Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لباس اورپردہ، قرآن وسنت کی روشنی میں

عورت خواہ اکیلی نماز پڑھ رہی ہو اس کاجسم ہی مقامِ ستر ہے، سوائے چہرے اور ہاتھوں کے، وہ ننگے چہرے کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے
 
ام عدنان قمر ۔ الخبر
گزشتہ سے پیوستہ
- -- - - - - -  - -
نبی اکرم اس معاملے میں اتنے حساس تھے کہ جو مرد قدرتی طور پر مردانہ خصائص اور جذبات سے محروم تھے، جن کو عربی میں ’’مخنث‘‘ اور اردو میں ’’ہیجڑہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو حرکات و سکنات اور گفتگو میں پیدایشی طور پر عورتوں کے مشابہ ہو، ان کو بھی آپ نے اپنے گھروں میں آنے سے منع فرما دیا تھا۔ جیسے آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت اُم سلمہ ؓ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ گھر تشریف لائے تو وہاں ان کے پاس ایک مخنث تھا۔ اس مخنث نے آپ کی موجودگی میں حضرت اُم سلمہؓ کے بھائی سے بعض عورتوں کے وصف کا تذکرہ کیا، آپ نے اس کی باتیں سن کر فرمایا: ’’یہ لوگ تمہارے پاس نہ آیا کریں۔‘‘ نیز فرمایا: ’’ان کو اپنے گھروں سے نکال دو۔ بعض علما کی رائے یہ ہے کہ ایسے لوگ چونکہ پیدایشی طور پر ایسے ہوتے ہیں، وہ عورتوں کی مشابہت اپنے ارادے سے اختیار نہیں کرتے۔ لہٰذا گناہ گار نہیں ہوتے۔
دوسرے علما کی رائے یہ ہے کہ بلاشبہ یہ مشابہت پیدایشی ہے لیکن ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ ایک تو وہ اس کا علاج کروائے۔ دوسرا یہ کہ خود بھی کوشش کرکے زنانہ صفات اور انداز سے اپنے آپ کو بچائے اور مردانہ انداز اور صفات اپنے اندر پیدا کرے، گفتگو میں، چال ڈھال میں بھی اور حرکات وسکنات میں بھی۔ علاج معالجہ اور مردانہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کے باوجود اگر وہ عورتوں کی مشابہت کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا، تو پھر یقینا وہ عند اللہ مجرم نہیں ہوگا ، بشرطیکہ اس کی زندگی صالحیت اور تقوے کی آئینہ دار رہی ہو۔
** عورتوں کا لباس**
جو احکام مرد اور عورت کے درمیان مشترکہ ہیں ، ان کی تفصیل اس طرح ہے: اسراف اور تکبر مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی ناجائز ہیں، عورتوں کا لباس بھی ان دونوں چیزوں سے پاک ہونا چاہیے۔ بالوں کو سیاہ خضاب سے رنگنا جس طرح مردوں کے لیے ممنوع ہے، عورتوں کے لیے بھی ممنوع ہے۔ کافروں والا لباس جس طرح مردوں کے لیے ممنوع ہے، عورتوں کے لیے بھی کافر عورتوں کا لباس ممنوع ہے۔ غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنا بھی مرد و عورت دونوں کے لیے حرام ہے ۔درندوں اور چیتوں کی کھالوں کا لباس بھی دونوں کے لیے ممنوع ہے۔ لباس پہننے کا آغاز دائیں جانب سے کیا جائے، اس حکم کے مخاطب بھی مرد و عورت دونوں ہیں۔ سونا مردوں کے لیے حرام ہے مگر دوسری دھاتوں کی انگوٹھیاں مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی ناجائز ہیں جو قسمت بدلنے کے غلط عقیدے کے ساتھ پہنی جاتی ہیں۔ سادگی اختیار کرنے کے حکم میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں۔ عورتیں ہر قسم کے رنگ کا لباس پہن سکتی ہیں لیکن اس میں مردوں کی یا غیر مسلموں کی مشابہت نہ ہو۔
** مباحات**
کچھ احکام ایسے ہیں کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے لیے ان میں جواز ہے۔ یعنی وہ اگر کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں، فرض و واجب نہیں، صرف جائز ہیں۔ جیسے عورت سونے کا زیور اور ہر قسم کا رنگین اور ریشمی لباس پہن سکتی ہے ۔ صرف کافروں یا باطل فرقوں کی مشابہت نہ ہو۔ ممنوعات و واجبات: احکامِ لباس کی تیسری قسم وہ ہے جو صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہے اور اس کی رو سے یہ احکام عورتوں کے لیے فرض و واجب کے درجے میں ہیں، ان سے انحراف کی ان کو قطعاً اجازت نہیں اور وہ ہے پردہ۔
** پردے کا حکم**
ان احکام میں سب سے اہم پردے کا حکم ہے جو عورت کو دیا گیا ہے اور یہ اس کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس حکم کی رو سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کا سارا جسم قابلِ ستر ہے۔ یعنی غیر محرموں کے سامنے وہ ہاتھ اور چہرے سمیت جسم کا کوئی حصہ ننگا نہیں کرسکتی۔ گویا اس کا لباس اس طرح کا ہونا چاہیے کہ اس حکم کے تقاضوں کو پورا کرے۔ اس اعتبار سے عورت کے لیے 3 صورتیں بنتی ہیں۔ دو صورتوں کا تعلق گھر کے اندر سے ہے اور ایک کا تعلق گھر کے باہر سے۔ گھر کی چار دیواری کے اندر ایک صورت تو یہ ہے کہ عورت مشترکہ خاندان (جوائنٹ فیملی سسٹم)میں رہتی ہے، جہاں اس کے دیور، جیٹھ اور ان کی جوان اولاد بھی ہوتی ہے۔ شرعی لحاظ سے چونکہ ایک عورت کو خاندان کے ان تمام افراد سے پردہ کرنے کا حکم ہے، ایسی صورت میں عورت ہر وقت بڑی چادر یا برقعے میں تو ملبوس نہیں رہ سکتی، کیونکہ گھر میں رہتے ہوئے اس نے سارے امورِ خانہ داری بھی انجام دینے ہوتے ہیں۔ اس لیے افرادِ خاندان سے پردے کی آسان صورت یہ ہے کہ اس کا لباس ان شرائط کے مطابق ہو: اس لباس سے اس کے بازو ننگے ہوں اور نہ اس کی چھاتی اور نہ اس کے پیر ننگے ہوں، اسی طرح اس کا سر بھی ننگا نہ ہو، بلکہ اس کے سر پر ایسا موٹا دوپٹا یا چھوٹی چادر ہو کہ دیور، جیٹھ وغیرہ کی موجودگی میں چہرے پر پلّو لٹکا کر اپنے چہرے کو چھپاسکے۔ ایسا باریک لباس نہ ہو جس سے اس کا جسم جھلکے اور اس کے حُسن کی چغلی کھائے۔ لباس ڈھیلا ڈھالا ہو۔ اس طرح تنگ و چست نہ ہو جس سے اس کے سارے خدوخال نمایاں ہوں۔ لباس زیادہ شوخ اور بھڑکیلا نہ ہو، جسے دیکھ کر کسی کے جذبات برانگیختہ ہوں۔ اس انداز کے لباس اور احتیاط سے مشترکہ خاندان میں پردے کے ضروری احکام پر عمل ہوجاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے دیور، جیٹھ، بہنوئی وغیرہ سے پردہ کس طرح ممکن ہے؟ چنانچہ اس کو ناممکن یا مشکل سمجھتے ہوئے اکثر گھروں میں مذکورہ افراد سے پردہ نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ شریعت کے احکام ناممکن العمل نہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ (آیت286) میں فرماتا ہے: ’’اللہ کسی شخص کو اُس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت اور اس کا فضل و کرم ہے۔ اگر خاندان کے ان مذکورہ افراد اور دیگر غیر محرموں سے پردہ کرنا ناممکن ہوتا تو اللہ تعالیٰ کبھی عورت کو ان سے پردہ کرنے کا حکم نہ دیتا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس حکم کا صدور ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس پر عمل کرنا ممکن ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی اصول، قانون اور ضابطے کی پابندی میں انسان کو یقینا کچھ نہ کچھ مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ پھر دین و دنیا کا کون سا ایسا کام ہے جس میں محنت و مشقت نہ ہو ؟ یقینا یہ بھی ایک مشقت طلب کام ہے، لیکن اللہ کی رضا کے لیے اس مشقت کو برداشت کرنا ہی تو شیوہ مسلمانی ہے اور اس مشقت ہی کی وجہ سے آخرت کا اجر و ثواب ہے اور انعام میں جنت ملے گی۔ ان شاء اللہ۔ لہٰذا ہر مسلمان گھرانے کو مذکورہ لباس اور پردے کا اہتمام کرنا چاہیے، اسی میں دین و دنیا کی سعادت ہے۔
** فیشنی بال رکھنے کی شرعی حیثیت**
جب حج کے موقعے پر عورت کے لیے انگلی کے پَورے سے زیادہ بال کاٹنا جائز نہیں تو عام حالات میں اس کے لیے اس سے زیادہ بال کاٹنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ یقینا نہیں ہوسکتا۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آج کل مغرب کی حیا باختہ اور بے پردہ عورتوں کی نقالی میں عورتوں میں پورے بال رکھنے کے بجائے پٹے نما فیشنی بالوں کا رواج جو عام ہورہا ہے، وہ یکسر غلط ہے۔ شرعی لحاظ سے اس کی کوئی گنجایش نہیں: ایک تو اس کی بنیاد کافر عورتوں کی نقالی پر ہے۔ دوسرے ، اس سے بے پردگی کو فروغ مل رہا ہے۔ تیسرے ، اس میں مردوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ اس سلسلے میں ازواجِ مطہراتؓ کے عمل سے دلیل پکڑی جاتی ہے کہ انھوں نے اپنے بال کاٹ لیے تھے، حتیٰ کہ وہ ’’وَفْرَہ‘‘ کی طرح ہوگئے تھے۔ ’’وَفْرَہ‘‘ با ل کانوں کی لَو تک ہوتے ہیں، جیسے پٹے بال ہوتے ہیں۔ ازواجِ مطہراتؓکے اس عمل کی بابت علما نے لکھا ہے کہ ان کا یہ عمل زیب و زینت کے لیے نہیں بلکہ ترکِ زینت کے لیے تھا اور نبی اکرم کی وفات کے بعد انھوں نے ایسا کیا تھاکیوں اب انھیں کسی قسم کی زیب و زینت کی حاجت نہیں تھی۔ آج کل عورتیں لمبے بالوں کے بجائے جو چھوٹے بال رکھتی ہیں تو وہ ایسا ایک تو زیب و زینت کے لیے کرتی ہیں اور زیب و زینت بھی وہ جسے دنیا دیکھے۔ گویا بے پردگی بھی اس فیشن کا لازمی حصہ ہے، حالانکہ عورت کے لیے زیب و زینت کا اظہار صرف خاوند کے سامنے کرنے کی اجازت ہے نہ کہ غیروں کے سامنے بھی اور چھوٹے بالوں کا مقصد ہی دنیا کے سامنے اپنے حسن و جمال کا اظہار ہے۔ دوسرے اس میں غیر مسلم عورتوں کی نقالی ہے جیسا کہ یہ فیشن مغربی ملکوں کی عورتوں میں رائج ہے جہاں نہ صرف یہ کہ پردے کا کوئی تصور نہیں بلکہ وہاں مرد و زن کا اختلاط عام اور عورتوں کو مرد بننے کا خبط و جنون معروف ہے، جس عمل کی بنیاد ہی بے پردگی، غیروں کے سامنے زیب و زینت کے اظہار اور کافروں کی نقالی پر ہو وہ عمل کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ شرعی لحاظ سے تو اس کی ہرگز اجازت نہیں ۔
** نماز کا لباس**
نماز کی حالت میں مرد کا لباس قابلِ ستر حصہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے البتہ ایک حدیث کی رو سے اس کے کندھوں پر بھی لباس کا کچھ حصہ ہونا ضروری ہے۔ ان شرائط پر پورا اترنے والا لباس مرد کی نماز کے لیے کافی ہے، تاہم افضل یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بھی اس کا لباس زینت کے مفہوم کو پورا کرنے والا ہو، جیسا کہ سورۃالاعراف (آیت31) میں ہے: ’’اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے آپ کو مزین کیا کرو۔‘‘ عورت کے لیے نماز میں کون سا لباس ضروری ہے؟ اس کے لیے کن اعضاے جسم کو ڈھانپنا ضروری ہے؟ جنھیں اپنے شوہر اور محرم رشتہ داروں کے سامنے تو ننگا کرسکتی ہے مگر نماز میں نہیں، چاہے وہ اکیلی ہی نماز کیوں نہ پڑھ رہی ہو، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ نماز میں عورت کا سارا جسم ہی مقامِ ستر ہے، سوائے چہرے اور ہاتھوں کے۔نبی اکرم کا فرمان ہے: ’’عورت(ساری کی ساری) ہی مقامِ پردہ ہے۔‘‘ کیونکہ نماز کی حالت میں اس کے لیے چہرے کو چھپانا ضروری نہیں، وہ ننگے چہرے کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے، لیکن یہ حالت اس وقت ہوگی جب غیر مردوں کا سامنا نہ ہو، اگرمسلسل مردوں کا سامنا رہے، جیسا کہ آجکل حجاج و عمار کی کثرت کی وجہ سے ہے تو اس کے لیے منہ کا ننگا رکھنا ضروری نہیں ہوگا، بلکہ عام حالات کی طرح چہرے کا پردہ بھی ضروری ہوگا۔ یہ تو ہاتھ اور چہرے کے متعلق تھا۔ اب لباس کی مقدار کیا ہے؟ تواس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ لباس کی افضل و مستحب مقدار یہ ہے کہ عورت ایک نہ دو بلکہ تین کپڑوں میں نماز ادا کرے کیونکہ یہ صورت زیادہ ساتر ہے۔ امیر المومنین حضرت عمرفاروقؓسے مروی ہے:
’’عورت کو چاہیے کہ وہ3 کپڑوں میں نماز ادا کرے، پاؤں تک لمبی قمیص یعنی میکسی اور دوپٹا اور قمیص کے نیچے ازار یا تہمد۔‘‘ جس کے قائم مقام آج کل پاجامہ یا شلوار ہے۔ یہ تو ہوا نماز میں عورت کے لباس سے تعلق رکھنے والی بعض ضروری تفصیلات ، جبکہ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ احادیث میں عورت کے لباس کی ان تفصیلات کے علاوہ اس بات کی صراحت بھی آئی ہے کہ اس کے لباس کا کپڑاکیسا ہونا چاہیے؟ یہ نہیں کہ جس کپڑے میں چاہے نماز پڑھنے لگے، یا گلی بازار میں نکل جائے بلکہ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ عورت کے لیے لباس کا کپڑا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ پتلا ہونے کی وجہ سے وہ جسم کے رنگ کی چغلی کھائے یا تنگ و چست ہونے کی وجہ سے اعضاے جسم کی حد بندی کرنے کی گستاخی کا مرتکب ہو رہا ہو، کیونکہ ایسا لباس اس دربارِ عالی کی حاضری کے شایان شان نہیں ہے۔ چنانچہ ’’معجم طبرانی صغیر‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓے مروی ہے کہ نبی اکرمنے فرمایا: ’’میری امت کے آخری دور میں ایسی عورتیں پیدا ہوں گی جو لباس پہننے کے باوجود عریاں (ننگی) ہوں گی۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں جیسے (جوڑے) ہوں گے۔ ان پر لعنت بھیجو وہ ملعون عورتیں ہیں۔‘‘ صحیح مسلم و موطا امام مالک اور مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہؓسے مروی حدیث میں ان الفاظ پر مستزادیہ بھی ہے کہ ایسی عورتوں کے بارے میں نبی مکرم کا فرمان ہے: ’’وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ وہ جنت کی خوشبو تک پائیں گی، جبکہ جنت کی خوشبو پچاس سال کے فاصلے پر بھی پائی جائے گی۔‘‘ نبی اکرمکی مراد وہ عورتیں ہیں جو اتنے باریک کپڑے کا لباس پہنتی ہیں جو ساتر ہونے کے بجائے ان تمام اعضا کے اوصاف بتا رہا ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں نام کو تو لباس میں ملبوس ہوتی ہیں، لیکن فی الحقیقت وہ عریاں (ننگی) ہوتی ہیں۔ ایسا کپڑا پہننے کی مما نعت کا پتہ بعض آثار سے بھی چلتا ہے، مثلاً طبقات ابن سعد میں ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ منذر بن زبیر عراق سے لوٹ کر آئے تو انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کی طرف باریک مروزی کوہستانی کپڑے کا لباس بھیجا جبکہ ان دنوں موصوفہ نابینا ہوچکی تھیں۔ لہٰذا انھوں نے اپنے ہاتھ سے اس کپڑے کو چھوا اور فرمایا: ’’اُف یہ کپڑا انھیں واپس لوٹا دو۔‘‘ حضرت منذر کو یہ ناگورا گزرا اور عرض کی: ’’امی جان! اس میں سے بدن کا رنگ نظر نہیں آتا تو انھوں نے فرمایا: ’’یہ اگرچہ رنگ نہیں بتاتا لیکن اعضاے جسم کے اوصاف و حدود تو بتاتا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم نے کہا ہے کہ ایسے کپڑے سے ستر پوشی کرنا واجب ہے جو بدن کے رنگ کو ظاہر نہ کرے اور اگر کوئی ایسا باریک کپڑا ہو، جس کے نیچے سے رنگ ظاہر ہو تو اس کپڑ ے کا پہننا جائز نہیں کیونکہ اس سے ستر پوشی کی غرض پوری نہیں ہوتی۔ کپڑا اتنا تنگ و چست نہیں ہونا چاہیے جو موٹا ہونے کی وجہ سے اگرچہ بدن کے رنگ کا پتا تو نہ دیتا ہو لیکن تنگ و چست اور چپکا ہوا ہونے کی وجہ سے وہ اعضائے جسم کے حدود اربعہ کی چغلی کھائے۔ کیونکہ کپڑے سے اصل غرض تو رفعِ فتنہ ہو تا ہے اور وہ ڈھیلے ڈھالے اور کھلے کپڑے کے سوا نہیں ہو پاتا۔
**چھوٹے بچے، بچیوں کا لباس**
یہاں میں ایک اہم اور خاص نقطے کی وضاحت کرنا چاہتی ہوں کہ ہمارے ملکوں میں چھوٹے بچوں کو بچیوں والا لباس اور بچیوں کو بچوں والا لباس پہنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ شرعی لحاظ سے یہ سب باتیں ناجائز ہیں، صحیح بات یہی ہے کہ چھوٹے بچوں کے لباس میں بھی فرق کو برقرار رکھا جائے گا۔ ایک اور بات یہ کہ شادی بیاہ کے موقع پر دولہا دلہن کے لباسوں پر رسم و رواج کے لیے بے تحاشا رقم کا خرچ کرنا جو سراسر ناجائز اور (فضول خرچی) کے علاوہ مشابہتِ کفار بھی ہے اور یہ بہت بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے، جسے آج کل گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ مگر مسلمانوں کو ہر کام میں فرق کرنا چاہیے۔ اسی طرح اسلام کی تہذیبی شخصیت کو بھی ملحوظ رکھا جاسکتا ہے اور غیروں کی نقالی سے اجتناب بھی کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے گھروں میں وہ فضا پیدا کر دے جس کے نتیجے میں حجاب اور اسلامی لباس کا مسئلہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرکے اسلامی معاشروں کو ایک حیا آموز ماحول فراہم کرے اور ہمیں حق کو حق سمجھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور باطل سے مکمل طور پر اجتناب کی ہمت دے اور ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو صحیح اسلامی لباس اور پردے کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو سب سے بڑھ کر عورت کی عزت و حرمت اور عفت و عصمت کا نگہبان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت کرے۔ آمین

شیئر: