Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لباس اور پردہ

سادگی، تکلّفات اور شان و شوکت کے اظہار سے اجتناب کا نام ہے، نہ کہ میلے کچیلے پھٹے پرانے لباس میں ملبوس اور پراگندہ و بدحال رہنا
* * * *
ام عدنان قمر۔ الخبر
* * * * *
مردوں اور عورتوں کے لیے ریشمی لباس
 
عورتوں کے لیے ریشم حلال ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عورتوں کے لیے ہرقسم کے ریشمی لباس پہننے کی اجازت ہے، جبکہ وہ سترو پردے والا ہو اور مردوں کے لیے ریشمی لباس حرام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’جس نے دنیا میں ریشمی لباس پہنا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہنے گا۔‘‘ یہ وعید مردوں کے لیے ہے، ریشمی لباس کے ساتھ ریشمی گدے اور گدیاں بھی ممنوع ہیں اور ان کپڑوں میں ان کی نماز بھی قبول نہیں ہوگی۔
*زعفرانی رنگ بھی مردوں کے لیے ممنوع ہے*
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو زعفرانی رنگ کا لباس پہننے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
*سفید رنگ کا لباس اور کفن پسندیدہ ہے*
حضرت ابن عباسؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھارے کپڑوں میں سے بہترین کپڑا سفید ہے، اس لیے تم اسے پہنو اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن پہناؤ۔‘‘ حضرت سمرہ بن جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سفید لباس پہنو، اس لیے کہ یہ بہت پاکیزہ اور عمدہ ہے۔
*دوسرے رنگوں کا لباس*
سفید رنگ کے علاوہ دوسرے رنگوں کا لباس بھی جائز ہے سوائے ان رنگوں کے جن کی ممانعت آئی ہے، جیسے زعفرانی رنگ کا لباس مردوں کے لیے ممنوع ہے۔ یہ رنگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں استعمال کرتی تھیں، اس لیےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مردوں کے لیے ممنوع قرار دے دیا۔ اس سے یہ اصول معلوم ہوا کہ جو رنگ عام طور پر عورتوں میں رائج ہو، وہ مردوں کے لیے ممنوع ہوگا۔ عورتوں کی مشابہت بھی ممنوع ہے اور غیر وں کی مشابہت اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
*تصویر والے پردے لٹکانا یا تصویریں لگانا ممنوع ہے*
اسی طرح تصویر والے کپڑے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے: ’’ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے گھر میں ایک تصویر والا پردہ لٹکایا ہوا تھا، اسے دیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوگیا اور اس پردے کو پکڑ کر پھاڑ دیا، پھر فرمایا: قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق میں اس کی نقل اتارتے ہیں۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ تصویر سازی تخلیقِ الٰہی کی نقل ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے تصویر سازوں یعنی اللہ کے نقالوں کو سخت عذاب ہوگا۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں اور دکانوں کو ان تصویروں سے پاک رکھنے کی کوشش کرے۔ حضرت عائشہؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان فرماتی ہیں: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کوئی تصویر والی چیز نہیں رہنے دیتے تھے، ایسی کوئی چیز آپ دیکھتے تو اسے توڑ دیتے۔‘‘ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں اور اس قسم کی چیزوں سے اپنے گھروں کو پاک رکھیں اور اپنے بچوں کو اللہ کی پسند اور ناپسند چیزوں کے متعلق آگاہ کریں، کیونکہ یہ تمام والدین کا فرض ہے۔
*مردوں کے لیے ٹخنوں سے نیچے پاجامہ شلوار وغیرہ لٹکانا حرام ہے*
مردوں کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’لباس ( شلوار، پاجامہ وغیرہ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا، وہ جہنم میں ہوگا۔‘‘ نیز فرمایا:’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں سے بات کرے گا اور نہ رحمت کی نظر سے انھیں دیکھے گا، جو اپنے تہمد [شلوار پتلون وغیرہ] کو تکبر سے اتراتے ہوئے نیچے لٹکاکر چلتا ہے۔‘‘ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے سے بچو! کیونکہ یہ تکبر ہے اور اللہ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اتنی معمولی سی بات پر اتنی سخت سزا ناقابلِ فہم ہے ، لیکن جو لوگ ایمان و تقوے کے صحیح فہم اور شعور سے آگاہ ہیں، ان کے لیے اس میں حیرت و استعجاب کا کوئی پہلو نہیں۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے، تمام اختیارات اور قوتوں کا مالک وہی اور صرف وہی ہے۔
*اسبالِ ازار کئی گناہوں کا مجموعہ ہے*
اسبالِ ازار یعنی ٹخنوں سے نیچے چادر پاجامہ لٹکانے کو لوگ معمولی بات سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے اس گناہ کا ارتکاب عام ہے اور لوگ اس سے بچنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتے، حالانکہ اس پر جہنم کی سخت وعید ہے۔ اس پر اتنی سخت وعید کی وجہ یہ ہے کہ یہ گناہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے: 1 پہلی بات یہ کہ اس عمل کو حدیث میں تکبر قرار دیا گیا ہے اور تکبر اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ 2 اس میں عورتوں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے اور یہ بھی نہ صرف ممنوع ہے بلکہ اس پر لعنت بھی وارد ہوئی ہے۔ 3 اس میں طہارت کے بجائے نجاست کا پہلو غالب ہے، جبکہ طہارت اختیار کرنے اور نجاست سے اجتناب کرنے کا حکم ہے۔ جب شلوار،پاجامہ زمین کے ساتھ لگتا ہوا جائے گا، تو اس میں زمین کی گندگی بھی شامل ہو جائے گی، یوں لباس طہارت کے بجائے نجاست کا حامل ہوجاتا ہے اور پھر یہ اسی نجس کپڑے کے ساتھ نماز بھی ادا کر لیتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ تو اہلِ طہارت کو پسند فرماتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ} [البقرۃ: ۲۲۲] ’’اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں طہارت اور نیکی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین غرور اور تکبر کسی بھی صورت میں ہو، وہ اللہ کو ناپسند ہے: یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص اچھا لباس پہن کر اور بالوں کو خوب بنا سنوار کر بھی تکبر کا اظہار کرتا ہے تو یہ چیز اسے ناجائز اور قابلِ سزا جرم بنا دے گی، جیسے حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک شخص ایک (عمدہ) جوڑا زیبِ تن کیے جا رہا تھا، غرور و تکبر سے اس کا نفس پھولے نہ سما رہا تھا، اس نے شانوں تک اپنے پھیلے ہوئے بالوں کو خوب سنوارا ہوا تھا کہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا، پس وہ قیامت تک (اس میں) دھنستا چلا جائے گا۔‘‘ یہ خوش پوشاکی اور زیبایش و آراستگی کی سزا نہیں ہے، کیونکہ یہ دونوں چیزیں تو جائز ہیں، بلکہ بعض روایات میں اصحابِ حیثیت لوگوں کو اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ سزا دراصل اس کے غرور اور فخر و تکبر کی وجہ سے ہے جس میں بعض لوگ بیش قیمت لباس پہن کر اور بناؤ سنگار کرنے کے بعد مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان کی یہی حرکت اللہ کو نا پسند آتی ہے اور وہ محبوب سے مغضوب بن جاتے ہیں ، کیونکہ اللہ کو تو عاجزی پسند ہے اور عجب و تکبر نا پسند ہے، چاہے وہ لباس میں ہو یا چال ڈھال میں، حسن و جمال کے اظہار میں ہو یا بول چال کے انداز میں، رہن سہن (بودو باش) میں ہو یا دوسروں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں، فخر و غرور کا انداز اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ ایک حدیثِ قدسی میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار ہے ،جو بھی ان میں سے کسی کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا ، میں اس کو جہنم میں پھینک دوں گا۔‘‘
*دو اصول ، اسراف ہو نہ تکبر*
فخر و غرور اور تکبر اللہ کو ناپسند ہے، اسی لیے ایک حدیث میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پہنو، لیکن دو چیزوں سے تجاوز نہ کرنا: ایک فضول خرچی اور دوسرا تکبر۔‘‘اسی لیے ہر مومن مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر معاملے میں سادگی کا اہتمام کرنے کی کوشش کرے، تکلفات اور شان و شوکت کے اظہار سے اجتناب کرے۔ سادگی اختیار کرنے کی تلقین اور ناز و نعمت سے اجتناب کی تاکید: یہی وجہ ہے کہ سادگی کو ایمان کا حصہ قرار دے کر سادگی اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبلؓکو جب یمن بھیجنے لگے تو فرمایا: ’’ناز و نعمت کی زندگی سے اجتناب کرنا، کیونکہ اللہ کے بندے ناز و نعمت اختیار کرنے والے نہیں ہوتے۔‘‘ سادگی اور تجمل و آرایش کے درمیان اعتدال کی تاکید: یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ سادگی تکلّفات اور شان و شوکت کے اظہار سے اجتناب کا نام ہے، نہ کہ میلے کچیلے پھٹے پرانے لباس میں ملبوس اور پراگندہ و بدحال رہنا۔ اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہونے کے باوجود فقیرانہ حالت بنائے رکھنا ناشکری بھی ہے اور شریعت میں ناپسندیدہ بھی۔ حدیث میں ایک صحابی کا واقعہ آتا ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے معمولی سا لباس پہنا ہوا تھا۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا تیرے پاس کوئی مال ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: ہاں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کس قسم کا مال ہے؟‘‘ (راویِ حدیث کہتے ہیں:) انھوں نے کہا: اللہ نے مجھے اونٹ بھی دیے ہیں، بکریاں بھی اور گھوڑے غلام بھی دیے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ نے تجھے مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ کی اس نعمت کا، جو تجھ پر ہوئی ہے، اثر تجھ پر نظر آنا چاہیے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ صاحبِ جمال ہے، جمال (خوبصورتی) کو پسند کرتا ہے۔ کبر کیا ہے؟ حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔‘‘ یہ باتیں اللہ کو ناپسندیدہ ہیں، کیونکہ یہی تکبر اور غرور ہے۔
*شلوار اور قمیص بہت پسندیدہ لباس ہے*
 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عام لباس دو چادریں تھیں، اوپر والی چادر کو ’’رداء‘‘، ’’کساء‘‘ اور نیچے والی چادر کو ’’ازار‘‘ کہا جاتا تھا۔ بعض دفعہ ایک ہی چادر سے بھی گزارا کر لیا جاتا تھا، اس صورت میں مرد کا اوپر والا حصہ ننگا رہتا تھا اور مرد کے لیے جسم کے بالائی حصے کو (ناف سے سر تک) ننگا رکھنا جائز ہے۔ تاہم بعض لوگ قمیص اور سراویل (شلوار) بھی استعمال کرتے تھے، چادروں کے مقابلے میں ان میں پردہ زیادہ ہے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص کو پسند فرمایا ہے، حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے زیادہ پسندیدہ لباس قمیص تھا۔‘‘ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو لباس جتنا زیادہ ساتر (پردہ پوش) ہوگا، اتنا ہی وہ زیادہ پسندیدہ ہوگا۔ جب مردوں کے معاملے میں یہ صورت ِحال ہے تو عورتوں کے لیے تو مکمل پردہ پوشی کا حکم ہے، عورتوں کا اس سے انحراف کس طرح پسندیدہ ہوسکتا ہے؟ درندوں اور چیتوں کی کھالوں کا لباس اور زین پوش ممنوع ہے: حضرت معاویہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(خالص) ریشمی کپڑے پر سوار نہ ہونا اور نہ ہی چیتوں (کی کھالوں) پر۔‘‘ یعنی ان کے زین پوش اور گدی و غیرہ نہ بناؤ جن پر سوار ہو اور بیٹھو، حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرشتے ان لوگوں کے پاس نہیں جاتے جن کے پاس چیتے کی کھال ہوتی ہے۔‘‘
*انگوٹھی پہننے کا مسئلہ*
مردوں کے لیے سونے کی انگوٹھی ممنوع ہے، البتہ چاندی کی انگوٹھی جائز ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی سے منع فرمایا ہے۔‘‘ لیکن بدقسمتی سے ہمارے موجودہ معاشرے میں مسلمان کہلانے والے مردوں میں بھی سونے کی انگوٹھی پہننے کا رواج بڑھتا جارہا ہے اور منگنی کی جو رسمیں عام ہیں، ان میں سے ایک منگیتر کے لیے سونے کی انگوٹھی کا خصوصی اہتمام بھی ہے اور نوجوان منگیتر اسے بڑی خوشی بلکہ فخر سے پہنتا ہے اور پھر پہنے پھرتا ہے اور تمام احباب و اقارب کو فخریہ طور پر دکھلاتا ہے، حالانکہ یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔ ایسے لوگوں کو اس حدیث پر غور کرنا چاہئے، جو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے ہاتھ سے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا: ’’تم میں سے ایک شخص آگ کے انگارے کا ارادہ کرتا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں رکھ لیتا ہے؟‘‘ انگوٹھی پھینک کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد لوگوں نے اس آدمی سے کہا: تم اپنی انگوٹھی پکڑ لو اور (اسے پہننے کے بجائے بیچ کر) اس سے فائدہ اٹھا لو۔ لیکن اس شخص نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! جس چیز کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھینک دیا، میں اس کو کبھی نہیں پکڑوں گا۔ ایک وہ تھے اور ایک ہم ہیں کہ اپنے آپ کو بہت بڑے امتی کہلواتے ہیں لیکن جہاں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہوتی ہے وہاں ہماری رشتے داریاں آڑے آجاتی ہیں۔۔۔! سونے کے علاوہ دوسری دھاتوں کی انگوٹھی پہننے کا جواز: چاندی کی انگوٹھی کی بابت تو صراحت موجود ہے کہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی، جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر لگانے کے لیے بنوائی تھی، وہ چاندی کی تھی اور اس میں ’’محمد رسول اللہ‘‘ نقش تھا۔ ہاں اگر آج بھی کوئی آدمی اس طرح مہر بنوا کر پہنتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ البتہ اکثر لوگ مختلف پتھروں کی مختلف تاثیر بیان کرتے ہیں اور انھی تاثیرات کی بنیاد پر وہ ان کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان پتھروں کی انگوٹھیوں کی بابت اس قسم کا عقیدہ رکھنا اور اس بنیاد پر ان کو پہننا ناجائز اور حرام ہے۔
مکمل مضمون روشنی27جنوری2017کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں

 

شیئر: