Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”فرمانِ سداد“

 
کھیل کے کچھ قواعد ہوتے ہیں، ضوابط ہوتے ہیں،انہیں قوانینِ کرکٹ کہا جاتا ہے،ہر کرکٹی میدان میں 2امپائر ہوتے ہیں جوکرکٹی قواعد و ضوابط پرعملدرآمد یقینی بناتے ہیں
 
شہزاد اعظم
 
ہمارے ایک دوست ہیں جن کا نام ”سداد“ ہے۔ وہ ہر بات کی تہہ میں جاکر ایسے ایسے گوہر تلاش کر لاتے ہیں کہ سننے والا یا تو خود پاگل ہوجاتا ہے یا ”سداد“ کو پاگل قرار دے دیتا ہے۔ ایک روز قبل انہوں نے ”چالاک فون “پر”مفت کلامی“ خدمت کی رکنیت اختیار کی۔ ہمارے پاس پیغام آیا کہ مجھے ”قبول“ کر لو۔ہم نے اسے تلف کرنا چاہا مگربھولے سے ہماری انگشتِ شہادت کا اولیں پور ”قبول“ سے چھو گیا۔ وہ تو جیسے ہماری اسی بھول کے منتظر تھے، فوراً ہی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ ہم نے اخلاقاً بات کر لی جو 110منٹ جاری رہی ۔ اس”فرمانِ سداد“سے اقتباس نذر ہے : 
”ہمارے وطن میں موجود نامی گرامی فرزندان و دختران قوم وہ ہیں جو وطن میں جانی اور بیرون ملک مانی جاتی ہیںجبکہ کچھ ایسی ہیں جو وطن میں مانی اور بیرون ملک جانی جاتی ہیں۔ان نامی گرامی پاکستانی شخصیات کو دو واضح حلقوں میں تقسیم کیاجا سکتا ہے ۔ ان میں ایک ”کرکٹی“ ہستیوں کا حلقہ ہے اور دوسرا” غیر کرکٹی ہستیوں“کا۔ ان میں ”کرکٹی ہستیاں“وہ ہیں جو وطن میں جانی اور بیرون ملک مانی جاتی ہیں۔یہ جوکچھ کھیلتی ہیں، سب کے سامنے کھیلتی ہیں اورعیش کرنا ہو تو چھپ کر عیش کرتی ہیں۔
دوسری ”غیر کرکٹی ہستیاں “ ہیں۔ یہ جو کچھ کھیلتی ہیں، سب سے چھپ کر کھیلتی ہیں اورعیش کرنا ہو تو سب کے سامنے عیش کرتی ہیں۔ ایک اور اہم فرق یہ ہے کہ ”کرکٹی ہستیاں“ بیرون ملک جا کر کھُل کر نہیں کھیل سکتیںالبتہ وطن میں خوب دندنا کر کھیلتی ہیں جبکہ غیر کرکٹی ہستیاں وطن میں دندنا کر نہیں کھیل سکتیں تاہم بیرون ملک جا کر خوب کھُل کھیلتی ہیں۔
کرکٹی ہستیاں بیرون ملک سے زر ِمبادلہ لے کر آتی ہیں جبکہ غیرکرکٹی ہستیاں وطن سے باہر لے جا کر مبادلہ¿ زر کرتی ہیں۔”کرکٹی ہستیاں“ بیرون ملک جا کرجب ناکام ہو کر وطن لوٹتی ہیں تو اپنوں سے منہ چھپاتی پھرتی ہیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ یہ تو پاکستان ہے ،یہاں کسی نے ہمیں دیکھ لیا تووہ اُسی لمحے ہمیںچھٹی کادودھ یاددلا دے گا جبکہ” غیرکرکٹی ہستیاں“ وطن میں ناکام ہوکر بیرونِ ملک چلی جاتی ہیں اور وہاں لوگوں کو منہ دکھاتی پھرتی ہیں ۔ وہ سوچتی ہیںکہ یہ پاکستان تو ہے نہیں، یہاں ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کرکٹی سرگرمیاں ہمیشہ ایک میدان میں رو بہ عمل لائی جاتی ہیں۔ یہ میدان دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس میدان کی حدود ہوتی ہیں، قیود ہوتی ہیں۔کھیل کے کچھ قواعد ہوتے ہیں، ضوابط ہوتے ہیں۔ انہیں قوانینِ کرکٹ کہا جاتا ہے۔ہر کرکٹی میدان میں دو امپائر ہوتے ہیں جوکرکٹی قواعد و ضوابط پرعملدرآمد یقینی بناتے ہیں۔ ہر کھلاڑی کے لئے ان قوانین کے مطابق عمل کرنا ناگزیر ہوتا ہے ۔ اگر وہ ان اصولوں کو پامال کرنے کی بال برابر بھی کوشش کرے توامپائر اسے کان سے پکڑ کر میدان سے باہر نکال دیتا ہے ۔ اسی طرح اگر کرکٹی ہستی مخالف ٹیم کے بولر کے حملے کا شکار ہو جائے تو امپائر اپنی انگلی فضا میں بلند کر دیتا ہے اور کھلاڑی کو کسی دوسرے کے لئے جگہ خالی کر کے میدان سے باہر نکلناپڑ جاتا ہے۔
دوسری جانب ”غیرکرکٹی “ سرگرمیاں ہیں ۔ ان کے بارے میں بھی کہا یہی جاتا ہے کہ یہ ایک میدان میں بپاہوتی ہیںمگر یہ میدان کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ”غیرکرکٹی“ سرگرمیوں کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں، کچھ قیود ہوتی ہیں، کچھ قواعد ہوتے ہیں ، کچھ ضوابط ہوتے ہیں۔ انہیں ”قوانینِ ریاست“کہا جاتا ہے۔”غیر کرکٹی“ کھیل کے لئے کیونکہ کہنے کو میدان ہوتا ہے مگر یہ نظر نہیں آتا اسی لئے اس میدان میں بھی ”امپائر“ ہوتے ہیں مگر وہ غیر مرئی ہوتے ہیں یعنی دکھائی نہیں دیتے۔ اصولاً تو ”غیرکرکٹی ہستیوں“ کی طرح کرکٹی ہستیوں کیلئے بھی قواعد و ضوابط اورقوانین پر عمل کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہستی اصول پامال کرنے کی ذرہ برابربھی کوشش کرے تو” امپائر کی غیر مرئی انگلی“ فضا میں بلند ہوتی ہے اور پھر اس ”غیر کرکٹی “ ہستی کو کان پکڑ کرمیدان سے باہر نکال دیاجاتاہے۔ 
کرکٹی اور غیر کرکٹی ہستیوں میں بعض مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں مثلاًکرکٹی ہستیاں بیرون ملک ”شرم ناک ،حیرت ناک ،عبرت ناک ، سبق ناک ،افسوس ناک، خوف ناک“شکست کے ذریعے پاکستانی قوم کے جذبات کو پامال کر دیتی ہیں بالکل اسی طرح ”غیرکرکٹی ہستیاں “ وطن میں شرمناک، حیرتناک، افسوسناک، عبرتناک اور سبقناک“ قسم کی ناکامیوںکے ذریعے پاکستانی قوم کی تمام دختران ا ور فرزندان کے جذبات کا تیا پانچہ کر دیتی ہیں اور ا نجام کار وطن میں موجود اپنے گھروں میں جا گھستی ہیں۔
کرکٹیوں کاایک جتھا ہوتا ہے جس میں عموماً15کھلاڑی ہوتے ہیں ۔ ان میں 11”کارکرد“ قسم کے ہوتے ہیں جبکہ باقی ماندہ ”غیر کارکرد“ قرار پاتے ہیں۔ ان کے لئے عموماً”12ویں کھلاڑی“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔”12واں“ کھلاڑی کسی ہنگامی صورتحال میں میدان میں پانی کی بوتلیں فراہم کرنے ، تولیہ لے جانے اور لانے یا بیٹ و ہیلمٹ کی تبدیلی کے بہانے کپتان کا کوئی پیغام یا درخواست پہنچانے کا کام کرتاہے۔ ٹیم اگر جیت جائے تو اسے کوئی انعام نہیں ملتا اور اگر ٹیم بدترین شکست سے ددوچار ہو جائے تو کوئی اس پر لعن طعن بھی نہیں کرتا۔12واں کھلاڑی بیرون ملک اپنی ٹیم کی رسوا کن شکست کے بعدبھی دن کی روشنی میں بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اُترتا ہے اور سینہ تان کر لاﺅنج سے باہر آتا ہے کیونکہ وہاں کوئی اس کو جوتوں کا ہار پہنانے یا پھول نچھاور کرنے کے لئے موجود ہی نہیں ہوتا۔کرکٹیوں کے جتھے کا ایک سربراہ ہوتا ہے جسے کپتان کہا جاتا ہے۔ وہ ٹیم کے کھلاڑیوں کوکھیل کے حوالے سے مختلف النوع ہدایات دیتا ہے ،ہر کھلاڑی ان ہدایات کو بظاہر غور سے سنتا ہے مگر کرتا وہی ہے جو اس کی مرضی ہوتی ہے۔
”غیرکرکٹی ہستیوں“ کا بھی ا یک جتھا ہوتا ہے جس میں 11یا111یا1100یا 11000 یا اس سے زیادہ ہستیاں ہو سکتی ہیں۔
اس جتھے کو پارٹی کہا جاتا ہے۔اس میں گاہے 11یا 111ہستیاں کارکرد قسم کی ہوتی ہیں جبکہ باقی ”ناکارکرد“ یعنی ”12واں کھلاڑی“ ہوتی ہیں۔ اس جتھے کا بھی ایک کرتا دھرتاہوتا ہے جسے” کپتان، قائدیاسربراہ“جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ اس جتھے کے تمام افراد اپنے کپتان کی ”للو پتو“ میں مگن رہتے ہیںکیونکہ ا نہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر ہم نے کپتان کی مرضی سے سرِ مو انحراف کر لیا تو سمجھ لو کہ ہماری چھٹی۔ اسی لئے وہ کوئی بھی خواہش کپتان کی زبان پر آنے سے پہلے ہی پوری کرنے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں چنانچہ کپتان کے ابروﺅں پر نظریں جمائے رہتے ہیں تاکہ وہ ان کی کسی بھی جنبش کا بروقت پتہ لگا سکیں۔
سداد نے ایک آہ بھر کر کہا کہ ”ملکی اور غیر ملکی منظر نامے میں ایک مشکل آڑے آ رہی ہے وہ یہ کہ ایک ایسی ہستی بھی سامنے آگئی ہے جوپہلے ”کرکٹی “ تھی اور اب ”غیر کرکٹی“ ہو چکی ہے ۔ وہ پہلے غیر ملکی”مرئی میدانوں“ میں ببانگ دہل کھیلتی تھی ، زرمبادلہ وطن لاتی تھی ،اب وہ وطن کے غیر مرئی میدانوں میں کھیل رہی ہے اور بیرونِ وطن سے زر کا وطن تبادلہ کرنے کے پیچھے پڑی ہے، نجانے اب کیا ہوگا؟ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: