Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عین العزیزیہ ، شاہ عبد العزیزؒ کا وقف

عین العزیزیہ کی انتظامیہ تینوں حاجی کیمپوں کی ضروریات کے علاوہ اصلاح و مرمت اورصفائی کے اخراجات برداشت کرتی ہے
 
 
ضیوف الرحمن کیلئے جدہ انتہائی اہم شہر ہے ۔یہاں سے حج و عمرہ وزیارت کرنیوالوں کے قافلے گزرتے ہیں اس حوالے سے بجا طور پر اسے باب الحرمین بھی کہا جاتاہے۔ بانی¿ مملکت شاہ عبدالعزیز ؒ نے ضیوف الرحمن کیلئے عین العزیزیہ تیار کرایا تھا۔ اس کا بڑاہدف حجاج و معتمرین کیلئے پانی کی فراہمی تھا۔ جدہ50برس سے عین العزیزیہ سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کا ایک اہم ہدف علامتی کرایوں پر حاجیوں کی رہائش کا بندوبست بھی تھا۔ 
 
شاہ عبدالعزیز نے یہ دیکھ کر کہ ہزاروں عازمین ارض مقدس آتے ہیں ان میںسے کچھ لوگ باقاعدہ گھروں میں قیام کرتے ہیں اور کچھ پبلک مقامات پر ڈیرے ڈال لیتے ہیں اور کئی جدہ کے مضافات میں پڑاؤ ڈال لیتے ہیں، اس سے مقامی باشندے الجھتے اور مختلف پریشانیوں میں مبتلا ہوتے تھے۔ حاجی کھلی جگہوں، فٹپاتھوں اور پبلک مقامات پر قیام کرتے تو کوڑا کباڑ بھی آس پاس اکٹھا ہوجاتا تھا۔کھلی جگہوں پر قضائے حاجت کی وجہ سے گندگی پھیلتی تھی،ماحول خراب ہوتا تھا ، امراض بھی پھیلنے لگتے تھے۔بانی مملکت نے یہ صورتحال دیکھ کر عین العزیزیہ کی انتظامیہ کو دوسرا ہد ف یہ دیا کہ وہ بری ، بحری اور فضائی راستوں سے آنیوالے عازمین حج و عمرہ کو یکجا کرے ،ان کیلئے حاجی کیمپ قائم کرے،ان سے علامتی کرایہ وصول کرے۔ عین العزیزیہ نے 3حج کیمپ قائم کئے۔ پہلا بحری راستے سے آنیوالے حاجیوں کے قیام کیلئے قائم کیا، اُسے ”مدینة حجاج البحر“ کا نام دیا گیا۔1370ھ میں بحری حاجی کیمپ کی عمارتیں تیار کرائی گئیں۔ ان میں 5ہزار حاجی ٹھہرانے کی گنجائش تھی۔ یہ ایک منزلہ عمارتیں تھیں، ایک مسجد بھی وضوخانہ سمیت تعمیر کرائی گئی تھی۔
 
سن1381-82ھ میں زیادہ بہتر 2منزلہ عمارتوں کا اہتمام کیا گیا۔ ان میں حج امور سے تعلق رکھنے والے سرکاری اداروں ،وزارت حج ،وزارت صحت،محکمہ ڈاک و تار و ٹیلیفون(یہ محکمہ اب ختم ہوگیا ہے)مطوفین ،مالیافی فنڈ،نیشنل کمرشیل بینک اور ریاض بینک کی شاخیں ،نیشنل مشن وغیرہ کو اپنے دفاتر کھولنے کا موقع دیا۔ بازار ،منی ایکسچینجرز اور ریستوران بھی کھولے گئے۔
 
سن1389-90ھ میں مزید عمارتوں کا اضافہ کیا گیا۔ آگے چل کر 1392-93ھ میں نئی عمارتیں بنوائی گئیں۔ مسجد میں توسیع کی گئی۔ ”مدینة حجاج البحر“ مجموعی طور پر 38946مربع میٹر میں پھیل گیا۔ اس کی عمارتوں کی تعداد 27ہوگئی ان میں تقریباً 30 ہزار حاجی بیک وقت قیام کرسکتے ہیں۔ اسکی 2عمارتیں 3منزلہ ہیں۔ یہ ڈاکٹروں، اسلامی وفود اور حجاج سے تعلق رکھنے والے سرکاری اداروں کے عہدیداروں کیلئے ہیں۔معلمین کے نمائندے بھی ان میں قیام کرتے ہیں۔ ایک میڈیکل سینٹر ،ریستوران،کیفے ٹیریا،بینک اور دیگر ضروریات فراہم کرنے والے دفاتر بھی کھلے ہوئے ہیں۔
 
دوسرا مطار قدیم کا حاجی کیمپ ہے ، 1378ھ میں 5عمارتیں ایک دوسرے سے مربوط بنائی گئیں،پانچوں 3منزلہ ہیں،یہ عمارتیں 9652 مربع میٹر میں پھیلی ہوئی ہیں،ان میں پہلے بیک وقت 2ہزار سے زیادہ حاجی قیام کرسکتے تھے۔ ان عمارتوں کے صحن سرکاری اداروں کیلئے مخصوص کئے گئے پھر زیادہ تعداد میں حاجیوں کو ٹھہرانے کیلئے سائبان بنائے گئے۔آگے چل کر 1385ھ میں 2عمارتیں تعمیر کی گئیںجو سعودی عربین ایئر لائنز (السعودیہ )کیلئے مختص ہیں ۔ السعودیہ والے انہیں ترحیل کیلئے استعمال کررہے ہیں۔کارگو کا بھی کام لیا جاتا ہے۔ ترحیل کے 4ہال بنائے گئے ہیں۔ 
 
سن1393-95ھ میں 8نئی عمارتیں 65935مربع میٹر میں تعمیر کی گئیں، ہر ایک 4منزلہ ہے ،ان میں 10ہزار حاجی بیک وقت ٹھہرائے جاسکتے ہیں،ان میںدکانیں بھی کھولی گئی ہیں۔1399-1400ھ میں آٹھوں عمارتوں میں ایک ایک منزل کا اضافہ کرایا گیا، 30لفٹس لگائی گئیں اس طرح مطار قدیم کا حاجی کیمپ30ہزار حاجیوں کی گنجائش والا بن گیا۔ اس میں ایک بڑی مسجد بنائی گئی، ہیلتھ سینٹر کھولا گیا،داخلی نشر گاہ کا اہتمام کیاگیا۔ بسوں کی نگرانی کیلئے کلوز سرکٹ کیمرہ لگایا گیا ،پانی کا خصوصی بندوبست کیا گیا۔اب یہ حاجی کیمپ انڈونیشی حاجی حج موسم میں کرائے پر حاصل کرتے ہیں جبکہ عام دنوں میں اسے ترحیل( جیل) کا کام لیا جاتاہے۔
 
تیسرا افریقی حاجیوں کا کیمپ بنایا گیا۔ اس کا نام ”مدینة الحجاج الافریقین“ رکھا گیا، یہ کیمپ جنوبی جدہ میں ہے۔ پٹرومین کمپنی کے شما ل میں 8ہالوں پر مشتمل ہے، ان میں 2ہزار حاجی بیک وقت ٹھہر سکتے ہیں۔ 
 
سن1390ھ میں اس کیمپ کا احاطہ بنایا گیا، ایک مسجد کھولی گئی، ایک اسکول قائم کیا گیا۔ اس میں افریقی حاجیوں کے بچوں کو قرآن پاک، دین اور عربی سکھانے کا اہتمام کیا گیا۔
 
سن1394ھ میں 2نئی عمارتیں تعمیر کرائی گئیں، ان میں 5ہزار حاجی ٹھہر سکتے ہیں ۔ پولیس اور معلمین کے دفاتر بھی کھولے گئے، دکانوں کا بھی بندوبست کیا گیا۔
 
عین العزیزیہ کی انتظامیہ تینوں حاجی کیمپوں کو بستر وغیرہ بھی فراہم کرتی ہے۔ اصلاح و مرمت،صفائی کے اخراجات برداشت کرتی ہے۔ 
 
شاہ عبدالعزیز نے عین العزیزیہ کو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے جدہ مکہ روڈ کلو6سے وادی فاطمہ میں آبی چشموں تک کی اراضی وقف کردی تھی اور اُسے یہ اراضی فروخت کرکے اپنے منصوبے قائم کرنے اور ان سے آمدنی حاصل کرنے کا اختیار دیا تھا۔
 
عین العزیزیہ اہالیان جدہ سے پانی کی علامتی قیمت وصول کرتاہے ۔ شروع میں فی مکعب میٹر پرسوا 2ریال پھر ایک مکعب میٹر پر ڈیڑھ ریال مقررکیا گیا اور یکم محرم 1383ھ کو شاہ فیصلؒ نے ایک مکعب میٹر پانی پر نصف ریال مقررکردیا۔1415ھ میں 50مکعب میٹر تک پانی استعمال کرنیوالوں سے فی مکعب میٹر 2قرش ،51سے 100مکعب تک2ریال 301سے زیادہ استعمال کرنیوالوں سے فی مکعب میٹر 6ریال وصولی کا فیصلہ کیا گیا۔
 

شیئر: