Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم اقلیت کےمسائل اور ذمہ داریاں

مسلم اقلیت زندگی کے مختلف میدانوں میں برادران وطن سے کسی طرح بھی پیچھے نہ رہے بلکہ آگے بڑھنے کی کوشش کرے،انہیں اپنا انسانی بھائی سمجھے اور ان کے مستقبل کیلئے فکرمند ہو

 

ابراراحمد اصلاحی - مکہ مکرمہ

2017 کے آغاز تک دنیا کی انسانی آبادی سات ارب (بلین) سے زیادہ ہے. دوسری طرف، دنیا کے ملکوں کی تعداد 197 ہے جن میں سے 193 ممالک اقوام متحدہ کے ممبر ہیں اور دیگر چار ممالک ویٹیکن سٹی، تائیوان، کوسوو اورفلسطینی ریاست ہیں. مسلم آبادی کے لحاظ سے دنیا کے ممالک کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.

1- مسلم اکثریتی ممالک.

2- مسلم اقلیتی ممالک. عام طور پرمسلم اکثریتی ممالک تنظیم تعاون اسلامی (OIC) کے ممبر ہیں اور ان کی تعداد 57 ہے جب کہ مسلم اقلیتی ممالک کی تعداد 140 ہے. دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت ہندوستان میں رہتی ہے جس کی تعداد تقریباً 20 کروڑ ہے. ان 140 ممالک میں مسلمان مختلف دینی،تعلیمی، اقتصادی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل سے دوچار ہیں. مگر دو مسائل ایسے ہیں جن کی حیثیت انتہائی اہم ہے.

1- ان ممالک کے مسلمان کس طرح اپنے دین اورتشخّص پر قائم رہیں.

2- ان ممالک کے مسلمان تعلیم، حفظانِ صحت، ملازمت، تجارت، سیاست اور سماجی زندگی کے مختلف میدانوں میں برادران وطن سے کسی طرح بھی پیچھے نہ رہیں. رابطہ عالم اسلامی-مکہ مکرمہ کے شعبہ مسلم اقلیات میں کام کا تجربہ اور بہت سے مسلم اقلیتی ممالک میں مسلمانوں کے حالات کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ان ممالک کے حالات کے پیش نظر مسلمانوں کے مسائل میں کمی و بیشی ہوسکتی ہے مگر دو اہم مسئلے جن کی طرف پہلے نشان دہی کی جاچکی ہے وہ ہرمسلم اقلیتی ملک کے لئے یکساں طور پر اہم ہیں. سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں مسائل کیوں اہم ہیں؟ پہلا مسئلہ اسلام پر باقی رہنے اور دینی تشخّص کا ہے. یہ اس لئے اہم ہے کہ ان ممالک میں عمومی نصاب تعلیم، اخبارات، میگزین، ریڈیو، ٹیلی ویژن، سینما گھر، انٹرنیٹ پر دستیاب مواد اور سوشل میڈیا فرد، خاندان اور معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں.

یہی وجہ ہے کہ نئی نسل پر ان کے نمایاں اثرات کو دیکھا جاسکتا ہے. ان ممالک میں مسلم والدین کو اپنی اولاد کی تربیت میں جن دشواریوں کا سامنا ہے وہ سب کو معلوم ہے. ان ملکوں میں نئی نسل کا اسمارٹ فون، فیس بک اور ٹویٹر پر مبنی زندگی اور شب و روز کا رہن سہن، نکاح کے بجائے (Live-in) کا کلچر جس طرح رائج ہے، مسلم نئی نسل کا ان سے محفوظ رہنا مشکل ہے. اگر مسلم والدین اپنی اولاد کے لئے فکرمند نہ ہوں اور ان کی تربیت کا خصوصی انتظام نہ کریں تو اندیشہ ہے کہ مسلم اقلیت کی نئی نسل اکثریتی معاشرے میں تحلیل ہو جائے جیسا کہ ماضی میں لاطینی امریکہ کے بعض ممالک اور مشرقی یورپ کے کئی علاقوں میں ہوچکا ہے اور پوری مسلم نسل ضائع ہوگئی. دنیا کے مختلف ممالک کے سفر سے یہ میرا اندازہ ہے کہ ہندوستان کےمسلمانوں سے زیادہ مغربی ممالک کےمسلمان اپنی نئی نسل کے بارے میں فکرمند ہیں. بہرحال یہ مسلم اقلیت کے وجود اور اس کی بقا کا مسئلہ ہے اور دینی اعتبار سے انتہائی اہم مسئلہ ہے. تقریباً 140 مسلم اقلیتی ممالک میں مسلمانوں کے دو بڑے مسائل میں سے پہلے مسئلے کا قدرے وضاحت کے ساتھ ذکر ہو چکا ہے.

دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے مسلمان زندگی کے مختلف میدانوں میں برادران وطن سے کسی طرح بھی پیچھے نہ رہیں بلکہ آگے ہی ہوں. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں؟ یہ سوال بہت مناسب ہے. کیونکہ اسی سے ان ملکوں میں مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی، اجتماعی، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں ان کی حیثیت اور مقام کا اندازہ ہو سکے گا. مثال کے طور پر امریکہ میں مسلمان تعلیم کے میدان میں اوسط امریکیوں سے آگے ہیں. کیونکہ زیادہ تر مسلمان وہ ہیں جو اعلی تعلیم کے لئے وہاں گئے اور قیام پذیر ہوگئے. اسی طرح جنوبی افریقہ میں مسلمان تقریباً 5% ہیں مگر معاشی طور پر وہ اوسط شہریوں سے زیادہ خوش حال ہیں اور اس کی وجہ سے ملک میں ان کی اہمیت زیادہ ہے. دوسری طرف اپنے ملک میں مختلف ریاستوں کا جائزہ لیا جائے تو اس مسئلے کی حقیقت مزید واضح ہو جائے گی. مثال کے طور پر آسام اور کیرلا کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کیرلا جس کی مسلم آبادی 25% سے زیادہ ہے، اس اعتبار سے ایک نمونہ ہے کہ وہاں مسلمان اپنی تعلیمی ترقی، معاشی خوشحالی، اجتماعی اور سیاسی طور پر منظم ہونے کے سبب ریاست کے ترقیاتی بجٹ سے اپنا حصہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں جبکہ آسام جس کی مسلم آبادی 35% ہے. کیرلا سے بہت پیچھے ہے کیونکہ وہاں مسلمان آبادی کے بہتر تناسب کے باوجود اپنی تعلیمی پسماندگی، معاشی کمزوری، اجتماعی اور سیاسی طور پر مضبوط نہ ہونے کے سبب ابھی تک اپنے حقوق کی حصولیابی میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں. اسی طرح بنگال اور اڑیسہ دو پڑوسی ریاستیں ہیں. بنگال میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 30% ہے جب کہ اڑیسہ میں ان کی آبادی صرف 3% ہے. مگر تعلیمی، معاشی. اجتماعی اور سیاسی پسماندگی کے سبب دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کے حالات میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے. یقیناً یہ مسئلہ ہم سب کے لئے قابل غور ہے.

یہ مسئلہ کہ مسلم اقلیت زندگی کے مختلف میدانوں میں برادران وطن سے کسی طرح بھی پیچھے نہ رہے بلکہ آگے بڑھنے کی کوشش کرے، اس لئے بھی اہم ہے کہ کوئی بھی دینی، لسانی یا نسلی اقلیت چونکہ اکثریت سے مختلف ہوتی ہے لہٰذا اس کے تئیں کئی طرح کی غلط فہمیاں اورشکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں جو اکثریت اور اقلیت کے درمیان محتاط تعلقات کا سبب بنتے ہیں پھر وہ بوقت ضرورت ہی ایک دوسرے سے ملتے ہیں. ان وجوہ سے زندگی کے مختلف میدان جیسی تعلیم، ملازمت، تجارت، حفظانِ صحت، سماجی خدمات اور سیاسی عمل میں اقلیت کے اندر یہ احساس پیدا ہونے لگتا ہے کہ ان کی ان دیکھی ہورہی ہے. اس لئے یہ ضروری ہے کہ مسلم اقلیت ان میدانوں میں برادران وطن سے کسی طرح بھی پیچھے نہ رہے بلکہ آگے ہی ہو. آگے ہونے کی صورت میں ہی یہ ممکن ہو گا کہ کوئی ان کی ان دیکھی نہ کرسکے اور وہ ان میدانوں میں اپنے لئے بہتر مقام بناسکے. ہر ملک اور معاشرے کو اچھے ٹیچر، منیجر، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، وکیل اور تاجر کی ضرورت ہوتی ہے.

کیا خوب ہوکہ یہ ضرورت مسلم اقلیت کے افراد پوری کریں اور ملک کے لئے اثاثہ بن جائیں. بصورت دیگر، اگرمسلم اقلیت پیچھے رہتی ہے تو ملک کے لئے اثاثہ نہیں بلکہ بوجھ بن جائے گی اور کوئی اس کا پرسان حال بھی نہ ہوگا. 140 ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور زیادہ تر ملکوں میں ان کی آبادی کا تناسب بہت کم ہے. جب تک ان کی آبادی کا تناسب کم رہتا ہے. انہیں زیادہ مسائل کا سامنا نہیں ہوتا ہے. جیسے جیسے آبادی کا تناسب بڑھتا جاتا ہے، مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے. ہندوستان میں 125 کروڑ کی مجموعی آبادی میں مسلم آبادی کا تناسب کم و بیش 16% یعنی 20 کروڑ ہے.

کسی بھی ملک میں 15% آبادی تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی میدان میں خود کو اہل بنالے تو بہت کچھ کرسکتی ہے. اپنے ہی ملک میں ایک برادری جو مشکل سے 10% ہے، زندگی کے مختلف میدانوں میں اعلی مناصب پر براجمان ہے. ملک میں جب بھی مسلم ریزرویشن کی بات آتی ہے، سب سے پہلے یہی طبقہ آڑے آجاتا ہے ایک مغالطہ جو بعض لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہپہلے اس پر گفتگو ہوجائے. مغالطہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اقلیت نہ کہا جائے، وہ تو دوسری بڑی اکثریت ہیں. میرے نزدیک یہ انتہائی سادہ لوحی ہے. کبھی کبھی اس مغالطے کو کسی بڑی شخصیت کی طرف منسوب بھی کردیا جاتا ہے. اگر یہ نسبت درست بھی ہو تو دیکھنا چاہتے کہ انہوں نے کس سیاق و سباق میں کہا ہے.

کسی بڑی شخصیت کا بیان اگر حقائق اور اعدادوشمار کی کسوٹی پر پورا نہ اترے تب بھی وہ قابل قبول ہوگا. یہ ایک اہم سوال ہے. یہ بات کہ ہند میں مسلمان اقلیت نہیں ہیں بلکہ دوسری بڑی اکثریت ہیں، ہمیں حقائق اور اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھنا چاہیے. دستور ہند کسی بھی دوسری بڑی اکثریت کے بارے میں خاموش ہے جبکہ اقلیت کے لئے اس میں مراعات اور تحفظات ہیں. یہ ضرور ہے کہ مختلف وجوہ سے مسلمان ان مراعات اور تحفظات سے پوری طرح مستفید نہیں ہو سکے ہیں جبکہ دیگر اقلیتیں جیسے سکھ، عیسائی، بد?ھسٹاور جینی حضرات بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیںدوسری طرف وہ لوگ جو مسلم دشمنی کے سبب یہ چاہتے ہیں کہ دستور میں دی گئی مراعات و تحفظات کو ختم کر دیا جائے، وہ بھی یہی بات کہتے ہیں کہ مسلمان اقلیت نہیں ہیں. وہ تو ہمارے سماج کا حصہ ہیں. باوجود اس بات کے کہ مسلمان زندگی کے مختلف میدانوں میں پیچھے ہیں، یہ فرقہ پرست طاقتیں انہیں کچھ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں. اس طرح کی کوئی بات بھی ا ن کے نزدیک مسلمانوں کی خوشامد ہے. 140ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور اپنی نئی نسل کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے فکر مند ہیں. ہند کے مسلمان ظاہر ہے کہ امت سے الگ نہیں ہیں. اور ان کے مسائل بھی کم نہیں ہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم فکرو عمل سے ان مسائل (challenges) کو خوش آئند مواقع (opportunities) میں تبدیل کردیں. یہی ہمارا مستقبل اور مقدر ہے. مسلم اقلیت کے سامنے مختلف مسائل ہوں تو ان کو حل کرنے کے لئے فکر وعمل کی ذمہ داریاں بھی ہونی چاہئیں۔جس طرح مسلم اقلیت کے دو اہم مسائل ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، اسی طرح ان کے حل کی ذمہ داریاں بھی دو ہیں.

1- اسلام پر قائم رہنے کی ذمہ داری

2- زندگی کے مختلف میدانوں میں آگے آنے کی ذمہ داری پہلی ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ہمارے پاس مختلف دائرہ عمل ہیں جیسے: گھر، مسجدیں، دینی تعلیم کے ادارے، دینی جماعتیں اور ذرائع ابلاغ. ان میں سے ہر ایک کے بارے میں علحدہ سے غور وفکر کی ضرورت ہے. مگر یہاں پر یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ جس طرح یہ ضروری ہے کہ مسلم اقلیت کے افراد اسلام کی تعلیمات اور قدروں پر عمل پیرا ہوں، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اکثریتی معاشرہ کے جو افراد ان کے پڑوس اور قرب و جوار میں رہتے ہوں یا روز مرہ کی زندگی میں ان سے واسطہ پڑتا ہو تو انہیں بھی اپنا انسانی بھائی سمجھیں، ان کے مستقبل کے لئے فکرمند ہوں اور انہیں اندھیرے سے روشنی کی طرف لانے کا جذبہ رکھتے ہوں.اللہکے دین کے لئے یہ تڑپ رکھتے ہوں کہ یہ ساری انسانیت کا دین بن جائے. قرآنِ مجید کے مسلسل مطالعہ اور تدبر سے اسلام کا یہی جامع تصور سامنے آتا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں یہی طرز عمل حاوی نظر آتا ہے. یہی فکرمندی اور جذبہ تمام انبیاءکرام کی زندگیوں میں جاری اور ساری نظر آتا ہے. اس فکرمندی، جذبہ اور تڑپ کے بغیر اللہ کی رضا اور انعام کی توقع رکھنا بے سود ہے.

(باقی آئندہ)

شیئر: