Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوائی آرڈر پر دستیاب ہیں

 
یہ اتنے منظم ہیں کہ ان کی ایک فون کال پر 100 سے زائد لوگ فوراً جمع ہو سکتے ہیں اور جہاں ایک بار 100 لوگ جمع ہوجائیں وہاں 400 عام لوگوں کا خامخواہ جمع ہونا قدرتی ہے
 
 وسعت اللہ خان 
 
ہم نے تو نہیں دیکھا البتہ بوڑھوں سے سنا ہے کہ انگریز دور میں ریاست کی ایسی دھاک تھی کہ بس ایک پولیس والا گاوں میں جاتا اور ملزم کی کلائی میں رسی باندھ کر تھانے تک پیدل لے آتا۔گاوں والوں کی آپسی دشمنیاں کیسی بھی سہی مگر ریاست اور اس کے نظامِ انصاف پر اکثریت کو اعتبار تھا اور پھر آزادی مل گئی۔
پہلے ملک آزاد ہوا پھر حکومت پھر اوپر سے نیچے تک کے حکومتی کارندے آزاد ہوئے تو غنڈے بھی حوصلہ پانے لگے اور پھر ان غنڈوں کا کچھ سیاست دانوں سے گٹھ جوڑ ہوگیا اور کچھ غنڈے خود سیاست میں فعال ہوگئے۔رفتہ رفتہ یہ گٹھ جوڑ اتنا مضبوط ہوتا گیا کہ پولیس اور ذیلی عدلیہ بھی تھلے لگتی چلی گئی۔ آج یہ حال ہے کہ جس ادارے یا نان اسٹیٹ ایکٹر یا معزز کے پاس ہجوم جمع کرنے والے جتنے چلتے پرزے اور ان چلتے پرزوں کے جتنے تعلقات ، جتنا پیسہ ، جتنا اسلحہ اور جتنی بری شہرت ہے وہ اتنے ہی عزت دار اور ان داتا۔ لوگ اپنے جائز و ناجائز کام کے لئے انہی چلتے پرزوں کو نجات دھندہ سمجھتے ہیں تو ایسے بنتی ہیں ایک ریاست سے ایک سو ایک ذیلی ریاستیں اور پھر یہ ریاستی نظام شہر اور قصبے سے ہوتا ہوتا محلے اور ریاست کی شکل اختیار کرتا ہے اور یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان ریاستہائے متحدہ پاکستان ہوتا چلا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے بی بی سی اردو پر ایک وڈیو رپورٹ نشر ہوئی جس کا عنوان تھا ” ہجوم کرائے پر دستیاب ہے ”۔ یہ رپورٹ وسطی پنجاب میں لاہور کے آس پاس کی حقیقی دنیا میں مرتب کی گئی۔اس میں ان ڈیرے داروں پر فوکس کیا گیا جو لوڈ شیڈنگ کے خلاف معمولی احتجاج سے لے کر کسی ناپسندیدہ افسر کے تبادلے کی خاطر دباو ڈالنے کے لئے مظاہروں تک ، مخصوص برادری یا جلوس پر پتھراو ، ریلوے ٹریک یا شاہراہوں پر دھرنے سے لے کے کسی شدت پسند تنظیم کا بدامنی ایجنڈہ پورا کرنے تک ، زمین پر قبضے سے کاروبار و رہائشی علاقہ خالی کرانے تک جملہ خدمات کے لئے کرائے پر ہجوم فراہم کرتے ہیں۔
یہ اتنے منظم ہیں کہ ان کی ایک فون کال پر 100 سے زائد لوگ فوراً جمع ہو سکتے ہیں اور جہاں ایک بار 100 لوگ جمع ہوجائیں وہاں400عام لوگوں کا خامخواہ جمع ہونا قدرتی ہے۔ ان اضافی راہگیروں کو اب کون بتائے کہ جن100 افراد کو دیکھ کے آپ بھی ان میں شامل ہو گئے ہو وہ تو وہ ہیں جنہیں پیسہ ، کھانا ، ٹرانسپورٹ ، ماچس ، تیل اور اسلحہ برداروں کے ساتھ یہاں بھیجا گیا ہے۔
اس کاروبار کے چاربنیادی ستون ہیں۔کلائنٹ ، مڈل مین ، منتظم ( ڈیرے دار ) اور منتظم کا بے چہرہ سرپرست۔کلائنٹ مڈل مین کے ذریعے منتظم تک پہنچتا اور کام کی نوعیت سمجھاتا ہے۔جیسا کام ویسے دام۔ فزیبلٹی کچھ یوں بنتی ہے کہ سادہ جلوس کے اتنے پیسے۔مشتعل یا مسلح جلوس کے اتنے پیسے ، بلوے کی اتنی لاگت ، تھانے ، بستی یا برادری کے گھیراو کا اتنا خرچہ بشمول کھانا و ٹرانسپورٹ اور حسب ِ فرمائش و ضرورت پٹرول یا اسلحے کی ترسیل ، دھرنے کے لئے فی دن اتنے اضافی اخراجات ، زخمی ہونے یا پرچے سے بچنے یا بندے چھڑوانے کے
 لئے الگ سے رقم ۔ بے چہرہ سرپرست اور مخصوص اہلکاروں کا حصہ ، منتظم کا منافع اور مڈل مین کا کمیشن وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ آدھی رقم کام سے پہلے ، بقیہ کام کے بعد۔
ایک کردار نے بتایا کہ ویسے تو ہمارے پاس پروفیشنلز بھی ہیں مگر ہجوم بنانے کے لئے مصروف چوکوں پر بیٹھے مزدوری کے منتظر لوگ ہزار روپے دہاڑی ، کھانے اور پکڑے جانے سے تحفظ کی یقین دہانی پر ساتھ چلنے کو آمادہ ہوجاتے ہیں چونکہ یہ دھندہ چلتا ہی سروس، کوالٹی اور بھروسے کی بنیاد پر ہے اس لئے اس کاروبار پر انہی لوگوں کی اجارہ داری ہے جن میں تپڑ ہونے کے ساتھ ساتھ ہاتھ لمبے اور کمربھی مضبوط ہو۔
دھوکے کی یہاں گنجائش نہیں۔ دھندے کا اصول اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔اس کاروبار میں ہاتھ ڈالنے والا بیک وقت اوپر والوں کا کارندہ اور نیچے والوں کا نجات دھندہ بن کر ہی کامیاب رہ سکتا ہے۔ ایسا ان داتا سیاسی و انتظامی بروکرز ، حزب اقتدار ، حزب اختلاف ، مذہبی گروہوں اور قبضہ گروپوں سے لے کے عام کلائنٹ تک سب کے کام کا ہے۔اس کردار کو بھلے انگریزی میں مرسنری کہتے ہوں مگر مقامی ڈکشنری میں اسے خواجہ صاحب ، حاجی صاحب ، چوہدری صاحب ، چیف صاحب سمیت کوئی بھی عزت دار لقب حاصل ہے۔
تو پھر ریاست کیا کررہی ہے ؟ رپورٹ میں لاہور کے ایس ایس پی ( ڈسپلن) سہیل سکھیرا کا انٹرویو بھی شامل ہے۔فرماتے ہیں کہ ہر علاقے میں چھ سات لوگ ہوتے ہیں جو ہجوم اکھٹا کرتے ہیں ، پتھراو کرواتے ، آگ لگواتے اور بحران پیدا کرتے ہیں۔ افرادی قوت کے لئے کھانے اور پیسے وغیرہ کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔
بات ایسے بڑھتی ہے کہ پہلے دس بندے اکٹھے ہوتے ہیں جنہیں قلیل تعداد میں موجود پولیس والے یہ سوچ کے کچھ نہیں کہتے کہ نعرے وارے لگا کے خود ہی منتشر ہوجائیں گے۔ پھر وہ 20 ہوجاتے ہیں اور پھر 100 اور 100 سے200۔پولیس اپنے اوپر ذمہ داری کا رسک لینے کے بجائے اوپر کے احکامات کے انتظار میں رہتی ہے۔اس ہچکچاہٹ سے عام آدمی کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر آپ کے پاس100، 200بندے جمع کرنے کی صلاحیت ہے تو پھر آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔نوبت یہ آ گئی ہے کہ ہجوم بندے کو زندہ جلا دیتا ہے اور پولیس کچھ نہیں کرسکتی۔
مگر پولیس کا کام تو ریاستی رٹ کا تحفظ ہے تو پھر ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ ایسا یوں ہو رہا ہے کہ ایک تو پولیس اور آبادی کا تناسب انتہائی غیر متوازن ہے پھر پولیس کی ٹرانسفر ،پوسٹنگ میں ہر طرف سے مسلسل مداخلت ہے۔چھوٹے شہروں میں بالخصوص سب انسپکٹر اور کانسٹیبل لیول کے اہلکاروں کو اس مداخلت کے سبب یا اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی مقامی سرپرست درکار ہوتا ہے۔جب تک آپ پولیس کو قربانی کا بکرا سمجھتے رہیں گے سماج کو کنٹرول نہیں کرسکتے۔
٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: