Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک اور خط! ٹرمپ کے نام

 
یہ سب تو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، میں آپ کو چند ایسے حقائق سے آگاہ کرتا ہوں جو یقینا آپ کے علم میں نہیں ہیں
 
جاوید اقبال
 
عزت مآب صدر ریاستہائے متحدہ امریکہ! ایک ترقی پذیر ملک کا یہ ناچیز صحافی اب یہ دوسرا خط آپ کو تحریر کررہا ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی ایک کھلا خط آپ کو لکھا تھا جس میں چند گزارشات تھیں، کچھ قصہ ہائے ماضی تھے لیکن اس ایک ہفتے کے دوران آپ نے چند ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جنہوں نے مجھے ایک اور تحریر آپ کے نام لکھنے پر مجبور کردیا ہے۔
جناب صدر! میں اپنی بات کا آغاز ایک سوال سے کرونگا۔ دسمبر 1979 ءسے فروری 1989 ءکے درمیان کے 9 برسوں میں آپ کے مشاغل کیا رہے تھے؟ آپ کا جواب تفصیلی ہوسکتا ہے لیکن میں اس میں کچھ اضافہ کرنا چاہوں گا۔ اس عرصہ کے دوران آپ حصول تعلیم کے بعد اپنی تعمیراتی کمپنی بناچکے تھے اور کاروبار میں منہمک تھے۔ 1979 ءمیں آپ نے نیویارک کے ففتھ ایونیو پر ایک قطعہ اراضی لیز پر لیا اور اس پر ایک نفیس اور حسین اپارٹمنٹ بلڈنگ بنائی۔ 3 برسوں میںمکمل ہونے والی اس عمارت پر 20 کروڑ ڈالر کی لاگت اٹھی تھی۔ 58 منزلہ تعمیر کے اس شاہکار کانام ٹرمپ ٹاور رکھا گیا۔ سرخ پتھر سے بنایاگیا 6 منزلہ آٹریم اور 50 فٹ اونچائی سے گزنے والے آبشار اس تعمیر کو حسن و نفاست کی اگلی منزلوں تک لے جاتے ہیں لیکن جناب صدر! آپ جیسا فعال تاجر کیسے خاموشی سے بیٹھا اس تعمیر کو مختلف مراحل سے گزرتا دیکھ سکتا تھا؟ آپ نے اس دوران جوا خانوں کے کاروبار پر خوب تحقیق کرلی چنانچہ 1980ءمیں آپ نے اٹلانٹک سٹی میں اراضی حاصل کی اور اپنے چھوٹے بھائی رابرٹ کو وہاں عمارت کی تعمیر کا کام سونپ دیا۔ تعمیر مکمل ہوئی تو اس کا نام ٹرمپ پلازا رکھا گیا اور اس میں 25 کروڑ ڈالر صرف کرکے جواءخانہ کھولا گیا۔ اور پھر جناب صدر ! اگلے تقریباً 9 برسوں میں آپ انتہائی سکون او ر فرحت سے تعمیراتی ٹھیکوں اور دیگر ذرائع سے اپنی دولت میں اضافہ کرتے رہے۔ امریکہ میں سکون رہا اور آپ کی تجارتی سرگرمیاں اپنا دامن دراز کرتی رہیں۔
لیکن عزت ما¿ب: انہی برسوں میں امریکہ اس لئے پرسکون اور ثروت مند رہا کہ اسے اس حالت انبساط میں رکھنے کیلئے کرہ ارض کے کسی اور گوشے میں سادہ اور معصوم انسان خون میں ڈوبتا رہا۔ 24 دسمبر 1979ءکو سوویت اتحاد کے وزیر اعظم لیونڈ برزنیف نے اپنی 40 ویں آرمی کو دریائے آمو عبور کرایا اور افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ عالم اسلام اور مغرب ششدر رہ گئے۔ انتہائی قابل مذمت اور ناقابل برداشت اقدام اٹھایا گیا تھا چنانچہ اسلامی کانفرنس تنظیم نے فوراً اجلاس منعقد کیا اور 34 ممالک نے قرارداد میں سوویت فوج سے فوراً اور غیر مشروط واپسی کا مطالبہ کردیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی غیر معمولی اجلاس میں 104-18 کی اکثریت سے سوویت اتحاد کے اس اقدام کی مذمت کی اور ماسکو سے مطالبہ کیا کہ اپنی فوج افغانستان سے واپس بلائے۔ 80 ہزار کی فوج اپنے 1800 ٹینک اور 2 ہزار گاڑیاں ساتھ لے کر واپس جانے کیلئے تو نہیں آئی تھی چنانچہ اسے نکالنے کیلئے اتحاد کا قیام ضروری ہوگیا۔
تو جناب صدر! یہیں پر افغان مجاہدین کی تنظیمیں بنیں جنہوں نے گوریلاجنگ کی تربیت حاصل کی اور روسی فوج پر حملوں کا آغاز کردیا۔ سی آئی اے اور پاکستانی سیکرٹ سروس کی تنظیم آئی ایس آئی کے زیر نگرانی مجاہدین سے رابطے قائم رکھے گئے اور انہیں سامان حرب پہنچایا جاتا رہا۔ سوویت فوج نے جہادی تنظیموں اور مجاہدین کو کچلنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ دیہات کے دیہات مسلسل بمباری سے اجاڑ دیئے ، جلا دیئے تاکہ مجاہدین وہاں ٹھکانہ نہ کرسکیں۔ لاکھوں کو بے گھر کیا۔ بچے، بوڑھے، بلا تفریق موت کے گھاٹ اتارے ۔ عورتوں کی بے حرمتی کی۔ نتیجہ انتہائی بھیانک تھا۔ 3.5 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین نے طورخم کی سرحد عبور کی اور پشاور کے نواحات میں آخیمہ زن ہوئے۔ تقریباً 2 لاکھ ایران چلے گئے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت تھی۔ 1980ءمیں کرہ ارض پر مہاجر ین کی کل آبادی کا نصف افغان تھے۔ ان کے وطن کے اندر آگ و خون کا بازار گرم تھا۔ افغان مجاہدین کے بدن روسی تباہ کن بمباری سے خون آلود قاشوں میںبٹے جھاڑیوں اور درختوں کی شاخوں پر اٹکتے رہے۔
لیکن جناب ٹرمپ! یہ سب تو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ میں آپ کو چند ایسے حقائق سے آگاہ کرتا ہوں جو یقینا آپ کے علم میں نہیں ہیں۔ جن برسوں میں آپ اپنے تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل کرکے اپنی دولت کو دگنا ، چوگنا کررہے تھے افغان بچے تعلیمی سہولتوں سے محروم ہوچکے تھے چنانچہ ان کی ایک کثیر تعداد کو مملکت سعودی عرب نے وظائف دے کر اپنی جامعات میں داخلہ دے دیاتھا۔ جب بھی ان طلبہ کو موقع ملتا یا جامعہ میں تعطیلات ہوتیں، یہ پشاور پہنچ جاتے اور جہادی تنظیموں میں شامل ہوکر سرحد پار کرکے معرکوں میں شامل ہوتے ۔ ایسا ہی ایک محمد نسیم بھی تھا۔ 19 سالہ ، قوی اور طویل القامت، چھوٹی سی ریش اس کے سرخ و سفید چہرے کو نکھار بخشتی تھی۔ پشاور گیا ، واپس آیا تو بیساکھی کے سہارے تھا۔ روسی فوج کی بچھائی ایک مائن اس کی گھٹنے تک ٹانگ اڑا گئی تھی لیکن وہ مسرور تھا بولا، استاد! اسٹنگر میزائل استعمال کیا اور 5 ہیلی کاپٹر گرائے۔ بڑا آسان ہے شانے پر لانچر رکھ کر چلایا جاتا ہے۔ تو بیساکھی پر اٹکے محمد نسیم نے سوویت اتحاد کے 350 مار گرائے جانے والے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔ ایسے درجنوں تھے جو پشاور سے گزرے اور لوٹ نہ سکے۔ جو لوٹے ان میں سے اکثر آدھے بدن لئے آئے۔
تو مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ! جب 12 فروری 1988 ءکو آخری شکست خوردہ فوجی دریائے آمو عبور کرکے واپس روسی سرحد میں داخل ہوا تو امریکی امداد کے سوتے خشک ہوگئے تھے ۔ بل کلنٹن کی حکومت نے تو امداد پر مکمل پابندی لگا دی اور 3.5 لاکھ افغان مہاجرین کو سنبھالنے کی ذمہ داری پاکستان پر آپڑی تھی۔ دوسری سپر پاور کاانہدام ہوچکاتھا۔ کہاں کا افغانستان؟ صدر محترم! پاکستان آپ کی مہربانیاں کہاں تک گنوائے جب ہمارا بدن 2 حصوں میں کٹ رہا تھا تو ہماری آنکھیں 7 ویں امریکی بحری بیڑے کے انتظار میں پتھراتی رہیں! افغانستان، فلسطین، کشمیر، کہاں کہاں ہمیں عاجز نہیں کیاگیا؟ اور کہاں کہاں ہم امریکہ کی امیدوں پر پورے نہیں اترے؟ دبیل بنے ہیں!
اور جناب صدر! پھر بھی آپ نے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے ملک میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے؟ مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ! ہمارے ہاں ایک عظیم شاعر اسد اللہ غالب ہوگزرے ہیں۔ مصور فطرت کہلاتے ہیں۔ آپ کی نذر:
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
باقی سب خیریت ہے۔
٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: