Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاشانۂ بابل کے آسمان کا ٹوٹا ہواتارہ’’نجمہ‘‘

حُسن جب ہر وقت سامنے ہو تا ہے تو نگاہوں میں سما جاتا ہے اور اپنی اہمیت کھو دیتا ہےپھر گل و بلبل داستانِ عشق نہیں دہراتے بلکہ گل اپنی چاک دامانی پہ شاکی ہوتا ہے تو بلبل اپنی بے سروسامانی کا رونا روتا ہے۔

شہزاد اعظم

نجمہ کو گل و بلبل،غزل و تغزل، صحنِ چمن،دلکش لحن،سرو قامت، برگِ گل کی سی نزاکت، تصویرِ کائنات، رنگِ حیات،زلفِ دراز، محرمِ راز،تحفظ وپناہ،بے لوث چاہ،قربانی و ایثار، جذبوں کا اظہار،اپنائیت کا حصار،اندھا اعتبار اورحُسن کا سنگھارجیسی تمام لفاظیاں لا یعنی لگتی تھیں۔ وہ انہیں ناثروں اور شاعروںکی مؤرد تخئیل سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی تھی۔آج وہ اپنی سہیلی کی شادی میں شرکت کے لئے شہر کے ایک شادی ہال میں موجود تھی۔ ہال کے کونے میں گول میز کو گھیرنے والی 8کرسیوں میں سے ایک پر وہ تنہا بیٹھی سوچ رہی تھی کہ آج میری سہیلی ، کسی کی تصویرِ حیات وکائنات میں رنگ بھرنے کے عزم سے معمور ہو کر والدین کے گھر سے رخصت ہونے کے لئے اس ہال میں اپنوں اور اپنیوں کے درمیان موجود ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سے سسرال کی جانب اس کی زندگی کا نیاسفر شروع ہوگا۔ گل و بلبل کی داستانِ عشق دہرائی جائے گی، محبت و وفا کے پیمان کئے جائیں گے، وجاہت ، حُسن سے مسحور ہوگی اور حُسن،وجاہت سے محصور ہوگا۔یہ چاندنی چند ماہ کی ہوگی پھر جس طرح راستہ خواہ کتنا ہی طویل ہو، روزانہ آنے جانے والے کے پیروں کو لگ جاتا ہے اور اس کی اہمیت پامال ہو جاتی ہے، اسی طرح حُسن بھی جب ہر وقت سامنے ہو تا ہے تو نگاہوں میں سما جاتا ہے اور اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ پھر گل و بلبل داستانِ عشق نہیں دہراتے بلکہ گل اپنی چاک دامانی پہ شاکی ہوتا ہے تو بلبل اپنی بے سروسامانی کا رونا روتا ہے۔صحنِ دل سے بہار منہ پھیر لیتی ہے اور خزاں اس کو گھیر لیتی ہے پھر برگ و بارِ اُمیدجھڑنے لگتے ہیں۔

یوں زمیں پر آگرنے والے پتے ویسے تواسی گلشن کے صحن میں موجود ہوتے ہیں مگر ان کا شاخِ شجر سے اب کوئی تعلق نہیں رہتا۔ ان پتوںمیں زندگی باقی ہوتی ہے نہ زندہ رہنے کی طلب۔ اگر یہ پتے انسان ہوتے تو یقینا’’نجمہ‘‘ ہی کہلاتے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آج میری سہیلی ، شادی کی شکل میں ایک مرد کو طلاق کا اختیار سونپ رہی ہے۔ اگر وہ کم ظرف ثابت ہوا تو کیا ہوگا؟ میں جیتے جی کسی مبتلائے زعم مرد کو یہ اختیار نہیں دینا چاہتی کہ وہ جب چاہے زبان سے طلاق کا لفظ ادا کر کے میرے ’’بود ‘‘کو ’’نابود‘‘ کردے۔ اسی سوچ میںنجمہ کو اپناماضی یاد آگیا جب ایک صبح کو اس کی آنکھ والدین کے مابین ہونے والی توتکار سے کھلی۔ اس کے والد غصے میں تھے اور امی جان کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ نجمہ کو خیال آیا کہ شادی تو’’ وجاہت و حُسن کے ہمقدم ‘‘ہونے کا نام ہے ، امی جان نے اتناکہاکہ’’ میں روز روز کی بے عزتی سے تنگ آ چکی ہوں، میرا دل چاہتا ہے کہ میں سب کچھ چھوڑ کر گھر سے چلی جاؤں۔‘‘ امی جان ابھی اپنا جملہ مکمل بھی نہیں کر پائی تھیں کہ پاپا زور سے چلائے اور ساری بردباری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہہ ڈالا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتاہوں۔‘‘یہ سنتے ہی امی بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔ میں نے چیخیں ماریں، چھوٹی بہنوں سے کہا کہ امی کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارو۔ سب نے دعائیں کیں۔

کچھ دیر کے بعد امی کو ہوش آیا تو انہوں نے اپنابرقع منگوایا اور مجھ سے کہنے لگیں کہ ’’نجمہ!مجھے میری امی کے ہاں چھوڑ آؤ ۔اب میرا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ تمہارے پاپا نے میرے قدموں تلے سے زمین اور سر سے آسمان چھین لیا ہے ۔اب وہ میری عصمت کے محافظ نہیں رہے، یہ چہار دیواری میرے لئے اپنائیت کا کاشانہ نہیں رہی بلکہ غیریت کا تازیانہ بن چکی ہے۔یہاں کی ایک ایک شے میرے لئے نامحرم ہو چکی ہے ، نجمہ! اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو فوراًمجھے یہاں سے لے چلو ، میرا دم گھٹ رہا ہے ۔‘‘میں سسکتی بلکتی ماں کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کرگھر سے باہر لائی ۔رکشہ روکا اور امی کو لے کر نانی کے ہاں چلی گئی۔ 2فروری 2002ء کا سورج مجھے نفرتوں اور محبتوں کے نئے مفاہیم سے آشنا کر رہا تھا۔مجھے اپنی ماں میں ایک مظلوم و بے سہارا عورت دکھائی دے رہی تھی ۔ میرا ذہن مجھے باور کرا رہا تھا کہ اے نجمہ! گزرے کل تمہاری امی، تم جیسی تھی، آنے والے کل تم اپنی امی جیسی ہوگی۔میں انہی سوچوں میں مستغرق تھی کہ پاپا ہمارے کمرے میں آئے اورہم چاروں بھائی بہنوں سے گویا ہوئے کہ تم میں سے جو اپنی اُس زبان دراز ماں کے پاس جانا چاہے چلاجائے اور جو میرے ساتھ رہنا چاہے وہ یہیں رہے۔ کسی پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔

پاپا کی جانب سے یوں امی جان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے ہم بھائی بہنوں کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار سونپنے کا اعلان سن کر نجانے مجھے کیا ہوا،ایسا لگا جیسے میرے وجودسے ’’ انا اور خودداری‘‘ کا سونامی ٹکرا گیا ہے۔ میں نے کہا پاپا! میں نے آپ کے سونپے ہوئے دونوں اختیارات مسترد کر کے تیسری راہ پر چلنے کا مصمم عزم کر لیا ہے۔وہ کیا ہے، یہ کل آپ کو علم ہوجائے گا۔ اسی روز پاپا کے دفتر جانے کے بعد میں اپنے چھوٹے بھائی کو لے کر گھر سے نکلی، شہر کے ایک گنجان آباد محلے میں ایک کمرے کا مکان کرائے پر لیا ا ور اپنی دونوں بہنوں اور بھائی کو لے کر اس مکان میں منتقل ہوگئی۔گھر سے نکلتے وقت میں نے پاپا کے نام ایک رقعہ یوں لکھا کہ: ’’پاپا! لڑکی ہونے کے ناتے آپ نے مجھے ایک نہ ایک دن گھر سے وداع کرنا ہی تھا، یوں سمجھ لیجئے کہ آج ہی میری رخصتی ہوگئی۔ میں پاپا کے ساتھ رہ کر امی کو خون کے آنسو نہیں رُلانا چاہتی تھی اور امی کے ساتھ رہ کر اپنا بوجھ اُن پر ڈالنا بھی مجھے گوارہ نہیں تھا چنانچہ میں نے وہ فیصلہ کیاجو ہم سب بھائی بہنوں کے لئے قابل قبول تھا۔ میں اسکول میں پڑھا کر اپنے بھائی بہنوں کو پالوں گی ۔ پاپا! آپ کے گھر سے قبل از وقت وداع ہونے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ کوئی میری شادی زبردستی نہیں کر سکے گا۔ میںکسی مردکو یہ اختیارنہیں دوں گی کہ وہ مجھے ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ کہہ کر میکے جانے پر مجبور کردے کیونکہ میرا میکا تو پہلے ہی ’’دو لخت ‘‘ ہو چکا ہے ۔میں اُس مرد کی بیٹی ہوں جواپنی بیوی کے نہ ہو سکے۔ فقط والسلام! کاشانۂ بابل کے آسمان کا ٹوٹا ہواتارہ’’نجمہ‘‘

شیئر: