Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیلنجوں کا جواب ، مقدار نہیں معیار

جسے بھی تھوڑا سا ’’شعور‘‘ حاصل ہوتاہے توفوراًوہ اپنی تنظیم اپناادارہ،اپناگروپ ،اپنا اسکول اوراپنامدرسہ بنالیتا ہے

صادق رضامصباحی ۔ ممبئی

------------------------

عصرجدیدنے جب سے اپنے بال وپرپھیلاناشروع کیے ہیں، مسابقت اورمقابلہ آرائی کی ایسی ہوڑمچی ہوئی ہے کہ انسان پربس آگے نکل جانے کی دُھن سوارہے۔

اس مقابلہ آرائی میں اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ وہ پیچھے مڑکردیکھے اوراس بات کاجائزہ لے کہ آخر کتنا سفرطے ہواہے اورابھی منزل کتنی دورہے ۔یہ مسابقہ اور مقابلہ چیلنجوں اورسوالوں کے بطن سے پیداہواہے اورسب کامنتہائے سفر ’’جواب‘‘کی چوٹی سرکرناہے ،ایساجواب جوآج کی نفسیات کے عین مطابق ہو، جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہواورجوزمانے کے شانہ بشانہ چلنے کے لائق ہومگریہاں سوال یہ ہے کہ اس جدوجہد، دوڑ دھوپ اور محنت و مشقت سے کیاانسان واقعی چیلنجوں کے جواب کی طرف بڑھ رہاہے؟

اس عنوان پراب تک نہ جانے کیا کیا کہا گیا اورنہ جانے کتنا کچھ سنایاگیا مگرواقعہ یہ ہے کہ ہم میںسے بہت سے لوگوںکے ذہنوں میں آج بھی جدید چیلنجوں کے جواب کا معنی و مطلب واضح نہیں ہوسکا ۔ مسابقہ اورمقابلہ بلاشبہ نیک عمل ہے بشرطیکہ نیت میں خیر ہو لیکن ایک بات ذہن میں رہے کہ نیازمانہ جومطالبات ہمارے سامنے رکھتا ہے تو ہمیں محض ان کاجواب دینا ہوتا ہے ، اُسے اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ہم اس کا جواب کیسے دیتے ہیں ،اس کے لیے کیاتیاری کر تے ہیں اورکن حالات سے گزرتے ہیں ۔چیلنج یہ بھی نہیں دیکھتا کہ جواب کی تلاش اورمسائل کے حل کے لیے کتناسفرطے کیا گیاہے بلکہ وہ یہ دیکھتاہے کہ وہ سفرکتنانتیجہ خیزاوربافیض رہا۔ مثلاً اگر آپ صبح سے شام تک کوئی بھی محنت کاکام کرتے رہیں اور شام کو جب اس کافائدہ اورنتیجہ شمارکرنے بیٹھیں توپتہ چلے کہ ہاتھ میں توکچھ بھی نہیں آیا۔ مجھے بتائیے کیاایسی محنت کسی کام کی ہے؟۔

آپ کا ذہن د وماغ تھک بھی گیا،جسم بھی شل ہوگیا،قویٰ بھی مضمحل ہوگئے اور وقت جیسی قیمتی شے کی بربادی اس پرمستزاد مگرپھربھی آپ کی محنت رائیگاں چلی گئی۔اصل کام خالی مصروفیت نہیں بلکہ ایسی مصروفیت ہے جو آخر میں نتیجہ بھی دینے والی ہومگریہ بات کس اسلوب میں سمجھائی جائے کہ محض مصروفیا ت کو کام نہیں کہتے۔اپنے جذبات اورمزاج کی پرورش کوکام نہیں کہتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم کام کے زیادہ سے زیادہ پھیلائو کو عصر حاضرکے چیلنجوں کاجواب سمجھتے ہیں۔ہم مسائل کے حل کے لیے وسائل بھی خوب سے خوب ترحاصل کرلیتے ہیں اور انھیں زیر استعمال بھی لے آتے ہیں مگردل پرہاتھ رکھ کرہمیں کوئی بتائے کہ ان کے ذریعے کتنے فی صدجدیدسوالات کے جوابات دیے جا چکے ہیں؟ جب تک مرض کی تشخیص نہ ہو،علاج اگرہوگابھی توبے فائدہ ہوگا اور اگر مرض کی تشخیص ہوبھی گئی مگرمریض کواس کے مطابق دوانہ دی گئی تو بھی مریض کبھی صحت مندنہیں ہوسکتا۔ عصرحاضرکے سوالات کے جوابات کے لیے اتنے وسائل کی ضرورت نہیں جتنی ہم سمجھ رہے ہیں۔ہم حسب استطاعت کام کریں،چھوٹی چھوٹی سطح پرکام کریں،اپنے اپنے طور پر قدم آگے بڑھائیں مگرجوبھی کام ہو،مضبوط ہو،ٹھوس ہو،پائیدارہو، مختصر ہو مگر جامع ہو، دوررس ہو،نتیجہ خیزہو،بافیض ہوتوپھر یہی مختصر اور ٹھوس کام جواب بن کر کھڑاہوجائے گا۔ہمارے سامنے سب سے بڑامرحلہ افرادسازی کاہے اوراس کے لیے اسٹرکچر کی اب کوئی خاص ضرورت نہیں کیوںکہ اسٹرکچراب پہلے سے زیادہ موجودہے اور بہتر انداز میں موجودہے۔ اسٹرکچر کاشکوہ پہلے کیا جاتاتھا مگراب نہیں کیوں کہ اب ہمارے سامنے پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ مدارس ہیں ، مراکز ہیں اور افرادکی بھیڑ بھی ہے مگرکیاوجہ ہے کہ سوالات گھٹنے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور روز بروز ان کی نوک خطرناک ہوتی جارہی ہے۔

اس لیے ضرورت صرف اور صرف اس بات کی ہے کہ پھیلائوسے زیادہ مضبوطی پرتوجہ دی جائے اور توسیع سے زیادہ استحکام پرقوت صرف کی جائے۔ اگراستحکام نہیں محض توسیع ہی توسیع ہے توپھرہم زمانے کا ساتھ کبھی نہیں دے سکتے ۔ بس یہی مطلب ہے عصری تقاضوں کے چیلنجوں کے جواب کا۔ ٹھنڈے دل سے غورکرنے اوررفتارزمانہ کاجائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ ہم نے آج تک بالعموم چیلنجوں کا مقابلہ کیا ہی نہیں ، ہم نے دعوتِ مبارزت قبول کی ہی نہیں ۔

ہم چیلنجوں کے جواب کے نام پرسوالات قائم کرتے رہے ، غلط فہمیا ں بڑھاتے رہے ،اضطراب کی لوتیزکرنے میں لگے رہے اور یہ سب اتنی کثرت سے کیاگیا کہ ہرطرف سوالات اورغلط فہمیوں کا جنگل سااُگ آیا۔جسے بھی تھوڑا سا ’’شعور‘‘ حاصل ہوتاہے توفوراًوہ اپنی تنظیم ،اپناادارہ،اپناگروپ اوراپنا،اسکول،اپنامدرسہ بنانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں نظرآتاہے اور پھر المیہ یہ کہ وہ اسی کوکام سمجھتاہے ۔ قرآن کریم کی زبان میں اسے تحزب ( المومنون53 )

کہتے ہیں ۔ گویااب ہرایک کی اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ ۔ بہت سے اداروں کے اپنے اپنے تعلیمی نصاب ہیں حتی کہ بعض چھوٹی چھوٹی تنظیموں اورچھوٹے چھوٹے اداروں نے بھی اپناتعلیمی نصاب مرتب کر رکھا ہے اوران کے پاس جتنے بچے ہیں اُس نصاب کوپڑھنے پر مجبور ہیں ۔کیایہی ہے جدیدچیلنجوںکے جواب کا مطلب ؟ تقریروں اورکتابوں کاانبارسالگ چکاہے مگرغلط فہمیاں ہیں کہ کم ہی نہیں ہوتیں،ایسالگتاہے کہ اب پڑھے ہوئے مصنف کم ہوتے جارہے ہیں اورلکھے ہوئے مصنفوں کی باڑھ سی آگئی ہے۔کیایہی ہے جدیدچیلنجوں کے جواب کامطلب؟ کالجو ں ،مدرسوںاوراداروں کی خوب صورت عمارتیں دوردور تک پھیلی نظرآتی ہیں ،ان کی جاذبیت دامن دل کھینچتی ہے ،نئے نئے شعبے ، نت نئے ڈیپارٹمنٹ وجودمیں آئے اورآتے ہی جا رہے مگر سوال ہیں جوختم ہی نہیں ہورہے ،چیلنج ہے جوہرآن سرپربرہنہ تلوار لیے کھڑاہے۔کیایہی ہے جدیدچیلنجوں کے جواب کامطلب؟ ایسی ایک نہیں درجنوں مثالیں ہیںجوجواب کی تلاش میں سرگردا ں ہیں مگر جواب اب بھی ان کی دسترس سے بہت دورہیں اور شاید دورہی رہیں گے ۔یہی وجہ ہے ایک مسئلہ ختم نہیں ہوتاکہ دوسراشروع ہوجاتا ہے۔ یہاں ایک بات اوریادرکھنے کے لائق ہے ۔ ہم جن چیزوں کو مسائل سمجھ کران کوحل کرنے میں اپنی پوری توانائی اورقوت ضائع کر دیتے ہیں اوران کی وجہ سے حقیقی مسائل اورحقیقی چیلنجو ں سے آنکھیں موندلیتے ہیں ،وہ دراصل مسائل نہیں انسانی زندگی کی حقیقتیں ہیں جو مرتے دم تک ہمارا پیچھانہیں چھوڑتیں ،یہ مسائل فطری ہوتے ہیں اس لیے ان کاحل بھی فطری ہی ہے۔یہ مسائل ہمارے بھگانے سے نہیں بھاگتے،یہ ہمیشہ ساتھ چلتے ہیں ۔یہ مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے بلکہ خود ختم ہوجاتے ہیں۔ اس لیے فطری مسائل کاجواب تلاش کرنااورحقیقی مسائل سے آنکھیں موندلینا،کیایہی ہے جدیدچیلنجوں کے جواب کا مطلب ؟ 

ہرسال ملک کے بہت سارے مدرسوں سے بیک وقت کئی سو طلبہ فارغ ہوتے ہیں مگروہ کتنے کھرے ہیں اورکتنے کھوٹے۔؟ ہمارے ذمے دارانِ مدارس کوبالعموم ا س سے کوئی بحث نہیں ہوتی۔ کیا یہی ہے جدیدچیلنجوں کے جواب کامطلب؟ بہت سار ے اسکولوں،کالجوں اورمدرسوں میں دیکھاگیاکہ جدید چیلنجوں کے جواب کے جذبے میں شعبہ کمپیوٹر کااضافہ توبڑے شوق سے کیا گیا اور جیسے تیسے کمپیوٹرمع اپنے لوازمات کے لاکررکھ دیے گئے مگروہ اب تک آس لگائے منتظرہیں کہ کوئی آئے اورہمیں استعمال کرے،کبھی10،15 دن اورمہینے دومہینے میں ایک بار تھوڑی دیرکے لیے برائے نام کسی کواجرت پررکھ پرطلبہ کو کمپیوٹر سکھا دیا جاتا ہے اور بس۔کیایہی ہے جدیدچیلنجوں کے جواب کامطلب؟ جناب عالی!اسے مسائل کاحل نہیں کہتے ،اسے جدیدچیلنجوں کاجواب نہیں کہتے، بلکہ اسے آنکھوں میں دھول جھونکناکہتے ہیں۔ یادرکھناچاہیے کہ اصل حل توسیع نہیں استحکام ہے ۔اصل حل اپنی ضرورت کی تکمیل نہیں ،مخاطب اورزمانے کی ضرورت کی تکمیل ہے۔

جدیدچیلنجوں کے جواب کامطلب یہ ہے کہ ہم اپنے مخاطب کی پسند کا خیال رکھیں ،اس کے ذوق کاپاس رکھیں ،یہ نہیں کہ ہم اپنی پسندکواس کی پسندپرزبردستی تھوپنے کی کوشش کریں اوراپنے تئیں یہ سمجھ لیں کہ ہم نے بہت بڑاکام کردیا۔جواب کا مطلب یہ نہیں کہ جوہمیں پسندہے تووہی سبھی کو پسندہے ، جو چیزہمیں اچھی لگتی ہے تووہ سبھی کو اچھی لگتی ہے۔ اگرواقعی چیلنجوں کاجواب دیناہے توسب کی پسندکواپنی پسندبنایا جانا چاہیے ،مخاطب کاخیال رکھناچاہیے،دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھنی چاہیے ۔ چیلنجوں کے جواب کے لیے اپنی ضرورت اوراپنی پسندکی گھس پیٹھ نہیں کی جانی چاہیے ۔

اپنی ضرورت کوزمانے کی ضرورت سمجھ لینا اور اپنے مزاج اورذوق کوزمانے کے ذوق ومزاج سے ہم معنی قرار دینا دانش مندی نہیں ،اسے خوش فہمی کہتے ہیں اورواقعہ یہ ہے کہ خوش فہمی سے زیادہ بڑی غلط فہمی آج تک ایجادنہیں ہوئی ۔کیاخیال ہے آپ کا؟۔

شیئر: