Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آہ بیٹا کیا بتاؤں!ساری زندگی کی محنت وایثار کا پھل ایک دم سڑگیا

میرے کفیل کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی اور 2014ء میں اس نے کمپنی کی باگ ڈور اپنے 2 بیٹوں کے سپر د کردی

 

مصطفیٰ حبیب صدیقی ۔ جدہ

(جب سے اردونیوز نے پردیس کہانیوں کو سلسلہ شروع کیا ہے اسے زبردست پزیرائی مل رہی ہے جس کیلئے یقینا ہم قارئین اور لکھاریوں کے شکرگزار ہیں۔مجھ سے گزشتہ دنوں چند لوگوں نے ملاقات کی اور اپنی دردبھری کہانی سنائی بس اصرار تھا کہ نام اور جگہ تبدیل کردیں،ان کے اصرار کا احترام یقینا لازم ہے۔اسی طرح جدہ میں ایک صاحب نے رابطہ کرکے کہا کہ آپ سے IMOپر پاکستان سے نعیم صاحب(نام تبدیل) بات کرنا چاہتے ہیں۔میں نے رابطہ کیا اور پھر انہوںنے اپنی کہانی سنائی ان کی اجازت سے شہر کا نا م صحیح لکھ رہا ہوں باقی نام تبدیل ہونگے۔نعیم صاحب سے بات کرنے میں3گھنٹے گزرگئے مگر وہ شائد ابھی اور بھی بہت کچھ بولنا چاہتے تھے مگر ہائے رے وقت ظالم۔۔۔۔۔۔۔بہرحال آپ ایک اور سچی کہانی سنیں )

’’آہ بیٹا بس کیا بتائوں کیا ہوگیا ساری زندگی کی محنت ،ایثار اور قربانی کا پھل ایک دم ہی سڑ گیا‘‘۔سعید صاحب نے گفتگو کا آغاز ہی درد بھری آواز اور لہجے سے کیا تھا میں خاموشی سے سنتا رہا۔ ’’1972ء میں سعودی عرب آیا اس زمانے میں کام ملنا کوئی خاص مشکل نہیں تھا کچھ نا کچھ کام مل ہی جایا کرتاتھا یا شائد میں خوش نصیب تھا ،خیر چھوٹا موٹا کام کرتے کرتے ایک دن ایک چھوٹی سی دکان نما کمپنی میں ٹائپسٹ کی ملازمت مل گئی۔صبح سویرے کیک کھاکر اور جوس پی کر دکان پہنچ جاتے اور رات تک کا م کرتے۔دکان کا مالک بہت اچھا آدمی تھا جو بعد میں میرا کفیل بھی ہوگیا۔بڑا ہی رحم دل اور مہربان ۔ہماری عمریں بھی تقریباً ایک ہی جیسی تھیں۔کام کرتے ہوئے 3سال بیت چکے تھے کہ ایک دن اچانک کہنے لگا ۔۔ ’’سعید ۔۔۔اس کام کو آگے بڑھانا ہے مگر سمجھ نہیں آتا کیا کروں میں چاہتا ہوں تم کچھ کرو‘‘ میں نے اپنے لئے اعزاز سمجھا اور پھر ہم دنوں نے مل کر ایک بزنس شروع کیا۔سرمایہ اس کا محنت اور ذہانت میری۔زمین پر بیٹھ کر کام کرتے اور پھر خود ہی اپنا مال سپلائی بھی کرتے۔کام نے ترقی پانی شروع کی اور پھر ہم ایک بڑی کمپنی بن گئے۔

کفیل نے مجھے کمپنی کا منیجر بنادیااور خود تو تھا ہی یقینا مالک۔ بس بیٹا زندگی کے دن ایسے ہی گزرتے گئے۔میں نے اس دوران اپنے بیوی بچوں کو یہاں بلالیا ،جدہ میں ہی ایک چھوٹا سا مکان لیا اور جب کمپنی نے ترقی کی تو میری تنخواہ بھی بڑھی اور بڑا گھر بھی لے لیا۔پاکستان سے جب آیا تھا تو میرا ایک بیٹا تھا جو اس وقت2سال کا تھا۔شاہنواز نام ہے اس کا ۔باقی 2بیٹے اور 2بیٹیاں یہاں جدہ میں پیدا ہوئیں۔ رات دن ایک کرکے بچوں کو پالا۔شروع دن سے ایک ہی فیصلہ تھا کہ کچھ بھی ہوجائے پیسے نا جمع ہوں بچوں کو ساتھ رکھنا ہے۔بس بیٹا یہی سوچ کر دن میں نوکری کرتا اور پھر اوورٹائم بھی کرتا۔بیگم کپڑے سیتی کہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانی ہے۔۔

سعید صاحب :کچھ دیر کیلئے خاموش ہوگئے ،پانی کا گلاس اٹھایا اور گھونٹ لیا تو مجھے سوال کا موقع مل گیا۔ ’’تو بچے کس اسکول میں اور کیا پڑھے اور پھر کیا ہو ا او رآپ پاکستان کب گئے؟‘‘ ’’بتاتا ہوں بتاتا ہوں سب تفصیل سے بتاتا ہوں ،کیا جلدی ہے تمہیں ،اگر وقت نہیں تو چھوڑو پھر کبھی بات کرلینگے‘‘ سعید صاحب کے چہرے پر ناگواری نمایاں تھی ،میں نے فوراً معذرت کی کہ نہیں نہیں آپ بولیں بہت وقت ہے ،میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا۔اچھا تو آپ کی اہلیہ کپڑے سیتی تھیں۔(میں نے الفاظ کا ربط قائم کرنے کی کوشش کی جس میں کامیاب رہا) ہاں پھر وقت گزرتا گیا،پاکستا ن میں کچھ بھی نہیں بنایا بس سب کچھ بچوںپر لگایا،یہی خیال تھا کہ بچے پڑھ لکھ لیں گے اپنے قدموں پر کھڑے ہوجائیں گے تو پھر خود ہی ہمارا خیال رکھیں گے مگر بس۔۔۔۔۔ بچے بڑے ہوئے ،ایک نے سی اے کیا،دوسرے نے اے سی سی اے کیا جبکہ ایک ایم بی اے کرکے فارغ ہوا،بیٹیاں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوگئیں۔بچے اب ملازمت کی تلاش میں تھے۔جبکہ میں جس کمپنی میں تھا وہ اب بہت بڑا ادارہ بن چکا تھا اس کی سسٹر زکمپنیاں بھی قائم ہوچکی تھیں۔میں نے کمپنی کے مالک سے بات کی جو بہت ہی اچھا انسان تھا اور ہمارا ساتھ بھی برسوں کا ہوچکا تھااس نے کبھی مجھے ملازم نہیں سمجھا ۔میرے کہنے پر فوری طور پر میرے تینوں بیٹوں کو اپنی کمپنی کی مختلف برانچوں میں ملازمت دیدی۔حد تو یہ ہے کہ میرے دامادوں کو بھی رکھ لیا۔بڑا احسان ہے مجھ پر اس کالیکن بس پھر ۔۔۔۔۔۔(اب سعید صاحب کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں ) پھر میرے کفیل کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی اور 2014ء میں اس نے کمپنی کی باگ ڈور اپنے 2 بیٹوں کے سپر د کردی۔بیٹوں کو میری ضرورت محسوس نہیں ہوئی ان کا خیال تھا کہ یہ بڈھا کھوسٹ کمپنی پر اب بوجھ ہے ،ویسے بھی میری عمر 72سال ہورہی تھی ۔انہوںنے مجھے عزت کے ساتھ ریٹائر کیا اور تمام واجبات دیئے اور رخصت کردیا۔

 بیٹا :بس پھر مجھے پتہ لگا کہ میرا کون ہے دنیا میں۔۔میں اور میری بوڑھی بیگم جو 65سا ل کی ہوچکی تھی ہم دونوں مطمئن تھے کہ ہمارے 3بیٹے ہیں ہمیںکیا مسئلہ ہے مگر پھر۔۔۔۔۔۔۔ ( اب سعید صاحب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ،میں بھی خاموشی سے انہیں تکتا رہا،کچھ کہنا چاہتا تھا مگر نہیںکہہ پارہا تھا،سمجھ چکا تھا مگر سننا چاہتا تھا) ’’میرے بیٹوں میں جھگڑا شروع ہوگیا ،ان بڈھا بڈھی کو کون رکھے گا۔جن کیلئے میں نے تمام عمر لگادی،رات دن کام کیا وہ ہم دونوں بڈھا بڈھی کو دو وقت کی روٹی دینے کے روادار نہیں تھے۔مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں تھی کمپنی سے اتناملا تھا کہ ہم بیٹھ کر باقی عمر گزار سکتے تھے مگر اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں میں رہنا چاہتے تھے۔مگر ایک ماہ میں ہی اندازہ ہوگیا کہ اب یہ لوگ ہمیں بوجھ سمجھتے ہیں ،وہ داماد جنہیں میں نے ملازمت دلائی تھی جن کی ہر ضرورت کاخیال رکھا وہ بھی پوچھنے کو تیار نہیں تھے،بیٹیاں تک بدل گئیں بس یہ سوچ کر تو دل ہی ڈوب جاتا ہے کیا بیٹیاں ایسی ہوسکتی ہے۔بیٹیوں کو بھی اپنے بچوں کا مستقبل بہت عزیز ہے،وہ سمجھتی تھیں کہ ہماری وجہ سے ان کے بچوں کی تربیت میں خلل ڈل رہا ہے ۔وقت ایسے ہی گزرتاگیا اور6ماہ بیت گئے۔بس بیٹا پھر میں نے خاموشی سے کراچی میں ایک جاننے والے کے ذریعے چھوٹا سا گھر لیا اور ہم دونوں بڈھا بڈھی یہاں آبسے۔ تو آپ کے بچوں نے آپ کو روکنے کی کوشش نہیں کی یا انہوں نے یہ نہیںکہا کہ وہاں اکیلے کیسے رہیں گے؟میں نے سوال کیا تو وہ بتانے لگے۔

 ’’بیٹا روکنا ،ارے وہ تو جلدی جلدی ہمارا سامان پیک کرنے لگے،بڑا بیٹا فرماتا ہے کہ اچھا ہے ابا آخری عمر ہے پاکستان میں گزرے تو اچھا ہے اپنا ملک ہے ،کم وبیش سب کا یہی خیال تھا۔کوئی نہیں سوچ رہا تھا کہ یہ بڈھا بڈھی اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کیساتھ کھیلنا چاہتے ہیں۔بس ہم کراچی آبسے۔میرے پاس اتنے پیسے تھے کہ میں نے ایک چھوٹی سے دکان کرلی۔ہم دونوں کا گزر ہوجاتا ہے۔بس ہڈیوں میں کچھ جان ہے یہی ڈر رہتا ہے کہ ہم میں سے کوئی گزرگیا تو پھر دوسرے کا کیا ہوگا،اس لئے یہی دعا ہے کہ اللہ ہمیں ایک ساتھ ہی اٹھالے۔

 سعید صاحب کی گفتگو سن کر مجھے وہ لوگ عجیب لگے جو یہ کہتے ہیں کہ بچے پاکستان میں رہے اس لئے ہمارے نہیں ہوئے،نجانے ہم کہاںجارہے ہیں،امید ہے آپ لوگ ہماری کہانیوں پر اپنے کمنٹس بھیجیں گے ۔

* * * * محترم قارئین !* * * *

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیںکہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔

ہم سے فون نمبر- 0966122836200 -ext: -3428پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔

ای میل

[email protected]

شیئر: