Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امن کی آڑ میں دہشت گردی کا فروغ

 
 امریکہ گزشتہ 30سال سے دنیا میں امن لا نے کا دعویٰ کر رہا ہے مگر دنیا کو دہشت گردی اورآہن و آگ کے شعلو ں میں دھکیل رکھا ہے
 
سید شکیل احمد
 
  ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہو نے پر دنیا بھر میں ہا ہا کا ر مچی ہوئی تھی ، ایک دوسرے کے گر دے سر خ ہو رہے تھے گو سب یہ جا نتے ہیںکہ ایک سیا ست دان کے انتخابی مہم کے دوران اس کے بیانا ت کو محض اس کی انتخابی مہم کا ہی حصّہ سمجھنا چاہئے۔ اصل کر دار تو اس کا حلف اٹھا نے سے شروع ہو تا ہے ، ٹرمپ کو امریکی صدر کے نا تے سے جو اعزاز حاصل ہے اس میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کا انتخاب نہ صرف دنیا میں جہا ں مقبولیت کا باعث ہے تو وہا ں نفرت وکدورت کا بھی باعث رہا ہے خاص طورپر اسلامی دنیا میں اسی نظر سے دیکھا گیا ہے ، جو کا فی حد تک درست بھی تھا اسی طر ح وہ امریکہ میں بھی متنازعہ ہی نظر آئے ہیں شاید یہ پہلی مر تبہ ہے کہ کسی امریکی صدر کی حلف برداری کی تقریب کے مو قع پر تاریخی احتجا ج ہو ا ہو ۔
سابق صدر اوبامہ کو اپنی طویل صدارت کے دوران ایک ہی اعزاز ملا کہ وہ امریکہ کے پہلے سیا ہ فام صدر تھے ۔ ان کا سب سے بڑا وعدہ امن کا قیا م اور گوانٹانامو بے عقوبت خانے کا خاتمہ تھا جس کا وہ اعتراف نا کا می کرکے خصت ہو گئے ، اب ٹرمپ کی باری ہے ، ان کے بارے میں تو بہت پہلے سے بہت زیا دہ تبصرہ کیا جا رہا تھا اور کیا جا رہا ہے تاہم ایک ہی بات سمجھ میں آرہی ہے کہ اگلے بر س اسلا می ریاستوں کے لئے آزما ئشی ہی ہو ں گے۔ انھو ں نے حلف اٹھا تے ہی فرمایا ہے کہ وہ اسلامی شدت پسندی کا خاتمہ کریں گے ، پرانے اتحادیو ں کو مضبوط کرنے کے علا وہ نئے اتحادی بھی بنا ئیں گے۔یہ نئے اتحادی کو ن ہو ں گے اس جا نب کوئی اشارہ نہیںکیا گیا تاہم ایک بات نظر آتی ہے کہ جس طر ح امریکہ نے افغانستان پر اقوام متحدہ سے پر مٹ حاصل کر کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ چڑھا ئی کی تھی تو گویا وہ اسی دہشت گردی کے نام پر دوسرے ممالک پر چڑھائی کے لئے نئے اتحادیو ںکو بھی تیارکر یں گے ، امریکہ نے اب تک چین کے محاصرہ کے لئے جنو بی ایشیا بعید میں جو نیا اتحاد تشکیل دیا تھا ، اس میںسے اب تک فلپائن تو نکل گیا ہے اور کھرے انکار کے جو اب کے ساتھ گیا ہے ، ہاں ایک ہند ہے جو اس معاملے سمیت ساتھ چل رہا ہے اور چلنے کو تیارہے اور امریکہ بھی اس امر کو اہمیت دیتا ہے۔ ہند کے وزیر اعظم نے گزشتہ تقریباً 3 سال کے درمیا ن امریکہ کے صدر اوباما سے 8بار ملا قاتیں کی ہیں شاید کو ئی دوسرے غیر ملکی حکمر ان اور امریکی صدر کے درمیان اتنی ملاقاتیں رہی ہو ں ، پھر جا تے جا تے سابق امر یکی صدر نے وزیر اعظم ہند نریندر ی مو دی کو سلام رخصت بھی کیا اور مستقبل میں امریکہ اور ہند تعلقات کے مزید مستحکم ہو نے کی خواہش اور امید کا بھی اظہار کیا ۔
  ٹرمپ نے جہا ں اسلا می شدت پسند ی کے مکمل خاتمے کا ذکر کیا ہے وہاں انھو ں نے دنیا میں مکمل امن کی بات بھی کی ہے ، امریکہ گزشتہ 30سال سے دنیا میں امن لا نے کا دعویٰ کر رہا ہے مگر دنیا کو دہشت گردی اورآہن و آگ کے شعلو ں میں دھکیل رکھا ہے۔ عراق کا معاملہ سامنے ہے وہا ں کیا کیا حتیٰ کہ اسی دہشت گردی اور شدت پسند ی کے خاتمے اور امن کے نا م پر عراق کو پہلے تنہا کیا اور اس حد تک تنہا کیا کہ بچو ں کی ادویہ تک پر پابندی لگا دی ۔ ہزاروں بچے دوا سے محروم ہوکر جا ن ہا ر بیٹھے ۔ جس کو معصوم جانو ں پر رحم نہ آیا وہ دنیا پر کیسے رحم کھا نے کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ غیر فطرتی بات ہے ، صدر ٹرمپ کے عزائم کیا ہیں اب یہ بات زیر بحث آنے کی چیز نہیںرہی۔ انتخابی مہم کی زبان اور ہوتی ہے اور ایک ذمہ دارعہد ے کوسنبھال کر زبان اور ہو جاتی ہے اوروہ ہو گئی انھو ں نے حلف اٹھانے کے بعد جو بیان دیا ہے اس بارے میں ممتاز دانشور خلیل جبران ایّام مرور میں تبصرہ کر گئے ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ آنے والی صدی میں کیا ہو نے جا رہا ہے۔ خلیل جبران نے کہا تھا کہ اس نے کہایقین آیا ، زور دے کر کہا تو شک ہوا ، قسم کھا ئی تو جا نا جھو ٹا ہے 
  امریکی خفیہ ایجنسیو ں نے اپنی رپو رٹ میں تسلیم کیا ہے کہ اب امریکہ سے دنیا میں جتنی نفر ت کی جا تی ہے اس سے پہلے نہیں کی جاتی تھی۔ امن کے نام پر امریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد خود ہی اعتراف کیا تھا کہ عراق میں زہر یلے و خطرنا ک ہتھیار نہیں پائے گئے۔ کارروائی خفیہ ایجنسی کی غلط رپو رٹوں پر ہوئی۔ کیا اقوام متحدہ کے ادارے نے امریکہ پر کوئی پا بندی لگا ئی کہ جب امر یکہ کو عراق پر چڑھائی کا لائسنس بھی نہ دیا ، کوئی ثبوت بھی نہ تھا پھر اس نے عراق پرکیو ںحملہ کیا ؟ کیا امریکہ سے کسی نے مطالبہ کیا کہ جن غلط رپو رٹوںکی بنیا د پر اس نے عراق کو تہس نہس کیا۔ ان رپو رٹوں کو تیارکرنے والو ں کو سزا دی جا ئے؟ امریکہ کا یہ اعتراف ندامت نہ تھا بلکہ اس ڈھٹائی کا مظہر تھا کہ ہم اچھا کر یں یا بد ہما ری مرضی جو کر نا ہو وہ کر لو ۔ ٹرمپ کاپہلا صدارتی بیا ن بھی اسی امر کا مظہر ہے ۔ اس سے کوئی پو چھنے والا نہیں کہ یہ اسلا می شدت پسند ی کی اصطلا ح کیو ں اختراع کی ہے اس کے مقاصد کیا ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اہل اسلا م کے پاس کوئی مرکزی قیا دت نہیں جو ان قوتو ں سے مباحثہ کر سکے ۔ ایک موقع قیا دت کے لئے آیا تھا مگر اس کو اصولو ں کی بنیاد پر گنوا دیا گیا وہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ ایک عرب ملک کے صدر نے پاکستان کی آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ جنرل محمو د سے کہا تھا کہ مسلم ممالک کے پاس کوئی قیادت نہیں۔ کیا پا کستان مسلمانو ںکی قیادت کے لئے تیا ر ہے تو اس بارے میں پیش رفت کی جا ئے۔ جنرل (ر) محمو د نے اس بارے میں جنرل پر ویز مشرف سے کوئی ذکر نہیں کیا ، کیو نکہ وہ سمجھتے تھے کہ پرویز مشرف جیسے کر دار کا آدمی عالم اسلام کی قیادت کا اہل نہیں، ٹر مپ کے بیا ن کی روشنی میں اس وقت عالم اسلام کی مر کزی قیا دت کی بے حد ضرورت ہے کیو نکہ ٹرمپ نے جو نئے اتحادی بنا نے کی بات کی ہے اس سے اس امر کی غما زی ہو رہی ہے کہ وہ نئے اتحاد میں روس کو شامل کر نے کا ارادہ رکھتا ہے اور ٹرمپ بار بار روس کے ساتھ تعلقات کو امریکہ کے مفاد میں قرار دے رہا ہے مگر یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی کیونکہ روس کویہ معلوم ہے کہ مفاد کی دوستی سچی دوستی نہیں ہو تی ، اس کا مفاد اس میں ہے کہ علا قے کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں گہر ائی پید ا کی جا ئے جس میں چین ، کو ریا ، ویتنام ، فلپائن ، پاکستان ، ایران اور ترکی وغیرہ شامل ہیں۔
ٹرمپ کی پا لیسی کیا ہو گی وہ وزیر دفاع کی تقرری سے عیا ںہوگئی ہے ۔جیمز میٹس کو ایر ان دشمن کہا جا تا ہے مگر وہ ایران دشمن ہی نہیں بلکہ اس نے افغانستان میںبھی جنگ کی ہے اور وہ اس لحاظ سے اسلامی ممالک سے دوستی کا الگ ہی معیا ر رکھتا ہے پھر اس کو وزیر دفاع بنانے کے لئے قانو ن میں نرمی بھی دی گئی ہے ایسے میں کوئی یہ سکتا ہے کہ ٹرمپ دنیا میں امن لے کرآئے گا ؟
******

شیئر: