Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خوشی کا سرچشمہ، انفاق و صدقات

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسی ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں او ر ہر بال میں سو دانے ہوں

ڈاکٹرمحمد لئیق اللہ خان ۔ جدہ

اب سے 1400برس قبل اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا تھا کہ: ’’ جو لوگ اپنی دولت اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ہی دل دکھاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کااجر اپنے رب کے پاس ہے اور انکے لئے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔ ‘‘ اسکا مطلب یہ ہے کہ غریبوں ، ناداروں اور ضرورت مندوں کو صدقہ دینے اوربھلائی کرنے سے انسان کو خوشی ملتی ہے۔غم اور دکھ دور ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 261اور262 میں ارشاد فرماتا ہے کہ : ’’ جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسی ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں او رہر بال میں سو دانے ہوں اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کے عمل کو چاہتا ہے دگنا کردیتا ہے۔

وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ہے۔ جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر احسان نہیں جتاتے اور نہ دکھ دیتے ہیں۔ انکا اجر انکے رب کے پاس ہے اور انکے لئے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں ہے۔‘‘ قرآن پاک میں ایسی بہت ساری آیات آئی ہیں جن میں واضح کیا گیا ہے کہ انسان کی دنیاوی و اخروی خوشی صدقہ و خیرات سے جڑی ہوئی ہے۔ حال ہی میں ایک سائنسی رسالے میں ایک بحث شائع ہوئی ہے جس میںاس بات کی تصدیق ہے کہ صدقہ و خیرات سے انسان کو قلبی سکون ملتا ہے۔ بی بی سی ویب سائٹ پر یہ سائنسی خبر جاری کرکے بتایا گیا ہے کہ اسکالرز کے ایک گروپ نے ضرورت مندوں پر خرچ اور خوشی کے درمیان گہرا رشتہ پایا ہے ۔ بی بی سی ویب سائٹ پر جو کچھ دیا گیا ہے اس کا اردو خلاصہ یہ ہے: کینیڈا کے اسکالرز کا کہنا ہے کہ بے تحاشا دولت خرچ کرنے سے انسان کو خوشی نہیں ملتی البتہ اگر دولت ضرورت مندوں پر خرچ کی جائے تو ایسی حالت میں سکون نصیب ہوتا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے اسکالرز کی ٹیم کا کہنا ہے کہ دوسروں پر آپ 5ڈالر بھی خرچ کریں گے تو ایسا کرنے سے آپ کو قلبی سکون ملے گا۔ خوشی کیلئے دوسروں پر خرچ کرنا لازم ہے۔ صدقہ و خیرات کم ہی کیوں نہ ہو ضروری ہے۔ یہ بات پیغمبر اعظم و آخر حضرت محمد مصطفی مسلمانوں کو 1400برس قبل بتا چکے ہیں۔ ارشاد رسالت ہے کہ :

(اتقوا النار ولو بشق تمرۃ) ’’ تم آگ سے کھجور کا ایک ٹکڑا خرچ کرکے اپنا بچاؤ کرو‘‘ اللہ تعالیٰ نے سورہ الطلاق کی آیت نمبر 7میں یہی بات اس طرح سے بیان کی ہے: ’’خوشحال آدمی ا پنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ تنگدستی کے بعد فراخدستی بھی عطا کردے۔‘‘ سائنسی رسالے میں شائع ہونے والی ریسرچ میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ جو ملازم مالی ترغیبات کا کچھ حصہ دوسروں پر خرچ کردیتے ہیں وہ ایسے ملازمین سے زیادہ خوش و خرم رہتے ہیں جو ایسا نہیں کرتے۔ کینیڈا کے ا سکالرز نے شروع میں 630افراد کو اپنے جائزے میں شامل کیا تھا۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ خوش ہیں یا ناخوش۔

سالانہ آمدنی کیاہے؟ ماہانہ اخراجات کتنے ہیں؟دولت کہاں کہاں خرچ کررہے ہیں۔ کیا آپ اپنے ساتھ دوسروں کیلئے بھی تحائف خریدتے ہیں۔ جائزہ نگاروں کی ٹیم کی سربراہ پروفیسر ایلزبتھ ڈان بتاتی ہیں کہ جائزے سے ہمارا مقصد یہ جاننا تھا کہ لوگوں کی زندگی میں دولت کی جو اہمیت ہے آیا وہی اہمیت دولت خرچ کرنے کی بھی ہے؟ یا نہیں؟۔ پروفیسر ایلزبتھ ڈان بتاتی ہیں کہ جائزے کی مدد سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ جو لوگ وہ کم آمدنی والے ہوں یا زیادہ آمدنی والے، دوسروں پر خرچ کرتے ہیں وہ محض خود پر خر چ کرنے والے لوگوں سے زیادہ خوش رہتے ہیں۔ دیکھنے ، سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بہت پہلے اس حقیقت سے مطلع کرچکا ہے کہ دوسروں پر خرچ کرنے اور صدقہ خیرات سے انسان غم سے آزاد اور بے باک ہوجاتا ہے۔ اسے ذہنی سکون نصیب ہوتا ہے۔ سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر 274میں ارشاد الہیٰ ہے: ’’ جو لوگ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ا نکا اجر انکے رب کے پاس ہے اور انکے لئے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ سورۃ الرحمن کی آیت نمبر 60میں ارشاد فرماتا ہے کہ : ’’نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟‘‘ جائزہ ٹیم کے افراد نے 3تا 8ہزار ڈالر کی صورت میں ملازمین کو ترغیباتی رقم ملنے سے پہلے او رملنے کے بعد بوسٹن کے ایک ادارے کے 16ملازمین کے یہاں قلبی سکون و اطمینان کا پتہ لگانے کیلئے ایک جائزے کا اہتمام کیا۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ مالی ترغیبات کی مقدار سے کہیں زیادہ اہم دولت کو ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کا طریقہ ہے۔ چنانچہ جن لوگوںنے مالی منافع کا بڑا حصہ دوسروں پر خرچ کیا یا عطیہ کردیا انکا کہنا تھا کہ ہم نے مالی منافع ان لوگوں سے کہیں زیادہ کمایا جنہوں نے ا پنا مالی منافع اپنی ذات پر خرچ کرنے پر اکتفا کیا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ انسان جب ضرورت مندوں پر دولت خرچ کرتا ہے تو اس کا مالی خسارہ نہیں ہوتا نہ اسکی دولت کم ہوتی ہے بلکہ دولت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی بات ہمارے محبوب آقا محمد مصطفی بہت پہلے بتا چکے ہیں ۔ ارشاد رسالت ہے کہ:(مانقص مال من صدقہ) ’’خیرات کرنے سے دولت کم نہیں ہوتی‘‘۔ یعنی آپ دولت کار خیر میں جتنی بھی خرچ کرینگے وہ کم نہیں ہوگی بلکہ اس میں خیر و برکت پیدا ہوگی۔ دوسروں پر خرچ کرنے سے خوشی ملتی ہے۔اس سے دولت بہتر شکل میں حاصل کرنے کے طریقہ کار کی بابت درست سوچ میسر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرۃ کی آیت نمبر 245میں عہد کیا ہے کہ جو مال بندے دوسروں پر خرچ کرینگے اللہ اسے دگنا کردیگا۔ ارشاد الہیٰ ہے: ’’تم میں کون ہے جو اللہ کوقرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کردے۔گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔‘‘

آپ لوگوں کو دنیا کے مالدار ترین شخص بل گیٹس کے بارے میںمعلوم ہوا ہوگا کہ اس نے اپنی دولت کاایک حصہ یعنی دسیوں ارب ڈالر عطیہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا؟ اس لئے کیا تھا کیونکہ وہ ایسا کرکے حقیقی خوشی حاصل کرنا چاہتاتھا۔ ایک اور تجربے کے تحت اسکالرز نے 46افراد پر مشتمل ایک گروپ میں سے ہر ایک کو 5یا 20ڈالر دیئے ۔ ان سے اسی روز وہ رقم 5بجے تک خرچ کرنے کیلئے کہا گیا۔ 50فیصدسے رقم اپنے اوپر اور دیگر 50فیصد سے دوسروں پر خرچ کرنے کی خواہش کی گئی۔ اس روز کے آخر میں دونوں گروپوں میںشامل لوگوں سے پوچھا گیا کہ انہیں پیسے خرچ کرکے کیسا لگا۔ پتہ چلا کہ دوسروں پر خرچ کرنے والوں کو خود پر خرچ کرنے والوں سے زیادہ خوشی ملی۔ پروفیسر ڈان کا کہنا ہے کہ اس جائزے سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ دولت کمانے کا طریقہ جتنا اہم ہوتا ہے اتنا ہی اہم خرچ کا طریقہ بھی ہوتا ہے۔ اس موقع پر نبی رحمت محمد مصطفی کا وہ انمول ارشاد ہمارے لئے مشعل راہ ہے جو آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بکری کا گوشت صدقہ کرکے اس کا دست رسول اللہ کے لئے رکھ لیا تھا کیونکہ دست کا گوشت آپ کو مرغوب تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے رسول کریم سے کہا کہ (بکری گئی اور دست باقی بچ گیا) رسول کریم نے یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ سے کہا کہ ایسا نہیں بلکہ یوں کہو ’’دست چلا گیا اور بکری بچ گئی‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریم کو باقی بچ جانے والی دولت کے مقابلے میں وہ دولت زیادہ عزیز ہوتی تھی جسے وہ راہ خدامیں خرچ کردیا کرتے تھے۔ خوشی کا یہ راز سائنسدانوںپر اب جاکر منکشف ہوا ہے۔ اسکالرز کا کہنا ہے کہ دولت کمانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ اسے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اچھا خرچ عمدہ رزق کا سبب ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ انفال آیت نمبر 3اور 4میں ارشاد الہیٰ ہے کہ ’’جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔

ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ‘‘ پروفیسر ایلزبتھ کہتی ہیں کہ بعض اوقات دوسروں پر دولت خرچ کرنے سے خود پر خرچ کرنے کے مقابلے میں زیادہ سعادت حاصل ہوتی ہے۔ نیو بکنگھم یونیورسٹی میں نفسیاتی علوم کے ماہر ڈاکٹر جارج فیلڈ مین کا کہنا ہے کہ فلاحی مقاصد کیلئے عطیہ یہ احساس دلاتا ہے کہ تمہارا حال زیادہ بہترہے اس سے یہ احساس بھی ملتا ہے کہ لوگ آپ کو ایثار پیشہ سمجھتے ہیں۔ نجی سطح پر بھی اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر میں نے آپ کو کچھ دیا تو ایسا کرنے سے میں نے اپنے خلاف آپ کے جارحانہ عزائم کا امکان محدود کردیا اور اپنے ساتھ آپ کے حسن سلوک کا امکان بڑھا لیا۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ دولت جمع نہ کرو اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ توبہ کی 34اور35ویں آیتوںمیں یہ انتباہ دیئے ہوئے ہیں : ’’درد ناک عذاب کی خوشخبری ان لوگوں کو دیدو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئیگا کہ اس سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائیگی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانی اور پہلوؤں اورپیٹھوں کو داغا جائیگا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر زکوٰۃ فر ض کی ہے کیونکہ وہ ہماری خوشی چاہتا ہے۔ اس نے ہمیں دولت جمع کرکے رکھنے اور خیر و فلاح کے کاموں میں دولت خرچ نہ کرنے کے سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔ عصر حاضر میں اسلام سے متعلق اہل مغرب کی سوچ کی اصلاح کیلئے مفید علوم کی ترویج پر خرچ بہت اچھا عمل ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ ہم دین اسلام کی عظمت کو اجاگر کرنے اور نبی رحمت کی شان کے اظہار کیلئے قرآنی ریسرچ پر دولت خرچ کریں اور سورۃ سبا کی آیت نمبر39کے مضمون کو اپنی شناخت بنائیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے نبی! ان سے کہو میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔ جو کچھ تم خرچ کردیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیدیتا ہے ۔

وہ سب عطا کرنے والوں سے بہتر عطا کرنے والا ہے‘‘۔ صدقہ، اللہ کے غضب سے بچاتا ہے مسلمانوں کا معمول ہے کہ جب وہ یا ان کا کوئی عزیز و قریب مریض ہو تو وہ غرباء اور مساکین پر صدقہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی سوچ یہ ہے کہ اللہ کی خوشنودی کیلئے صدقہ و خیرات کرنے سے دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اللہ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے۔ بلائیں دور ہوجاتی ہیں۔ حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ کا ارشاد ہے ، اچھے کام ، برائی کے تباہ کن نتائج سے بچالیتے ہیں۔چھپا کر صدقہ دینے سے اللہ کے غصے کی آگ ٹھنڈی پڑجاتی ہے۔ صلہ رحمی سے عمر بڑھتی ہے۔

 

مکمل مضمون روشنی3فروری2017کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں

شیئر: