Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’وقت‘‘،خراماں خراماں جانبِ ابد رواں

وہ سوچتیں کہ آئینہ جھوٹ بول رہا ہے جیسے امی کی سلائی کی مشین کے پہئے میں مجھے منہ بگڑا نظر آتا تھا

تسنیم امجد ۔ ریاض

یہ حقیقت ہے کہ وقت ہمیشہ سے بے وفا ہے وہ کبھی کسی کے لئے نہیں رکتا، خراماں خراماں ابد کی طرف رواں رہتا ہے۔ عورت کی زندگی کے ہر روپ اور ہر مرحلے میں اس کی انا و خودداری کے ساتھ ساتھ وفا و محبت حاوی ہوتی ہے لیکن عہد شباب وہ زمانہ ہے جب اسے اپنے گردکی ہرشے اس کے حُسن کی مدح میں سرگوشیاں کرتی محسوس ہوتی ہے۔ اپنے حُسن پہ نازاں ہوکروہ جب آئینے میں اپنی جھلک دیکھتی ہے تو پھولے نہیں سماتی۔ اپنے حُسن پہ فدا ہونا اسے بھاتا ہے ۔ وہ اکثر سوچتی ہے کہ شاعر نے سچ ہی کہا ہے کہ: ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘

٭٭مسز فوزیہ اشفاق ان دنوں عجیب کشمکش سے دوچار ہیں۔ وہ اکثر آئینے کے سامنے جاتے ہوئے گھبراتی ہیں اور سوچتی ہیں کہ اس میں یقینا کوئی خامی ہے ، بالکل اسی طرح جیسے بچپن میں امی جان کی سلائی کی مشین کے پہئے میں مجھے اپنا منہ بگڑا ہوا نظر آتا تھا،وہ عکس جھوٹ بولتا تھا کیونکہ حقیقت میں میرا منہ بگڑا ہوا نہیںتھا۔ویسا ہی جھوٹ اب آئینہ بھی بول رہا ہے مگر پھر وہ سوچتیں کہ یہ تو وقتی تسلی ہے۔ یوں ان کی پریشانی قائم رہتی۔ آنکھیں موندے وہ ماضی کے اوراق پلٹنے لگتیں جب وہ سب کی آنکھوں کا تارا تھیں۔کالج اور پھر یونیورسٹی میں انہیںاپنے لئے سب کی نظروں میں ستائش نظر آتی تھی۔

اس طرح وہ خود کوملکۂ عالم سمجھنے لگیں ۔ کسی اتراتی تتلی کی مانند وہ اڑتی پھرتیں۔اکثر سہیلیاں انہیں اتراتے دیکھتیں تو کہتیں: قدم گِن گِن کے رکھتے ہیں، کمر بل کھاہی جاتی ہے خدا جب حُسن دیتا ہے، نزاکت آہی جاتی ہے ماسٹرز کے آخری سال میں ہی رشتہ لینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ یہ دیکھ کر وہ اورمغرور ہوگئیں۔وہ کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتی تھیں لیکن والدین کی خواہش اور اصرار پر مجبوراًانہیں ہاں کرنی پڑی۔ زندگی کی کتاب کا ہر صفحہ ان کی گھمنڈی فطرت کا عکاس تھا۔انہیں اشفاق ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے ۔ وہ سادہ طبیعت کے وجیہہ نوجوان تھے لیکن فوزیہ کو تو ایسا فلمی ہیرو چاہئے تھا جو چھلانگیں لگاتا، گھر بھر میں ناچتا پھرتا ۔ خیالی دنیانے انہیں جکڑرکھا تھا۔ شادی سے پہلے کے دن اور پسند کئے جانے کا احساس انہیں ستائے رکھتا۔ آئے دن کبھی اشفاق اور کبھی گھر کے ملازموں سے ان کی ان بن رہتی۔ ان کی بدمزاجی سے سبھی گھبراتے تھے۔

اشفاق شوہر کے روپ میں توتکار کا ہی شکار رہے۔ وہ اسے فوزی فوزی کہہ کر مناتے رہتے لیکن سب بے اثررہتا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دو بچوں سے نوازا ، وہ ماں کی بجائے ملکۂ جمال یعنی ’’مس ورلڈ‘‘ ہی رہنا چاہتی تھیں چنانچہ بچے بے چارے بھی ملازمہ کے سپرد رہتے۔ اشفاق گھر پہنچ کر بچوں کا خیال رکھتے۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں ماں کی توجہ نہیں مل رہی لیکن وہ بھی بے بس تھے۔ بیگم کو کبھی جم اور کبھی پارلر سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ وہ اکثر سہیلیوں کو بلائے رکھتیں۔ اس طرح اشفاق کو گھر سے باہر یا مہمان خانے میںرہنا پڑتا۔ وہ اکثر سوچتیں کہ شوہر میرے ہم پلہ نہیں۔ محبتیں وصول کرنا ان کا حق ہے جبکہ محبتیں نچھاور کرنا شوہر کا فرض ہے لیکن.......... آج آئینہ انہیں احساس دلانے پر مصرتھا کہ شباب اب رخصت ہونے کو ہے۔ چہرے کی شادابی’’ خشک سالی‘‘ کا شکار ہوتی دکھائی دیتی ۔انہیں محسوس ہونے لگا کہ کائنات کا رنگ پھیکا پڑگیا ہے، ہر آنکھ ان کے چہرے سے ٹکرا کر لوٹتی محسوس ہوتی لیکن ایک نگاہ یہ کیا، ایک نگاہ ایسی ہے جو ان کے چہرے سے ٹکرائی لیکن لوٹنا بھول گئی۔ اس میں وہی ماضی کی ستائش ،پیار، انسیت اور اپنائیت آج بھی موجود ہے۔

یہ وہی نظر ہے جسے وہ کبھی خاطر میں ہی نہ لاتی تھیں۔ حُسن کی تمکنت نے جنہیں اپنے قابل ہی نہیںسمجھا تھا۔ جس کے لئے و ہ کبھی اپنے نصیب اور کبھی والدین کو قصور وار ٹھہراتیں۔ وہ خود کو ملامت کرنے لگیں اور اپنے رویے کی تلافی کے عزم سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ گزرتے وقت کے بیس برس انہوںنے کس انجانے میں گزاردئیے، سوائے تلخ یادوںکے ان کے پاس کچھ نہ رہا تھا۔ اشفاق دفتر جاچکے تھے ۔وہ اٹھیں اور خلاف معمول اپنے کمرے کی ترتیب بدلنے لگیں۔ اچانک ان کی نظر قریب رکھی میز پر پڑی۔ نہایت خوبصورتی سے ایک پیکٹ پر لکھا تھا ’’میری فوزی کیلئے‘‘ اوہ آج تو ان کی شادی کی سالگرہ ہے ، انہیں یہ تاریخ تو کبھی یاد ہی نہ رہی تھی۔ احساس ندامت سے وہ وہیں بیٹھ گئیں اور سوچنے لگیں کہ آج جبکہ مجھے باجی، آپا جی یا خالہ کہا جانے لگا ہے، شوہر کے لئے میں آج بھی وہی فوزی ہوں۔ وہ فوزی جس نے انہیں کبھی وہ مقام ہی نہ دیا جس مقام کے وہ حقدار تھے۔ فرطِ جذبات سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے پیکٹ کو دیکھ کر کہا کہ اسے تو میرے اشفاق ہی کھولیں گے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اکثر شوہر بھی بیوی کو وہ مقام اور محبت نہیں دیتے جس کی وہ خواہاں ہوتی ہے۔

اسی لئے اکثر وہ ان کی خوشی کے لئے کبھی نت نئے کھانے پکا کر اور کبھی اپنے لباس کے رنگوں و تراش خراش بدل کر شوہر کا دل موہ لینے کی جدوجہد کرتی ہے کیونکہ عورت اپنا آپ منواکر خوش و خرم رکھنا اور رہنا چاہتی ہے ۔ اکثر خواتین کا کہنا ہے کہ اگر شوہر یہ سمجھ جائیں کہ بیوی کیا چاہتی ہے تو کوئی اختلاف ہی نہ ہو۔

پسند و ناپسند کا خیال رکھنے یعنی احترام کرنے سے قربتیں بڑھتی ہیں اور فاصلے سمٹ جاتے ہیں ۔ آج اکثر شوہروں کے پاس وہ نظر نہیں جو گھر میں موجود اس بے لوث ہستی کی محبت کا اندازہ لگاسکے۔ شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ: ’’گھر کی مرغی، دال برابر‘‘ شوہر کا اندازِ لاتعلقی عورت کو وقت سے پہلے مخدوش عمارت بنادیتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ازدواجی رشتہ قدرت کا عطا فرمایا ہوا انعام ہے ۔ اسی رشتے کی بنیاد پر پورے معاشرے کی عمارت استوار ہوتی ہے اس لئے خاندان جو معاشرے کی بنیادی اکائی ہے ،اس میں پروان چڑھنے والوں کو تمام ذہنی سکون و آسائشوں سے نوازا جانا چاہئے جن کے وہ حقدار ہیں۔ معاشرے کے یہ ستون مضبوط ہونگے تو استحکام بھی لازمی ہوگا۔ ازدواجی رشتہ ناقدری سے اُجڑتا ہے ، یہ سمجھوتے کا دوسرا نام ہے جسے ہر حال میں نبھانا چاہئے۔ کسی ایک فریق کی لاتعلقی و بے قدری گھر پر اثر ڈالتی ہے ،’’مسز فوزیہ اشفاق ‘‘خوش نصیب تھیں کہ شوہر کی ناقدری کے باوجود ان کے غصے سے بچی رہیں ورنہ مرد کسی بھی حال میں اپنا مردانہ جلال دکھانے میں دیر نہیں کرتا ۔

شیئر: