملکی سیاست کے ساتھ ملک کے مستقبل کا بھی انحصار ہے اس کے اثرات آئندہ عام انتخابات پر بھی مرتب ہونگے۔
******

شیئر: