Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ کے بیانات امہ کی بے چینی

 
 یہ تو آنیوالے مہینوں میں واضح ہوجائے گا کہ امریکی صدر پاکستانیوں پر پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں، لیکن انکے اقدامات سے دنیا بھر میں ہلچل مچی ہوئی ہے
 
صلاح الدین حیدر
 
پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امّہ اس وقت کرب و بے چینی سے گزر رہی ہے۔ امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ کے بارے میں ہم نے پچھلے ہفتے بھی لکھا تھا، اُمید تھی کہ وہ اپنے قول و فعل میں اعتدال پیدا کریں گے، اُنہیں حق ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفاد میں فیصلے کریں، لیکن اگر ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے دُنیا میں بے یقینی کی فضا پیدا ہو تو اُس پر نظرثانی ضروری ہے۔ عام توقع تو یہی تھی، جس کا اظہار ہم نے بھی اپنے پچھلے کالم میں کیا تھا کہ اُن کی انتخابی مہم کے دوران کہے جانے والے جملوں کو، کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد، نئے معنی پہنائے جائیں گے، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ لگتا ہے ٹرمپ نے جلدی میں اپنے ساتھیوں اور مشیروں سے مشورہ کیے بغیر ایسے فیصلے صادر کردیے، جن سے دُنیا ایک بحران سے دوچار ہوگئی ہے۔ مسلم ممالک کے بارے میں تو اُن کا پہلا فیصلہ ہی ہماری نظر میں غلط تھا۔ 7 ملکوں پر ویزا اور امریکہ میں داخلے کی پابندیاں اس لحاظ سے زیادہ غیر متوازن نہیں کہی جاسکتیں کہ یہ فی الحال تیس دنوں کے لیے ہیں، لیکن شام کے شہریوں پر تو یہ پابندیاں غیر معینہ مدت کےلئے عائد کردی گئی ہیں۔ شبہات تو پہلے سے ہی تھے، لیکن بے چینی اُس وقت بڑھی جب اُنہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہہ دیا کہ پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب کے شہریوں کےلئے بھی ہم ویزا اور امریکہ آنے پر بہت دیکھ بھال کر فیصلہ کریں گے۔ تنگ نظرثانی کے الفاظ بہت ثقیل ہیں اور پاکستان کے حکمرانوں کو اُسے بغور دیکھنا پڑے گا، ایران اور عراق نے تو یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ ہم بھی امریکیوں پر ویزا کی پابندیاں سخت کردیں گے لیکن پاکستان کی پوزیشن، جغرافیے کے لحاظ سے اور پھر افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کے پس منظر میں بالکل ہی الگ حےثےت رکھتی ہے۔ امریکہ کے سابق صدر اوباما نے وائٹ ہاﺅس چھوڑنے سے پہلے اپنے جانشین کو کچھ مشورے بھی دیے، جن میں یہ بات خصوصی توجہ کی حامل تھی کہ پاکستان سے تعلقات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے اور جلدی میں کوئی بھی قدم ایسا نہ اُٹھایا جائے جس سے امریکی مفادات کو دھچکا لگے۔ پاکستان افغانستان کے تناظر میں اب بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔
پھر اسلام آباد نے پہلی مرتبہ امریکہ کے کہنے پر اور کچھ اطلاعات کے مطابق چین کے دباﺅ کے تحت بھی جماعة الدعوة کے قائد پروفیسر حافظ محمد سعید کو چار ساتھیوں سمیت 6 مہینے کے لیے نظربند کردیا۔ پاکستان میں تو حافظ سعید (جو ایک دینی مدرسہ اور فلاح و بہبود کا ادارہ چلاتے ہیں) نے قدرتی آفات میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کام کیا ہے، لیکن اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہند میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اُن کا یا اُن کی جماعت کا نام آتا رہا ہے تو اگر کسی شخص یا تنظیم کی حرکتوں کی وجہ سے دو پڑوسی ممالک کے تعلقات خراب ہوں اور جنگ کی سی صورت حال پیدا ہوجائے تو پھر احتیاط لازمی ہے۔ حکومت پاکستان پر اُن کی نظربندی کے اعلان پر بہت زیادہ تنقید ہوئی، ملک کے کئی شہروں میں اُن کی حمایت میں مظاہرے بھی ہوئے لیکن ملکی سلامتی اور مفادات ہر چیز پر مقدم ہیں۔ اگر امریکہ اب بھی ہم پر دباﺅ ڈالتا ہے تو اس سے ہند کو پاکستان کے خلاف زہر اُگلنے میں مزید چیز ملے گی، جو کسی بھی طرح ہمارے قومی مفادات میں نہیں۔
وزیراعظم نواز شریف، بلکہ اُن کے اہل خاندان پاناما لیکس کے مقدمے (جو کئی دنوں سے ملک کی عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے) پر پریشان دِکھائی دیتے ہیں، فطری بات ہے۔ ایسے میں گو اُنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے منتخب ہونے کے فوراً بعد ہی ٹیلی فونک رابطہ کیا اور کچھ خوش گوار جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، لیکن وزیراعظم ہاوس اسلام آباد سے اُس بات چیت کا متن جاری کردینا، واشنگٹن کو پسند نہیں آیا، ویسے بھی ایسا کرنا سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ بات جہاں تھی وہیں رُک گئی اور اب وائٹ ہاوس کا یہ کہنا کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ نہیں ہے تو ایسے جملے ہضم کرنا ذرا مشکل ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریر (جو حلف وفاداری کے فوراً بعد کی گئی) میں اسلامی دہشت گردی کے الفاظ استعمال کئے جس پر تشویش فطری تھی۔ دہشت گردی کسی مذہب سے نہیں جوڑی جاسکتی، لیکن یہ بات بھی ہمیں تسلیم کرنا پڑے گی کہ اکثر و بیشتر دہشت گردی کے واقعات میں مسلمانوں کا نام لیا جاتا ہے، تو پھر مسلم ممالک کو اپنے شہریوں کو احتیاط کا مشورہ دینا پڑے گا ورنہ مغربیت کی تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا ہمیں اپنی لپیٹ میں ایک نہ ایک دن لے ہی لے گی۔
جدید تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ واحد امریکی صدر ہیں جن کو شروع ہی سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کے خلاف ناصرف امریکہ بلکہ مغربی ممالک اور یورپ میں بھی مظاہرے ہوئے، جن میں اُنہیں نسل پرست اور انسانی حقوق کے خلاف کام کرنے کا ذمے دار ٹھہرایا گیا۔ امریکہ کا دُنیا میں ایک سپرپاور کی حےثیت سے بہت اہم کردار ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں ری پبلکن صدور (جن میں جارج بُش، اُن کے والد بُش سینئر کا نام بھی جلی حروف میں لکھا جاتا ہے) اور اب ٹرمپ بھی ایسے اقدامات کررہے ہیں، جن سے امریکہ کی شہرت میں اضافہ ہونے کے بجائے اُس کے نام پر بدنما داغ لگتا نظر آرہا ہے۔ بل کلنٹن (جو ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے اور آٹھ سال امریکہ کے صدر رہے) نے دُنیا کو امن اور خوش حالی کا پیغام دیا۔ کوسوو اور آئرلینڈ میں برسوں سے جاری خانہ جنگی کو بالآخر بند کروایا، آج کوسوو اور آئرلینڈ میں امن و سکون اور خوش حالی ہے۔ اگر اُنہیں وقت ملتا تو شاید وہ کشمیر پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرتے، لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔
ٹرمپ کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے 1933 کا امریکی صدر روزویلٹ کا وہ حکم یاد آجاتا ہے، جب اُنہوں نے سونے کو قومیانے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ وہ زمانہ تو اب نہیں رہا، آج کل کسی بھی نجی اثاثے کو قومیانہ عجیب سا لگے گا، لیکن جس قسم کے احکامات وائٹ ہاﺅس سے جاری کیے جارہے ہیں، اُن سے کچھ بھی بعید نہیں۔
پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، ہماری فوج دُنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ ہند نے اگر ہم پر میلی نظر ڈالی تو اُسے بھی پتا چل جائے گا کہ انگور کتنے کھٹے ہیں۔ ساتھ ہی ہمیں یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑتا اور شرم بھی آتی ہے کہ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کو جس قسم کے اقدامات کرنے چاہیے تھے، وہ اُس میں ناکام رہی ہے۔ ٹرمپ پاکستانیوں پر ویزے کی پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں، پاکستان کے خلاف متعصبانہ رویہ اختیار کریں گے یا نہیں، یہ تو آنے والے چند مہینوں میں واضح ہوجائے گا، لیکن نئے امریکی صدر کے اقدامات سے دُنیا بھر میں ہلچل سی مچی ہوئی ہے، ابوظبی ایئرپورٹ پر پاکستانیوں کے بچّوں تک سے عجیب عجیب سوال کیے جارہے ہیں۔ دو دو گھنٹے پاکستانیوں (جو جانب امریکہ سفر کررہے ہیں) کو انتظار کروایا جارہا ہے، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اس کا فوری نوٹس لے اور واشنگٹن میں اپنے سفیر، یا وزارت خارجہ کے ذریعے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرے۔
خود امریکہ میں برسوں بلکہ کئی دہائیوں سے بسنے والے پاکستانی (جو امریکی شہری بھی ہیں) بھی متفکر نظر آتے ہیں کہ آخر اُن کا مستقبل کیا ہوگا۔ یہ ہیں وہ سوالات جن کے جواب حکومت پاکستان کو تلاش کرنے پڑینگے۔ 
******

شیئر: