Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپ کا لیڈر! میرا ہسبینڈ‘‘، ’’میرا ہسبینڈ‘‘ ‘‘

جب چلتے چلتے گاڑی کا ٹائر دھماکے سے پھٹ جاتا ہے۔ ایسے میں جان بچ جائے تو شکرانہ ادا کیا جاتا ہے اور نہ بچ سکے تو اسے مقدر کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیا جاتا ہے

ابو غانیہ ۔ جدہ

کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی ایک ہی گاڑی کے دو پہئے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں صحیح سلامت ہوں تو ازدواجی زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔ اس کے بر خلاف اگر ان پہیوں میں برابری نہ ہو یعنی ایک پہیا چھوٹا ہو اور دوسرا ذرا بڑا تو ’’دوچرخۂ ازدواجی حیات‘‘ ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے۔

ایسی گاڑی چلتے چلتے کب رک جائے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ازدواجی حیات کی گاڑی کا کوئی ایک پہیا اگر پنکچر ہوجائے تو زندگی ڈگمگانے لگتی ہے ۔ اگر فوری قابو نہ پایا جائے تو صورتحال کسی حادثے پر منتج ہو تی ہے۔پنکچر بھی مختلف انداز کے ہوتے ہیں مثلاً باریک سی پِن وغیرہ ٹائر میں گھس جائے تو پہئے کی ہوا آہستہ آہستہ نکلتی ہے۔ ابتداء میں گاڑی کے ڈگمگانے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ جب پہئے کی ہوا نکلتے نکلتے ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ ’’ایہہ تے پینچر ہو گیا اے۔‘‘ بعض اوقات چلتے چلتے اچانک ہی کوئی کیل وغیرہ ٹائر میں گھستی ہے اور ہوا ایک دم نکل جاتی ہے جس کے باعث گاڑی کو فوری روکنا پڑتا ہے ورنہ جان بھی جا سکتی ہے۔

تیسری قسم وہ ہے جب چلتے چلتے گاڑی کا ٹائر دھماکے سے پھٹ جاتا ہے۔ ایسے میں جان بچ جائے تو شکرانہ ادا کیا جاتا ہے اور نہ بچ سکے تو اسے مقدر کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیا جاتا ہے۔ ازدواجی چرخۂ حیات کے ایک ٹائر میں کوئی باریک سی کیل یا پن وغیرہ چبھنے جیسی صورتحال اس کو کہتے ہیں جب میاں صاحب اپنی ازواج کی تعداد اضافے کے لئے کوشاں ہوں اور انہوں نے ’’اسٹپنی‘‘ کے طور پر کسی کو اپنا بنانے کا وعدہ کر لیا ہو۔ ایسے میں ان کی بیوی کو بھی شک ہو جائے اور وہ اپنے طور پرمیاں کے بارے میں تحقیقات و تفتیش کا سلسلہ شروع کر دے۔

یہ صورتحال گاہے کئی ماہ اور گاہے کئی برس تک جاری رہ سکتی ہے۔ یوں گاڑی ڈانواں ڈول تو ہوتی ہے مگر یہ عمل اتنا سست رو ہوتا ہے کہ زن و شو کواس کا احساس نہیں ہوپاتا۔ پتہ اس وقت چلتا ہے جب یہ اطلاع پہلی بیوی کو پہنچ جائے یا پہنچا دی جائے پھرسمجھ لیجئے کہ پنکچر ہوگیا، ٹائر کی ہوا بالکل نکل گئی اور اب سفر جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔ ایسے میں دو ہی صورتیں ہوتی ہیں کہ یا تو پہلی بیوی کو طلاق دے کر تمام ذمہ داریوں سے آزاد کر دیاجائے اور اُس اسٹپنی کو حقیقی پہئے کی جگہ دے دی جائے اور یا پھر پنکچر لگوا کر دوبارہ ٹائر میں ہوا بھروانے کے مصداق پہلی بیوی کو منا کر اس سے معافی مانگ کر واپس لے آیا جائے۔ دوسری قسم کا پنکچر اس وقت ہوتا ہے جب بیوی شوہر پر کو ئی شک نہ کرتی ہو اور شوہر نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے تعدد ازواج کے لئے کوشاں ہوں۔بیوی یہ سمجھتی رہے کہ شوہر صرف میرا ہے اور کسی روز اسے اس کی سہیلی آکر کہہ دے کہ آپ کے شوہر کہیں اور بھی مراسم بڑھا رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اسے عینی شہادت بھی مل جائے تو اس قسم کا پنکچر واقع ہوتا ہے جیسے چلتے چلتے گاڑی کے ٹائر میں اچانک کوئی کیل چبھ جائے اور ساری ہوا نکل جائے۔ایسے میں بیوی فوراً ہی میکے چلی جاتی ہے اور کئی سال جدائی کے گزارنے کے بعد جب وہ دیکھ لیتی ہے کہ میکے میں اس کی کوئی قدر نہیں تو وہ واپس میاں کے گھر آنے پر راضی ہوجاتی ہے اور سوکن کو گلے لگا لیتی ہے۔ تیسری قسم ہے ٹائر برٹ ہونے سے ہونے والا حادثہ۔ ایسی کیفیات اس وقت سامنے آتی ہیں جب بیوی کو شوہر پر اندھا اعتماد ہو اور وہ دل و جان سے یقین رکھتی ہو کہ وہ صرف میرے ہیں، کسی اور کے ہیں نہ ہو سکتے ہیں۔ اس ایقان کی حالت میں جب بیوی پر انکشاف ہو کہ ان کے شوہر تو کسی اور سے شادی کر چکے ہیں تو زبردست بجلی گرتی ہے اور ازدواجی چرخۂ حیات حادثے کاشکار ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک مثال آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ ہوا یوں کہ ہمارے بچپن کے دوست ’’حبیب صاحب‘‘ شادیوں کے نہایت شوقین تھے۔ پہلی کے بعد ددوسری اور دوسری کے بعد تیسری شادی کی مگر اُن کی خوش قسمتی یہ رہی کہ ہر بیوی خود کوحبیب صاحب کی پہلی اور آخری بیوی سمجھتی تھی۔ یہ سلسلہ کافی عرصے چلتا رہا ۔پھر ایسا ہوا کہ حبیب صاحب کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوگئی اور وہ اتنے چاہے جانے لگے کہ ان کے لئے انتخاب لڑنا لازمی قرار پا گیا۔ انتخاب میں وہ جیت گئے۔ تمام ووٹروں نے فتح کی خوشی میں حبیب صاحب کو زبردست پارٹی دی۔ وہاں ان کی پہلی بیوی موجود تھی۔ اس نے میاں کی مقبولیت سے متاثر ہو کر فرطِ جذبات میںسب ووٹروںکے سامنے کہہ دیا کہ’’ آپ کا لیڈر! میرا ہسبینڈ‘‘ اس پر ایک اور خاتون سامنے آوی اور اس نے کہا کہ ’’میرا ہسبینڈ‘‘ ، یہ سن کر تیسری خاتون بھی منظر عام پر آئی اور چلا کر بولی’’میرا بھی تو ہے۔‘‘ یہ سن کر حبیب صاحب کی ازدواجی حیات کی گاڑی کا وہی حشر ہوا جو کسی چلتی گاڑی کا ٹائر اچانک برسٹ ہونے سے ہوتا ہے۔ ان کی تینوں بیویوں نے تمام ووٹروں سے کہا کہ یہ شخص ہم سے جھوٹ بولتا رہا، تین تین بیویاں رکھ کر معصوم بنا رہا۔

یہ آپ کو بھی دھوکا دے گا۔ہم تینوں اس سے طلاق لے رہی ہیں۔ یہ سن کر حاضرین نے ’’جاوے ای جاوے‘‘کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ ہمارے دوست کی گاڑی تین طلاقوں کے معاملات نمٹنے تک کچھ دنوں کے لئے تو کھڑی رہی پھر انہوں نے چوتھی شادی کر لی۔ اب وہ ہر ہر قدم پر اسے یقین دلاتے رہتے ہیں کہ میں صرف آپ کا ہوں، کسی اور کا نہیں۔ ویسے بھی ان بے چاروں کو اب صنف نازک کی جانب سے گھاس ڈالنا بند کر دی گئی ہے۔

شیئر: