Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حافظ سعید کی نظربندی

 
عالمی ماحول بدل چکا، ایسی حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی کہ سانپ بھی مر جائے او رلاٹھی بھی نہ ٹوٹے
 
ارشادمحمود
 
یوم یکجہتی کشمیر سے محض چند دن قبل جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی نظربندی اس امر کی نشان دہی کرتی ہے کہ حکومت پاکستان کو غیر معمولی عالمی دباوکا سامنا کرنا پڑاورنہ انہیں کم ازکم5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کی اجازت ضرور دی جاتی۔ حافظ سعید پاکستان کے مطلع سیاست پہ90 کی دہائی میں طلوع ہوئے۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک اپنے عروج پر تھی کہ پاکستان کے ریاستی اداروں نے اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی زیرصدارت ایک اجلاس میں لبرل اور قوم پرست گروہوں کا ناطقہ بندکرنے کافیصلہ کیااور ان کے مقابلے میںدائیں بازو کی سخت گیر مگر پاکستان نواز جماعتوں کی سرپرستی شروع کی تو حافظ سعید کی لاٹری نکل آئی۔یہ حافظ صاحب کا اسٹبلشمنٹ کے ساتھ گہرے تال میل ہی کا کرشمہ تھاکہ انہیں راتوں رات ملک گیر شہرت مل گئی۔وہ ایک طاقت ور شخصیت کے طور پردنیا بھر میں شناخت کئے جانے لگے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے کشمیر کی تحریک حافظ صاحب کی سرگرمیوں کا محورہے۔ان کے سینکڑوں حامیوں نے کشمیرمیں دادشجاعت دی۔وہ منجھے ہوئے لڑاکے ہیں۔عام کشمیریوں میں ان کا احترام پایاجاتاہے کیونکہ وہ ہندوستان کو زک پہنچاتے ہیں۔انہوں نے مقامی سیاست کی آلودگیوں سے اپنا دامن بچائے رکھااور فرقہ واریت پھیلانے سے گریزکیا۔نائن الیون کے حملوں کے بعد جب اکثر جہادی گروہوں نے ریاستی اداروں کو بندوق کی نوک پر رکھ لیا تھا اس وقت حافظ سعید نے اپنے حامیوں کو ملک دشمن سرگرمیوں کا حصہ بننے سے روکا اور ان کی توانائیوں کو سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں لگایا۔
گزشتہ سال کشمیر میں برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد ایک زبردست عوامی احتجاج ابھرا۔پہلی بار کشمیری لیڈرشپ نے حکومت پاکستان کو باضابطہ آگاہ کیا کہ وہ حافظ سعید کی کشمیر سے متعلقہ سرگرمیوں کو محدود کرے۔سید علی گیلانی نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سے کہا کہ وہ حافط سعید کو کشمیر پر بیان بازی سے روکیں۔انہوں نے متحدہ جہاد کونسل کو پیغام دیا کہ وہ عسکری کارروائیوں سے باز رہے اور عوامی تحریک کوابھرنے کا موقع دیں۔اڑی حملے کو کشمیریوں کے صائب الرائے طبقے نے صرف مسترد کیا بلکہ اسے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قراردیا۔اس واقعہ سے قبل دنیا کے دارالحکومتوں میں کشمیریوں کے احتجاج سے ہمدردی کی ایک لہر محسوس ہوتی تھی لیکن اڑی حملے کے بعد دنیا بھر میں ایک بار پھر کشمیریوں کا مقدمہ نہ صرف کمزور ہوگیا بلکہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے اپنی اخلاقی برتری برقرارنہ رکھ سکا۔پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے ایک محفل میں کہا کہ اڑی کے بعدانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور طاقت کے ناجائز استعمال کے باوجود دنیا نے ہند کی مذمت سے انکار کردیا کیونکہ اسے ایسا کرنے کا اخلاقی جواز میسر آگیا تھا۔
حافظ سعید نے بہت کوشش کی کہ وہ ملکی سیاست اور سماجی سرگرمیوں میں کردار ادا کریں۔جماعت الدعوہ کا قیام بھی اسی غرض سے عمل میں لایاگیا لیکن وہ اپنے آپ کو پوری طرح مسلح گروہوں سے الگ نہیں کرسکے۔علاوہ ازیں دنیا نے بھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ جماعت الدعوہ اور لشکر طیبہ دو الگ الگ تنظیمیں ہیں۔علاوہ ازیں حافظ صاحب نے ہند اور امریکہ کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے امریکہ اور ہند دونوں ان کے دشمن بن گئے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے ذمہ داران یہ بتاتے ہیں کہ مغربی ممالک کے لیڈروں کے ساتھ کوئی ایک بھی اعلی سطحی میٹنگ ایسی نہیں ہوئی جس میں وہ حافظ محمد سعید، مولانامسعود اظہر اور ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں زیرحراست ذکی الرحمان کے خلاف کارروائی پر اصرار نہ کرتے ہوں۔
چین جو پاکستان کا قریبی دوست اور غمگسار ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جیشں محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے سے ویٹو کرکے بچاتارہاہے۔چین کے سفارت کار پوچھتے ہیں کہ ایک ابھرتی ہوئی معیشت، ذمہ دار اور متبادل سپرپاور کا اب یہی ایک کام رہ گیا کہ وہ مسعود اظہر کےلئے سلامتی کونسل میں ویٹو کرے۔خود چین کو سنکیانگ میں مسلح کارروائیوں کا سامنا ہے وہ کیسے ایسے گروہوں کو بچاسکتاہے جن کے خلاف وہ خود نبردآزماہے۔
گزشتہ 15برسوں سے عالمی ماحول یکسر بدل چکاہے۔کوئی پسند کرے یا نہ کرے اب عالمی منظر نامہ میں کسی مسلح گروہ کی حمایت یا تائید حماقت کے سوا کچھ نہیں۔دنیا نہ صرف ایسے فیصلوں کو پذیرائی نہیں بخشتی بلکہ ایسے ممالک کے خلاف تادیبی کارروائیاں اور وہ بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فورم سے کی جانے لگتی ہیں۔
اس پس منظرمیں پاکستان کو ایسی حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یہ تلخ حقیقت پیش نظر رہے کہ حافظ سعید کی گرفتاری محض ایک شخص کو جیل میں مقید کردینا نہیں بلکہ ان کے ہزاروں حامیوں کو مشتعل کرنے کے مترادف ہے۔ان میں سے بعض کٹر شدت پسند بھی ہیں۔ان سب کو ریاستی جبر کا شکار نہیں بنایاجاسکتا اور نہ اس کا کوئی جواز ہے۔ایسا ماحول بھی پیدا نہیں کیا جانا چاہیے جس کے نتیجے میں حافظ صاحب کے حامی ریاستی اداروں سے الجھ پڑیں یا پھر ملک دشمن گروہوں کے مذموم منصوبوں کا حصہ بن جاسکیں۔اس طرح پاکستان کے مسائل میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی ایسا حل کارگر ہوتا نظر نہیں آتا جو فتح اور شکست کے روایتی پیمانوں کے گرد گھومتاہو۔بات چیت، سیاسی دباو، عالمی حمایت اور کشمیر کے اندر پرامن تحریک مزاحمت وہ عناصر ہیں جن کی بنیاد پر پیش رفت ممکن ہے۔کشمیریوں میں آزادی کی امنگ اور تڑپ بے پناہ ہے۔وہ نچلے بیٹھنے والے نہیں۔نہ ہی خاموشی سے مفاہمت یا کوئی سودے بازی پر تیار ہوں گے۔ ہند کے سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا نے ایک وفد کے ہمراہ سری نگر کے دودورے کئے اور واپسی پر جو رپورٹ لکھی اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ محض اکنامک پیکیجز یا مالی امداد کی فراہمی کے اعلانات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ حکومت ہند کو اس کا سیاسی حل تلاش کرنا پڑے گا اوربھی بہت سارے دانشمند ہندوستانی اپنی حکومت کو ایسے ہی مشورہ دے رہے ہیں۔دہلی میں برف پگھل رہی ہے اور رائے عامہ بیدار ہورہی ہے۔حافظ سعید کی نظر بندی سے یہ لابی مضبوط ہوگی اور اسے زیادہ استدلال سے یہ نقطہ نظر پیش کرنے میں مدد ملے گی کہ کشمیریوں اور پاکستان سے بات چیت کی جائے اور مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور سیاسی حل تلاش کیا جائے۔
پاکستان کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہند کے ساتھ مذاکرات کا بند دروازہ کھل جائے تاکہ وہ سی پیک کے خلاف امریکہ کے اشتراک سے کوئی سازش نہ رچاسکے اور کشمیر کے مسئلہ کے حل کی جانب پیش رفت کی طرف بھی مائل ہو۔غالبااسی پس منظر میں بلوچستان کے کور کمانڈر لیفٹینٹ جنرل عامر ریاض نے ہندکو بھی سی پیک کا حصہ بننے کی دعوت دی ہے۔ کشمیر کی وزیراعلی محبوبہ مفتی نے کشمیر کے ذریعے ہند کو وسطی ایشیائی ممالک اورچین کے ساتھ منسلک کرنے کا آئیڈیا پیش کیا۔ان آئیڈیاز پر بھی غور ہونا چاہیے کیونکہ بعض اوقات معاشی مفادات اور امکانات سیاسی تنازعات کے حل میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔دنیا کے کئی خطوں میں اس کے کامیاب تجربات ہمارے سامنے کی بات ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: