Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہشتگردی کو مٹانے کیلئے سعودی ماڈل کی ضرورت

سعودی عرب نے ایسی تمام شرعی اصطلاحات جنہیں بنیاد بناکر نوجوان تشدد،انتہاپسندی اور دہشتگردی کی طرف جارہے تھے ،احاطہ کیا اور ان موضوعات پر مباحثوں کا اہتمام کیا

 

ڈاکٹرمحمد لئیق اللہ خان ۔ جدہ

* * * * *

اب جبکہ یہ بات پوری دنیا کے سیاستداں ،قوانین کے ماہرین، سیاسی ،اقتصادی،سماجی، ملکی و بین الاقوامی امور پرگہری نظر رکھنے والے تسلیم کرچکے ہیں کہ : دہشتگردی بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ یہ عالمی آفت ہے،اسکا تعلق کسی ایک علاقے یا کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ دنیا کے تمام براعظموں کے اکثر ممالک اس کی زد میں ہیںاوراس سے کوئی بھی براعظم مستثنیٰ نہیں ۔ اب جبکہ یہ بات مانی جاچکی ہے کہ: دہشتگردی کسی مذہب کا خاصہ نہیں ،دہشتگردی کر نیوالوں میں یہودی، عیسائی، مسلمان، ہندو، بودھ ،لادین اورمختلف مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں۔

کوئی مذہب ایسا نہیں جس کے ماننے والے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی شکل میں دہشتگردی میں ملوث نہ ہوئے ہوں۔ اب جبکہ یہ حقیقت شک و شبہ سے بالاتر ہوچکی ہے کہ: دہشتگردی کسی تہذیب کے ساتھ مخصوص نہیں ،قدیم اور جدید تہذیبوں میں سے کوئی معروف تہذیب ایسی نہیں جس سے وابستہ افراد دہشتگردی کے جرم کے مرتکب نہ ہوئے ہوں۔ اب جبکہ زمینی حقائق یہ سچائی منکشف کرچکے ہیں کہ: دہشتگردی ،مالدار افراد بھی کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں،دہشتگردی ،غریب اور نادار افراد بھی کررہے ہیں۔ اس لئے محض غربت یا دولت کو دہشتگردی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔

اب جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ: دہشتگردی کرنیوالوں میں انتہائی اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ ذہن بھی شامل ہیں اور ناخواندہ افراد بھی دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ اب جبکہ تاریخی مطالعات نے یہ راز طشت از بام کردیا ہے کہ: دہشتگردی کسی زمانے کے ساتھ بھی مخصوص نہیں کہ ماضی میں بھی دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں، ازمنہ وسطیٰ میںبھی دہشتگردی کے حملے ہوتے رہے ہیں اور عصر حاضر میں بھی دہشتگردی کی کارروائی زورشور سے جاری ہے۔ اب جبکہ عالمی میڈیا نے پوری دنیا کو یہ بات دکھا دی اور سجھا دی ہے کہ :

دہشتگردی سادہ اور ترقی یافتہ وسائل ہر طرح سے کی جاتی رہی ہے اور کی جارہی ہے۔دہشتگردی میں انتہائی روایتی قسم کے سادہ وسائل سے بھی کام لیا گیا اور لیا جارہا ہے اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی دہشتگردی کی خدمت لی جارہی ہے۔ اب جبکہ ہر سطح پر اس بات کا زور شور سے اظہار کیا جانے لگا ہے کہ :

دہشتگردی سے حکمراں بھی پریشان ہیں اور عام لوگ بھی اس کے نقصانات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔اقتصادی، تعلیمی، قانونی، سماجی ،دینی ادارے بھی دہشتگردی سے متاثر ہیں۔ شہر ، قصبے اور بستیاں بھی دہشتگردی کی زد میں ہیں۔ لہذاجب یہ مسئلہ پوری دنیا ،تمام تہذیبوں ،تمام مذاہب، تمام اداروں اور تمام انسانوں کا ہے تو اسے کسی ایک فرد ، کسی ایک ادارے، کسی ایک تنظیم ، کسی ایک جماعت، کسی ایک قوم ، کسی ایک ملک، کسی ایک مذہب اور کسی ایک علاقے کے ذریعے حل کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔یہ مشترکہ آفت ہے، یہ مشترکہ دشمن ہے، اس کی بیخ کنی اور اس کا مقابلہ موثر مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سعودی عرب جو اسلامی نظام کی علمبردار ریاست ہے اور جسے ارض القرآن و السنہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔کیا وہ دہشتگردی جیسی عالمی آفت سے نمٹنے اور دہشتگردی کو مٹانے کیلئے اپنے یہاں کوئی ماڈل رکھتا ہے؟۔اگر اس کا جواب اثبات میںہے اور یقینا ہے تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑے فخر سے جہاں بھر کے لوگوں سے یہ کہنے میں کوئی باک یا تردد یا تذبذب نہیں ہونا چاہئے کہ آپ لوگوں نے مغربی ممالک کے ماڈل دیکھے، آؤ اب اسلامی تہذیب و تمدن اور اس کے ترجمان ماڈل کو بھی دیکھو۔ سعودی عرب نے دہشتگردی اور اس کے محرکات کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کرکے علمی و ایمانی دیانت کے ساتھ جو کچھ سمجھا اس کے تناظر میں انسداددہشتگردی کی ملکی و علاقائی و بین الاقوامی حکمت عملی ترتیب دی اور اس حکمت عملی کو نافذ کرنے کیلئے درکار تدابیر کا اہتمام کیا۔ سعودی عرب اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے یہاں دہشتگردی کے قائل نوجوان فکری انحراف کا شکار ہیں۔وہ الجہاد ، التکفیر،حاکمیت،دارالاسلام، دارالحرب، جیسی دینی اصطلاحات کے سلسلے میں غلط فہمیوں کاشکار ہیں۔سعودی عرب نے ایسی تمام شرعی اصطلاحات جنہیں بنیاد بناکر نوجوان تشدد،انتہاپسندی اور دہشتگردی کی طرف جارہے تھے ،احاطہ کیا اور ان موضوعات پر ذرائع ابلاغ، انٹرنیٹ، ویب سائٹس ، نجی و عوامی مجالس، مساجد، مدارس،دعوتی مراکزاوراصلاح خانوں و جیل خانوں میں کھلے مباحثوں کا اہتمام کیا۔مباحثوں کیلئے ایسے علماء ، دانشوروں اور مصلحین کا انتخاب کیا گیا جو مذکورہ افکار و خیالات پر گہری نظر رکھتے تھے اور جو صبروتحمل کے ساتھ نوجوانوں کے منحرف افکار سن کر ان سے برادرانہ اور مشفقانہ ماحول میں بحث و مباحثے اور گفت و شنید پر قادر تھے۔ اس سلسلے میں جدید قوانین، بینکوں کے مسائل ، بین الاقوامی تعلقات،جزیرہ عرب میں غیر مسلموں کے داخلے ،سعودی عرب میں غیر ملکی افواج کی موجودگی جیسے تمام امور زیر بحث لائے گئے۔ مستند شرعی نقطہ نظر اور نام نہاد اسلامی نقطہ نظر کا تقابلی جائزہ لیکر حقیقت حال واضح کی گئی۔ ان عناوین پر کتابیں، کتابچے ، مستند تحقیقی رسائل اورمقالات، قلم بند کئے گئے۔

سعودی عرب نے یہ پتہ لگایا کہ ایک تو دہشتگردی کرنیوالے عناصر ہیں دوسرے وہ لوگ ہیں جو دہشتگردانہ افکار اور دہشتگردی کرنیوالوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔سعودی عرب نے دہشتگردی سے ہمدردی رکھنے والوں کو اپنے موقف پر نظر ثانی کا ماحول برپا کیا۔اس سلسلے میں خاندانوں، تنظیموں ،انجمنوں ،علماء، مشائخ ، دانشوروں،اخبارات و رسائل ، مساجد کے ائمہ اور مدارس کے اساتذہ کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ سعودی عرب نے اس حقیقت کا ادراک کیا کہ دہشتگردی کا فتنہ ابھرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوانوں اور نئی نسل کے یہاں پنپنے والے افکار و خیالات کی بابت معاشرے میں موثر اور معتبر لٹریچر کا فقدان ہے۔ سعودی عرب نے یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے اپنی جامعات میں تشدد،انتہا پسندی اور دہشتگردی پر ریسرچ کا اہتمام کیا۔جامعات کو ریسرچ اینڈ اسٹڈیز سینٹرز اور اسپیشلسٹ چیئرز کے قیام کیلئے خصوصی بجٹ مہیا کئے۔ سعودی عرب نے محسوس کیا کہ انتہا پسندی، تشدد اور دہشتگردی ایسے مسائل نہیں جنہیں چھپایا جاسکے یا انہیں نظر انداز کیا جاسکے یا ان کی طرف سے غفلت برتی جاسکے یا انہیں لاعلاج چھوڑا جاسکے۔سعودی عرب نے یہ بھی محسوس کیا کہ یہ مسائل پورے ملک ، پوری امت اور اسلام کے حال و مستقبل کیلئے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ لہذا سعودی عرب نے ان مسائل کے حوالے سے عوامی آگہی مہم کا بھرپور اہتمام کیا۔ ریاستی اداروں ،دینی اداروں، وزارتوں، دارالافتاء ، اسلامی امور کی وزارت،امربالمعروف و نہی عن المنکر کے ادارے، مجلس شوریٰ ، تعلیم و تربیت کی وزارت، اعلیٰ تعلیم کی وزارت، ثقافت و اطلاعات کی وزارت، اخبارات و رسائل، ریڈیو، ٹی وی چینلز ، سماجی امور کی وزارت،نوجوانوں کے نگراں ادارے سمیت سب کو ان مسائل سے نمٹنے کی مہم تفویض کی اور ان سب کو اس سلسلے میں اپنا کردار اداکرنے پر لگا دیا۔ سعودی عرب نے محسوس کیا کہ نام نہاد مفتی، نوجوانوں کو گمراہ کررہے ہیں اور دارالافتاء،افرادی قوت کی کمی اور دائرہ کار محدود ہونے کی وجہ سے اپنا کردار مطلوبہ شکل میں ادا نہیں کرپارہا ہے۔دارالافتاء کا دائرہ وسیع کردیا۔ مملکت کے تمام علاقوں میں فتویٰ گھر کھول دیئے۔مفتیان کرام کو مطلوبہ سہولتیں مہیا کیں۔انہیں جدید وسائل فراہم کئے تاکہ وہ اپنا کردار مطلوبہ شکل میں ادا کرسکیں۔ سعودی عرب نے دیکھا کہ اعلیٰ شہری و فوجی عہدیدار دینی معلومات اور شرعی اصطلاحات کی شدبد نہ رکھنے کی وجہ سے غلطیوں کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔ لہذا اس خلاء کو پر کرنے کیلئے ایسے تمام مسائل جن سے ان کا واسطہ پڑسکتا تھا ان کی بابت اعلیٰ شہری و فوجی عہدیداروں کو خصوصی کورس کرائے گئے۔ سعودی عرب نے محسوس کیا کہ نوجوان اپنی زندگی میں خلاء محسوس کرنے کی وجہ سے غلو اور تشدد کے راستے پر جارہے ہیں،اس خامی کو دور کرنے کیلئے یوتھ ویلفیئر، فلاحی انجمنوں اور این جی اوز کا دائرہ پھیلایا گیا اور انہیں نوجوانوں کی توانائیوں کو سنجیدہ بامقصد سرگرمیوں میں صرف کرنے ، ان کے خلاء کو مناسب و موزوں کاموں سے پر کرنے اور ان کی جذباتی تشنگی کو مفید و کارآمد و تفریحی سرگرمیوں کے ذریعے دور کرنے کا مشن سپردکیا۔ سعودی عرب نے محسوس کیا کہ مکالمے کے فقدان کی وجہ سے نوجوان خودرائی کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں اور مکالمے کا کلچر نہ ہونے کی وجہ سے نئی نسل میں خودپسندی کا دائرہ بڑھ رہا ہے اس کمی کے سدباب کیلئے مملکت بھر میں قومی مکالمہ کلچر کو متعارف کرایا گیا۔ ایسے تمام موضوعات جن کی بابت ذہنوں میں خلفشار پایا جاتا تھا ان سب کا احاطہ کرکے ان پر مملکت کے تمام علاقوں میں ہر سطح پر مکالمے کرائے گئے۔ مطالعات اور اسکالرز کے تحقیقی کاموں نے ثابت کیا کہ دہشتگردانہ افکار پیدا ہونے ، بڑھنے اور راسخ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خود ساختہ علماء اپنا اثرونفوذ قائم کررہے ہیں اور سادہ لوح نوجوان معتبر علماء سے دور ہورہے ہیں۔سعودی عرب نے نوجوانوں اور علماء کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹنے کا اہتمام کیا۔ مطالعات سے یہ بھی پتہ چلا کہ نئی نسل میںعوام سے تعلق رکھنے والے قرآن و سنت کے احکام از خودنافذ کرنے، دوسرے الفاظ میں ریاستی اداروں کے بجائے اپنے طور پر ریاستی اختیارات استعمال کرنے کا رجحان پیدا ہورہا ہے۔سعودی عرب نے نوجوانوں میں عدالتی، شہری،مالیاتی اور عسکری اداروں کے فرائض ،ان کی ذمہ داریوں اور ان کے کاموں سے آگاہی کا بندوبست کیااور انہیں سمجھایا گیا کہ کوئی بھی شخص ریاستی اداروں کے اختیارات اپنے طور پر استعمال کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ دہشتگردی کی سرگرمیوں سے منسلک نوجوان دوطرح کے پائے گئے ، ایک تو وہ جو باقاعدہ دہشتگردانہ فکر رکھتے اور دہشتگردی کے مرتکب ہوئے ،دوم وہ جودہشتگردی کی راہ پر گامزن ہیں اوردہشتگردانہ سوچ اپنا چکے ہیں تاہم ابھی تک دہشتگردانہ حملوں میں ملوث نہیں ہوئے ہیں۔سعودی عرب نے ان دونوں کے حوالے سے الگ الگ حکمت عملی ترتیب دی۔زیادہ تر افراد وہ تھے جو دہشتگردانہ افکار سے متاثر تھے۔ ان کیلئے سہ نکاتی حل ترتیب دیا گیا۔اسے المناصحہ،التاھیل اور الرعایہ کا عنوان دیا گیا۔المناصحہ ایسے نوجوانوں کو جو دہشتگردانہ افکار اپنا چکے ہیں ، افہام و تفہیم اور گفت و شنید کے ذریعے دہشتگردانہ افکار کے دلدل سے نکالنے کی علمی و فکری کوشش ہے۔

المناصحہ5نکاتی عمل ہے۔اس کے تحت سادہ لوح عناصر کو اسلام کی حقیقت اور اس کے عظیم پیغام کی اہمیت سے روشناس کراکے جادہ حق پر واپس لایا جاتا ہے۔ اسلام کی میانہ روی سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ دہشتگردی سے اسلامی رحمدلی کی تصویر مسخ ہورہی ہے۔انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ دہشتگردی والے افکار و نظریات ، اسلام کو صحیح تناظر میں نہ سمجھنے کا نتیجہ ہیں۔انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ جہاد کی حقیقت کیا ہے اور جہاد کے نام پر ہونیوالی خرافات کیاہے۔یہ کام معتبر علماء اور دانشوروں سے لیا جارہا ہے۔ دوسرا نکتہ تأھیل کا ہے۔اس سے مقصودملزمان اور قصور واروں کو صحیح اسلامی فکرقبول کرنے اور نفسیاتی ، دینی، سماجی ،سلامتی اور ابلاغی الجھنوں سے نجات دلانا ہے۔یہ کام 4کمیٹیوں ، دینی کمیٹی، ذہنی و سماجی کمیٹی، سلامتی کمیٹی اور ابلاغی کمیٹی کے ذریعہ لیا جارہا ہے۔ تیسرا نکتہ الرعایہ کا ہے۔ اس کے تحت دہشتگردوں اور ان کے اہل خانہ کی نگہداشت کی جاتی ہے۔ سوچ یہ ہے کہ اگر غلط افکارکی وجہ سے کوئی انسان غلط راستے پر چل کھڑا ہوا ہے تو ایسی صورت میں اس کے گھر والوں ،بیوی ،بچوں اور زیر کفالت افراد کا کیا قصور ہے؟ ۔

سعودی حکومت دہشتگردانہ افکار سے متاثر افراد کے اہل خانہ کی کفالت کا اہتمام کررہی ہے تاکہ سماج میں انتشار نہ پھیلے اور دوسری جانب خود زیر حراست افراد اپنے طور پر محسوس کریں کہ حکومت ان کی دشمن نہیں بلکہ خیر خواہ ہے ۔ اگر دشمنی کا رشتہ ہوتا تو ان کی سماجی ذمہ داریوں کو نظر انداز کردیا گیا ہوتا۔سعودی حکومت اس عنوان کے تحت دہشتگردانہ سوچ کے دلدل میں پھنس جانیوالوں کو سماج میں رہنے کے قابل بنانے کی اسکیمیں بھی نافذ کررہی ہے۔ سعودی عرب کے سامنے ایک سوال ان لوگوں کا تھا جو کسی وجہ سے دہشتگردی کے افکار رائج کرنیوالوں کے جال میں پھنس سکتے ہیں ۔ لہذا پیشگی بچاؤ کیلئے حکومت نے 2نکاتی حل نافذ کیا ہے: 1۔وزارت داخلہ میں رہنمائی کا ادارہ قائم کیا گیا ہے یہ عوام الناس کو دہشتگردی کے خطرات سے آگاہ کرتا ہے ۔ 2۔ نوجوانوں کے خالی اوقات پر نظر رکھتا ہے اور انہیں انتہا پسندوں کے چنگل میںپھنسنے سے روکتا ہے۔ سعودی عرب نے دہشتگردی کرنیوالوں سے نمٹنے کیلئے اندرون مملکت مندرجہ ذیل اقدامات کئے:

1۔ انسداد دہشتگردی کے نئے قاعدے ضابطے ترتیب دیئے۔انسداددہشتگردی کے ادارے جدید خطوط پر استوار کئے ۔ سیکیورٹی فورس کے اداروں کے سربراہوں میں یگانگت پیدا کی۔

2۔2005ء کے دوران اسلحہ اور گولہ بارود کا نیا قانون جاری کیا۔

3۔سرحدوں کی نگرانی کا موثر نظام بنایا۔

4 ۔حساس اور اہم مقامات کے اطراف سخت حفاظتی انتظامات کئے۔

5۔دہشتگردوں کی مالی اعانت کے راستے بند کرائے ۔

6۔فلاحی اداروں میں دہشتگردوں کی دراندازی پر روک لگائی۔ سعودی عرب نے اندرون ملک فرقہ وارانہ اور مسلکی عناصر کو دہشتگردی کی اساس بننے سے روکنے کیلئے ملک میں موجودشیعہ سنی فرقوں کے درمیان یگانگت اور قومی اتحاد کے جذبات راسخ کرنے کی مہم چلائی،اس حوالے سے مکالمے کرائے گئے۔مکالموں کے نتیجے میں سامنے آنے والے منفی امور ٹھوس بنیادوں پر حل کئے گئے۔

علاوہ ازیں خارجی قوتوں کی تحریک پر فرقہ وارانہ تنازعات کو ابھارنے، اچھالنے اور گہرا کرنے کی کوششوں کا سدباب موثر شکل میں کیا گیا اس میں عوامی اور سرکاری دونوں قوتوں کو شریک کیا گیا۔

* * * سعودی عرب اور مسلم دنیا* * *

 سعودی عرب نے گہرے تفکر و تدبر کے بعد اس حقیقت کاادراک کیا کہ دہشتگردی کا دائرہ مملکت کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی آگ میں مسلم و عرب ممالک بھی جل رہے ہیں۔ سعودی عرب نے اس سچائی کو مدنظر رکھ کرعلاقائی، عرب اور اسلامی دنیا کی سطحوں پر دہشتگردی کے انسداد کیلئے مختلف اقدامات کئے۔ جی سی سی ،علاقائی تنظیم ہے ،اس کے رکن سعودی عرب،متحدہ عرب امارات ،کویت،بحرین، سلطنت عمان، اور قطر ہیں۔ سعودی عرب نے اس تنظیم کے قافلہ سالار کی حیثیت سے جی سی سی ممالک کو دہشتگردی کے انسداد کے علاقائی نظام سے مربوط کیا۔ انسداد دہشتگردی کا معاہدہ کرکے ہر طرح کی انتہا پسندی، ہرشکل و صورت کے تشدد و دہشتگردی سے بچاؤ اور سدباب کا اہتمام کیا۔

عرب لیگ تمام عرب ممالک کی مشترکہ تنظیم ہے۔سعودی عرب نے تمام عرب ممالک کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں موثر اور مشترکہ جدوجہد پر آمادہ کیا۔اس کیلئے انسداددہشتگردی کا عرب معاہدہ طے کرایا اور اس پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم تمام مسلم ممالک کی سرکاری تنظیم ہے ،اس سے تمام مسلم ممالک وابستہ ہیں ، سعودی عرب نے مسلم ممالک کو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں موثر کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔ اس حوالے سے انسداد دہشتگردی معاہدہ بھی کیا گیا اور دنیا میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی عنوان سے ہونیوالی دہشتگردی کی مذمت، مخالفت اور سدباب میں تعاون کا بندوبست کیا گیا۔

شیئر: