Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

8سالہ بنگلہ دیشی بچے کا جسم پتھر کا بننے لگا

ڈھاکا ..... بنگلہ دیش کے 8سالہ بچے مہدی حسن کا جسم اب پتھر میں تبدیل ہورہا ہے۔ جس سے دوسرے بچے اس سے خوفزدہ ہے اور اس نے خود کو اپنے گھر میں بند کرلیا ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ عجیب و غریب جلدی بیماری ہے جس کی وجہ سے اسکا پورا جسم پتھر بن رہا ہے۔ اگرچہ اسکا چہرہ ابھی متاثر نہیں ہوا ہے لیکن پورے جسم پر اسکی جلد موٹی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اسے چلنے پھرنے میں بھی مشکلات ہیں۔ وہ کسی چیز کو چھو بھی نہیں سکتا۔ مہدی کی والدہ کا کہنا ہے کہ خاندان والے حتی کہ اسکی دادی بھی اسے پسند نہیںکرتی۔ مقامی لوگ بھی اسکے قریب نہیں آتے۔ اسکی والدہ نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ بچے کا علاج کروائے کیونکہ اس بیماری نے اسکا بچپنا اس سے چھین لیا ہے۔ اگر بچے کی جلد پر ہاتھ لگایا جائے تو اسے تکلیف ہوتی ہے اور اسے کپڑے پہننے میں بھی مشکلات ہیں۔ والدہ جہاں آرا بیگم نے کہا کہ لوگ اس سے خوفزدہ رہتے ہیں اور لعن طعن کرتے ہیں ۔ کوئی بھی شخص اس کے سامنے کھاتا پیتا نہیں جس سے یہ بچہ پریشان ہوتا ہے اس لئے میں اسے باہر نہیں نکلنے دیتی ہر وقت تکلیف سے چیختا چلاتا ہے۔اسے اس تکلیف میں دیکھ کر میرا دل بھی روتا ہے۔ مہدی حسن جہاں آرا کا تیسرا بچہ ہے۔ اسکی پیدائش تو معمول کے مطابق ہوئی۔ پیدائش کے وقت اسکا وزن 7پاونڈ تھا۔ ابھی یہ 12دن کا ہی تھا کہ ماں نے دیکھا کہ اسکے جسم پر معمولی خراشیں ہیں۔ انہوں نے اسے نظر انداز کردیا سمجھی کہ یہ مچھروں کے کاٹے کے نشان ہیں لیکن جلد ہی یہ مرض پیٹ سے ایڑی تک پھیل گیا۔ تین ماہ بعد ہی انگلیاں، سینہ اور کمر متاثر ہوئے۔ بچے کی ماں بھٹے پر کام کرتی ہے جبکہ باپ ابو الکلام آزاد وین ڈرائیور ہے۔ دونوں نے مقامی ڈاکٹروں کو دکھایا ۔ انہوں نے کچھ دوائیں بھی تجویز کیں مگر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ابو الکلام کا کہناتھا کہ کوئی بھی ڈاکٹر مرض کی تشخیص نہیں کرسکا۔ میرے سارے پیسے خرچ ہوگئے اب کچھ بھی پاس نہیں۔ جو کچھ بھی کماتا ہوں اسکے علاج پر خرچ ہوجاتا ہے۔ جب بھی میرے پاس کچھ بچت ہوتی ہے میںاسے ڈاکٹر کے پاس لیجاتا تھا۔ اب پریشان ہوکر میں نے کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرناترک کردیا ہے۔ بچوں کے علاج کے معالج ڈاکٹر عماد حق کا کہناہے کہ بچے کو جلد کی بیماری لاحق ہے۔ ہمارے پاس اس قسم کے عام طور پر مریض نہیں آتے اسلئے یہ کہنا مشکل ہے کہ اسے یہ بیماری کیوں لاحق ہوئی۔ ہم نے اسے جلدی بیماری کے ماہرین کے پاس جانے کا مشورہ دیا ہے۔ والدہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اسے بچپن میں اسکول میں داخل کرایا تھا لیکن وہاں بچوں نے اسے مارا پیٹا۔ ٹیچر بھی اس سے بات نہیں کرتے تھے۔ ایک دن وہ روتا ہوا گھر آیا۔ میں نے ٹیچر سے کہا کہ وہ اس پر توجہ دے کہ کوئی اسے نہ مارے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے دوسرے بچوں کی پڑھائی متاثر ہورہی ہے۔ مدرسے بھیجا گیا تو وہاں بھی اساتذہ اس سے ایک فاصلے پر رہ کر بات کرتے ہیں اور دوسرے بچوں کے ساتھ اسے کھانے نہیں دیتے۔ میرے بچے کا کوئی دوست نہیں۔ وہ بھی گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دوسروں سے مختلف بنایا ہے۔ وہ چاہے گا تو میرا بچہ صحتمند زندگی گزارے گا۔

شیئر: