Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈونلڈ ٹرمپ کے نام کھلا خط

 
 گزشتہ 45 برس سے جہاں گردی کررہا ہوں اور خوش نصیبی یا بدقسمتی سے کرہ ارض کے ایسے حصوں میں رہا ہوں جہاں حکومتیں بنانے بگاڑنے میں آپ کا ملک مرکزی کردار ادا کرتا رہا ہے
 
جاوید اقبال
 
منکہ ایک پاکستانی صحافی ہوں بقائمی ہوش و حواس خمسہ بلاجبر و اکراہ غیرے صدر ریاستہائے متحدہ امریکہ مسمی ڈونالڈ ٹرمپ کیلئے یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ امید ہے کہ کبھی نہ کبھی کسی بھی وسیلے سے میرے یہ الفاظ ان تک رسائی حاصل کرلیں گے۔ 
عزت مآب صدر ریاستہائے متحدہ امریکہ! جیسا کہ دستور دیناہے کہ ترقی پذیر دنیا کے ایک رکن ملک کا شہری ہوں آپ کو کرہ ارض کی اکلوتی سپرپاور کا صدر منتخب ہونے پرمبارکباد پیش کرتا ہوں اور مندرجہ ذیل الفاظ آپ کیلئے تحریر کرتا ہوں۔ میں یہ اقدام ہرگز نہ اٹھاتا اگر آج کے اردو نیوز کے سرورق پر یہ خبر شائع نہ ہوتی کہ آپ نے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی سے اظہار الفت کے طور پر انہیں دورہ امریکہ کی دعوت دی ہے۔ آپ پر واضح رہے کہ آپ کی اس دعوت پر سارے خطے میں اندیشہ نقص امن پیدا ہوگیا ہے۔ یوں تو کرہ ارض پر ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا امریکہ ا پنا فرض سمجھتا ہے اور ہر براعظم میں جو انسانی خون بہہ رہا ہے اس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ آپ کے ملک کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن آپ کی ہند سے روزافزوں چاہت کے جو نتائج پیدا ہوں گے اور بحر ہند میں جو تباہی سر اٹھائے گی آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے لیکن اس موضوع پر مزید کچھ تحریر کرنے سے پہلے چند ایک دیگر گزارشات کرلوں۔ 
جناب صدر! میں گزشتہ 45 برس سے جہاں گردی کررہا ہوں اور خوش نصیبی یا بدقسمتی سے کرہ ارض کے ایسے حصوں میں رہا ہوں جہاں حکومتیں بنانے بگاڑنے میں آپ کا ملک مرکزی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ 1973 ءمیں ، میں مشرقی افریقی ملک کینیا میں تھا جہاں مغرب نواز صدر جوموکینیا ٹا سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ اقرباءپروری اور کرپشن زوروں پر تھیں۔ ایسے ہی حالات میں ایک نوجوان ہردلعزیز رہنما جوسیا موانگی کاریوگی نے جو جدوجہد آزادی میں کینیاٹا کا ساتھی رہا تھا حکومت کے خلاف آواز اٹھا دی۔ اس نے بے نوا نادار اپنے ہموطنوں کے حقوق کی بات کی۔ اس کے جلسوں میں لاکھوں اکٹھے ہوگئے تب دارالحکومت نیرو بی کے نواح میں جھونپڑوں میں مقیم خانہ بدوشوں نے ایک رات دور جنگل سے اٹھنے والی انسانی چیخوں کی آواز یں سنیں۔ وہ سمجھے جنگلی درندوں نے کسی راہ گم کردہ مسافر پر حملہ کیا ہوگا۔ تاریکی میں کون مدد کو جاتا۔ صبح وہاں ان کے ہر دلعزیز جوسیا موانگی کاریو کی لاش پڑی تھی۔ اس پر موت سے پہلے بے پناہ تشدد کیاگیا تھا۔ دارالحکومت اور دوسرے شہروں میں اٹھی بے چینی کو صدر جوموکینیا ٹا نے انتہائی سختی اور بے دردی سے کچل دیا تھا۔ اس بہیمانہ واردات پر امریکہ اور مغرب خاموش رہے تھے۔ صرف 5 برس قبل اسی صدر نے اپنے ہر لعزیز وزیر خارجہ ٹام مبویا کو بھی دارالحکومت میں سرعام گولی مروا دی تھی۔ مقتول انسانی حقوق اور عام آدمی کی بات کرتا تھا۔ قوم شدت گریہ سے نڈھال ہوتی رہی لیکن امریکہ پر سکوت طاری رہا۔ 
ایک اور مثال جناب صدر، 1960 ءمیں کانگو کے نوجوان رہنما پیٹرس لوممبا نے اپنے وطن کو بیلجیئم سے آزادی دلائی۔ اس کے صوبے کاٹانگا میں ہیروں اور دیگر معدنیات کی کانیں تھیں۔ جہاں سے بیلجیئم بلاشرکت غیرے برسوں قیمتی پتھر نکالتا رہا تھا۔ انتقال اقتدار کی تقریب میں اپنے عوام کی آنکھوں کے تارے لوممبا نے بیلجیئم کے بادشاہ لیوپولڈ کو کہا کہ اس کے سیاہ فام ہم وطن اب سفید فام آقاوں کے بندر نہیں رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ہیرے جواہرات کی کانوں کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کردیا۔ انٹورپ میں جوہری صف ماتم بچھا بیٹھے۔ تب بیلجیئم نے کانگو پر چڑھائی کی اور ان کانوں پر سے قبضہ ختم کرنے سے انکار کردیا۔ مدد کو امریکہ بھی پہنچ گیا۔ کانگو میں نئی فوجی حکومت قائم کی گئی جس کا سربراہ کرنل موبوٹو کو بنایا گیا۔ لوممبا گرفتار ہوا اور امریکی حمایت سے موبوٹو نے عظیم افریقی رہنما کو رات کی تاریکی میں جنگل میں قتل کرا دیا۔ 
جناب ٹرمپ! امریکہ نے اس حیوانی حرکت پر اپنی آنکھیں بند رکھی تھیں۔ ہم زیادہ دور نہیں جاتے، آپ کا وطن مبینہ طور پر انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ 80 ءکی دہائی کے وسط میں 2 مشرقی افریقی ملکوں صومالیہ اور ایتھوپیا میں طویل اور تباہ کن قحط پڑا تھا۔ انسانی لاشوں کو جنگلی جانور اور گدھ کھا کھا کر تھک گئے ۔ عجیب منظر تھا۔ کاسہ ہائے سر میں پتھرائی انسانی آنکھیں اپنی روشنی اور چمک گنوانے تک، موت کی سفید کہر کا پردہ کرنے تک کسی لقمہ بردار دست کرم وجود کی منتظر رہیں لیکن چونکہ دونوں ممالک سوویت اتحاد کے زیر سایہ تھے اسلئے امریکہ نے ان کی مدد کرنے کے بجائے اپنی فاضل گندم سمندر کی نذر کردی۔ مرگ انبوہ مغربی ذرائع ابلاغ کیلئے تماشا فراہم کرتی رہی۔ جناب ٹرمپ! میرے علم میں نہیں کہ آپ نے گزشتہ چند برسوں کے دوران عالم عرب میں وقوع پذیر ہونے والے سانحات سے واقفیت حاص کی ہے یا نہیں۔ صبر ہ اور شتیلا کی گلیوں میں لاوارث پڑی بوڑھوں، بچوں اور خواتین کی لاشیں ہر آنکھ کو اشک آلود کرتی رہیں لیکن امریکہ خاموش رہا۔ ترکی کے ساحل پر 3 سالہ معصوم شامی بچے کے اوندھے پڑے بے جان ننھے بدن پر اس ظلم و ستم کی ساری داستانیں مرقوم تھیں جو بشار الاسد برسوں سے اپنے ہموطنوں پر ڈھا رہا ہے لیکن امریکہ کو شامیوں کے حقوق کا کبھی خیال نہیں آیا حالانکہ آپ کے ایک اشارہ ابرو پر لاکھوں کا قاتل چشم زدن میں ایک بے وقعت تنکے کی طرح اٹھایا جاسکتا ہے۔ فلسطین گزشتہ 7 عشروں سے انصاف کی طلب میں ہے۔ کشمیر، ہاں کشمیر۔ تو میں واپس وہیں پہنچتا ہوں جہاں سے آغاز کیا تھا۔ 
آپ نے نریندر مودی کو امریکہ کے دورے کی دعوت دے دی ہے۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو صحیح مشورے نہیں دیئے جارہے ۔ آپ ہندوستان کو اس لئے سینے سے لگا رہے ہیں کہ وہ چین کے خلاف آپ کے منصوبوں میں شامل ہوجائے۔ آپ چین کو نئی سپرپاور بننے سے روکنے کیلئے اس کی اقتصادی اور بحری ناکہ بندی کرنا چاہتے ہیں لیکن میری بات غور سے سنیں۔ ایں خیال است و محال است و جنوں! گزشتہ دسمبر میں چینی صدر زی جن پنگ نے جنوبی افریقہ میں اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک 50 افریقی ممالک میں انفرااسٹرکچر، زراعت، صنعت اور صحت کے منصوبوں پر 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس وقت 70 فیصد افریقیوں کے نزدیک چین ان کا مخلص ترین دوست ہے۔ 1998 ءسے اب تک تقریباً 2000 چینی کمپنیاں 49 افریقی ممالک میں سرمایہ لگا چکی ہیں۔ جناب صدر! تاریخ تو اپنا فیصلہ دے چکی۔ عوامی جمہوریہ چین اگلی ایک دہائی میں سپرپاور بنے گا۔ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ یہ نئی صورتحال کتنی خندہ پیشانی اور حوصلے سے قبول کرتا ہے۔ آپ نریندر مودی کو ایک بار نہیں سو بار مدعو کریں لیکن خدارا وقت کا دھارا تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ خطے میں اندیشہ نقص امن پیدا ہوگا۔ ہندوستانی وزیراعظم کو خوش آمدید کہیں، انہیں پروٹوکول دیں۔ انہیں گھمائیں پھرائیں، ان کے ہاتھ کی بنی چائے پئیں اور پھر اس چائے کی تعریف کرکے انہیں سمجھا بجھا کر واپس بھیجیں۔ کشمیر میں رائے شماری کروا دیں۔ اور ہاں! میرے اس تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔ 
******

شیئر: