Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈی آر ایس کی عدم موجودگی،ہند کیلئے جگ ہنسائی

 
جنگ اور پیار میں سب جائز ہے کے فارمولے کے عین مطابق امپائرنگ کرنے والے شمس الدین نے یہ نہیں سوچا کہ خودان کی ساکھ پر کیسی کاری ضرب لگے گی، وقت آگیا کہ تمام فارمیٹس میں ٹیموں کو ڈی آر ایس کا پابند کیا جائے
 
اجمل حسین۔نئی دہلی
 
اگر ہند اور انگلینڈ کی حالیہ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی امپائر کے فیصلے پر نظر ثانی کا نظام ( ڈی آر ایس )لاگو کیا گیا ہوتا توشاید ہندوستان اور انگلستان کے درمیان 3 میچوں کی ٹی ۔20سیریز کا فیصلہ ناگپور میں کھیلے گئے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ سے ہی ہو چکا ہوتا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے پینل میں شامل کچھ امپائروں نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ ڈی آر ایس کے عدم نفاذ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے فیصلے دیں گے جس سے نہ صرف میزبان ٹیم کو فائدہ پہنچے بلکہ ملک جگ ہنسائی بھی ہو ۔لیکن اپنے اس جوش میں وہ امپائر یہ بھول گئے کہ خود اس سے ان کی ساکھ پر کیسی کاری ضرب لگے گی۔ انگلستان کو میچ جیتنے کے لیے آخری اوور میں صرف8رنز کی ضرورت تھی اور کریز پر اننگز کے تیسرے اوور سے20ویں اوور تک ڈٹے فنشر کا رول ادا کرنے والے جو روٹ اور جارحانہ انداز میںبلے بازی کرنے والے وکٹ کیپر بلے باز جوز بٹلر تھے اور میچ مکمل طور پر انگلستان کی گرفت میں تھا۔
پچھلے اوور میں ہی اننگز کے کامیاب ترین فاسٹ بولر اشیش نہر کے آخری اوور میں 16رنز بنا کر ان دونوں بلے بازوں کے حوصلے بھی بلند تھے ۔ ہندوستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے چہرے مرجھائے اور ہندوستانی کرکٹ شوقین ساکت و جامد ہو گئے تھےکیونکہ اسپنرز امیت مشرا اور سریش رینااپنا کوٹہ مکمل کر چکے تھے ۔جسپریت بمرا کو آخری اوور کا کوئی تجربہ نہیں تھاجس سے میچ بچانے کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ چکی تھیں کہ امپائرنے اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اننگز کے آخری اوور کی پہلی ہی گیند پر روٹ کو زبردستی پویلین کی راہ پکڑنے پر مجبور کر دیا۔ٹی وی پر یہ میچ دیکھنے والا کوئی بچہ بھی بتا سکتا تھا کہ گیند بلے کا اندرونی کنارہ لیتے ہوئے پیڈ پر لگی ہے۔لیکن امپائر نے پورے اعتماد کے ساتھ اس انداز میں انگلی آسمان کی جانب اٹھائی گویا گیند سیدھے وکٹ کے عین سامنے پیڈ سے ٹکرائی ہے۔سوائے امپائر کے ہر شخص حیرت زدہ تھا حتیٰ کہ خود آس پاس کے فیلڈرز بھی اچنبھے میں پڑ گئے ہوں گے کیونکہ انہوں نے بھی صاف سنا اور دیکھا کہ گیند بیٹ سے ٹکرا کر پیڈ سے لگی ہے۔ خود بولرنے بھی رسم دنیا نبھاتے ہوئے یا باالفاظ دیگرمحض رسمی اپیل کی تھی لیکن امپائر شمس الدین نے بھی انگلی اٹھانے میں تاخیر نہیں کی۔
یہ وہی بمرا ہیں جنہوں نے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں روٹ کو کلین بولڈ تو کیا تھا لیکن دونوں بار نو بال کی تھی۔ تھرڈ امپائر سے رجوع کرنے پر ان کاپیر کریز سے چھ سات انچ آگے تھا۔لیکن یہاں معاملہ ایل بی ڈبلیو آوٹ دینے کا امپائر کا فیصلہ تھا جس پر نظر ثانی کی ا جازت نہیں تھی۔ اب اس میں ہندوستانی کپتان یا کوئی کھلاڑی اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کر کے روٹ کو کریز پر واپس نہیں بلوا سکتا تھا کیونکہ یہ کیچ یا رن آوٹ نہیں تھا کہ کھلاڑی اعتراف کر سکے کہ کیچ لینے سے پہلے گیند زمین چھو چکی تھی یا رن آوٹ کرتے وقت اسٹمپس گیند سے نہیںبلکہ ہاتھ لگنے سے گری تھیں۔ امپائر نے نازک اور سنسنی خیز موڑ پر جس انداز میں روٹ کو ایل بی ڈبلیو آوٹ قرار دیاوہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ امپائر بڑے اور معروف کھلاڑیوں پر مشتمل ہندوستانی ٹیم کو شکست سے دوچار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے جنگ اور پیار میں سب جائز کے فارمولے کے عین مطابق امپائرنگ کے فرائض انجام دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ 
سیریز میںہندوستانی ٹیم کے امکانات روشن رکھنے اور ہندوستانی کھلاڑیوں سے امپائرشمس الدین کا پیار ہی تھا جس نے انہیں دانستہ یا نادانستہ طور پر ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کیے رکھا جس کا فائدہ صرف ہندوستانی ٹیم کو ہی پہنچ سکتا ہو۔ خواہ وہ ویراٹ کوہلی اور یووراج سنگھ کو ایل بی ڈبلیو آوٹ نہ قرار دینے کا فیصلہ ہویا روٹ کو آوٹ قرار دینے کا معاملہ ہو۔ ان فیصلوں کے باوجود ہندوستانی ٹیم سے اس کی جیت کا کریڈٹ نہیں چھینا جا سکتا کیونکہ حریف ٹیم کو ایسے متنازعہ فیصلے اسی وقت خراب محسوس ہوتے ہیں جب اس کی ٹیم ہار جائے لیکن یہی فیصلے اگر مہمان ٹیم کے حق میں ہوتے اور پھر مہمان ٹیم میچ بھی جیت جاتی تو وہ اور اس ٹیم کا کپتان اسے ”خوش قسمتی“ سے تعبیر کرتا۔ اگر ڈی آر ایس پوری طرح لاگو ہوتا تو شاید دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جاتا۔لہٰذا اب اس قسم کے فیصلوں ،جن سے کھیل کو نقصان پہنچ رہا ہو بچنے کے لیے لازم ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو بھی ڈی آر ایس کے تحت لایا جائے اور بلا لحاظ تمام ٹیموں کو ڈی آر ایس استعمال کرنے کا پابند بنایا جائے۔
******

شیئر: