Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا کی واحد ٹیم جو غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتی

 
پاکستان رینکنگ میں مطلوبہ نمبر پر نہ آسکا تو لا محالہ اسے ان ”بے بی“ ٹیموں کے ساتھ ورلڈ کپ کوالیفائنگ راونڈکھیلنا ہوگا جن میں سے کئی کوخود پاکستانی کھلاڑیوں نے بیٹ پکڑنا اور بولنگ کر نا سکھایاتھا
 
جمیل سراج ہاشمی ۔کراچی
 
پاکستان کرکٹ ٹیم کو دورہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کے بعد ایک اور بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، پانچویں ون ڈے کا نتیجہ خواہ کچھ بھی آئے سیریز تو میزبان ٹیم3-1 سے اپنے نام کرکے گرین شرٹس کے دامن میں ایک اوررسوائی کا داغ مل ہوچکی ،پاکستان کو لگاتار تیسرے اور چوتھے میچ میں ہراکر اپنی برتری ثابت کی، چوتھے میچ میںکینگرو ز ٹیم نارمل کرکٹ کھیلی جبکہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے اپنی بسا ط کے مطابق کھیل پیش کیا ، تینوں شعبوں میں ذلت آمیز کارکردگی دی اور شکست سے قبل اس کے خوف سے ہار ماننے کی روایت برقرار رکھی،کپتان اظہر علی فٹ ہوکر واپس آئے اور ٹیم کو اس کے رنگ میں رنگ دیا، میچ کے اختتام سے پہلے ہی ماہرین و ناقدین کرکٹ پیش گوئی کررہے تھے کہ اس میچ میں بھی ہار گرین شرٹس کا مقدر بننے جار ہی ہے۔
سابق کرکٹرز جاوید میانداد، ظہیر عباس، وسیم اکرم، سلیم ملک، ثقلین مشتاق، عبدالقادر،محمد الیاس، سرفراز نواز اور سکندر بخت نے پاکستان کی مجموعی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا”یہ نہیں سدھریں گے، انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا جو نہیں ہے، پی سی بی میں ہر ایک کو گویا اپنی پڑی ہے، ٹیم کا بیڑہ غرق ہوتا ہے تو ہو، انہیں اس سے کوئی علاقہ ہے نہ فکر، انہیں وقت پر پوری تنخواہیں مل جاتی ہیں ،انہیں اور کیا چاہئے، جب کرکٹ بورڈکو چلانے والوں کی یہ سوچ اور” اپروچ“ ہوگی تو اس سے قومی ٹیم کا اثرانداز ہونا تو بنتا ہے، لہذا جو ،جو کچھ کر رہا ہے اسے کرنے دو، اسے اس کے حال پر چھوڑ دو،اس دلچسپ تبصرے پر بعض ناقدین جن میں سابق چیئرمین بی سی بی خالد محمودبھی شامل ہیں، نے کہا جو ٹیم ایک اننگز میں ایک دو نہیں پورے پانچ کیچز ڈراپ کردے اس سے کامیابی کی توقع عبث ہے۔
جہاں تک میزبان کینگرو ٹیم کا سوال ہے تو ان کیلئے یہی کہا جائے گا کہ وہ اپنی سرزمین پر عموما اسی طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں کوئی قباحت نہیں کہ پاکستان ٹیم سے کوئی رو رعایت کریں، اور کیوں ، آپ پروفیشنل کرکٹ کھیل رہے ہیں کوئی گلی محلے کی کرکٹ نہیں کھیل رہے ہیں ،یہ کیاکوئی مذاق ہے جو آپ کی ٹیم 354 رنز کا ہدف وہ بھی پچاس اوورز اور دس کھلاڑیوں کے ساتھ عبور کرلے،کس کی مجال ہے جو پاکستان ٹیم کے ہوتے ہوئے اس انہونی کو ہونی بنادے،دنیا کی یہ شاید واحد ٹیم ہے جو غلطیوں سے سیکھنا نہیں جانتی، آج وہ ٹیمیں آگے کیوں نکل گئیں ،اس لئے کہ وہ ہر غلطی سے کچھ سیکھتی ہیں،بنگلہ دیش کی مثال سب کے سامنے ہے جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ون ڈے رینکنگ میں پاکستان سے آگے جگہ بنالی،دوسری مثال افغانستان کرکٹ ٹیم کی ہے جس نے بیٹ پکڑنا ہم سے سیکھا، بولنگ کے گر ہم سے سیکھے ، اور وہ ٹیم آج ایسوسی ایٹ ٹیموں میں سرفہرست ہے، اب اگر پاکستان رینکنگ میں مطلوبہ نمبر پر نہ آسکا تو لا محالہ اسے ان ”بے بی“ ٹیموں کے ساتھ ورلڈ کپ کوالیفائنگ راونڈکے میچز کھیلنے ہوں گے جس کے بعد اگر کامیابی ملی تو سابق عالمی چیمپین ٹیم عالمی کپ کے میچز کھیلنے کی اہل ہوسکے گی ورنہ نہیں۔
یہ ہے ہماری ہونہار قومی کرکٹ ٹیم کا کمال۔ ٹیسٹ کرکٹرز عاصم کمال ، عمران فرحت اور تنویر احمد کا کہنا ہے ، ہماری ٹیم برا نہیں کھیلی، انہیں برا کھیل پیش کرنے کے بھر پور مواقع دئے گئے، جس ٹیم کے کپتان کو یہ معلوم نہ ہو کہ کس حریف بیٹسمین کو کس بولر کے ذریعے آوٹ کیا جاسکتا ہے ، اور پچاس اوورز کو بولرز میں کس طرح تقسیم اور استعمال کیا جائے ، تو اس ٹیم سے ایسی کارکردگی قطعی غیر متوقع نہیں کہی جائے گی، رہی بات کپتان بدلنے کی تو اس میں ٹور سلیکشن کمیٹی اور وہاں موجود تھینک ٹینک اس کے جواب دہ ہیں، یہ اس ٹیم کی سراسر غیر مستقل مزاجی ہی ہے کہ کسی کھلاڑی کو صرف ایک میچ کیلئے کپتان بنادیا جائے ، دوسرے کو جو فٹنس مسائل کی وجہ سے ٹیم کا حصہ نہ رہ سکا ہو۔جب آپ کا کپتان فٹ نہ تھا تو اسے ٹیم میں شامل کرنے کی ضرورت کیا تھی، کیا اظہر علی کے باہر بیٹھنے سے قیادت کی ذمہ داری محمد حفیظ نے خراب یا ناقص معیار کی کی تھی جو اسے کپتانی سے ہٹا دیا گیا، ایسا نہیں بلکہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے تھا۔
******

شیئر: