Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ باورچی خانے میں جاتی تو اٹھا پٹک کی آوازیں شروع ہوجاتیں

وہ مصالحہ پیستے ہوئے سوچتی کہ سل بٹہ شوہر کو مشورہ دینے والوں کے سر پر دے مارے- - - - - - - - - - - - - - -

زینت شکیل ۔ جدہ

وہ باورچی خانہ میں داخل ہوتی اور اٹھا پٹک کی آوازیں باورچی خانہ سے باہر آنا شروع ہوجاتیں۔ وہ دوستوں کے پاس سے معذرت کرتا اٹھ کر آ جاتا، دبی آواز میں کہتا ، کیا کھا ناپکانا اتنا مشکل کام ہے کہ ہر برتن پہلے دھڑام سے گرتا ہے، پھر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ وہ غصے سے جواب دیتی ’’ہاں ! جب ہر دوسرے ، تیسرے دن درجن بھر لوگوں کی اچانک دعوت پر کھانا بنے اور عین موقع پر سامان لاکر رکھ دیا جائے کہ اب اسکو کاٹو ، چھیلو ،مصالحہ تیار کرو اور مٹن پلاؤ، چکن قورمہ اور شامی کباب کے ساتھ روٹی بھی گھر پر ہی بناؤ۔ سلاد ،رائتہ اور میٹھا تو کسی گنتی میں ہی نہیں ہوتا۔اس کی تیز آواز سے گھبراکر اس نے واپسی کا ارادہ کیا، دوبارہ دوستوں کے پاس جانے سے پہلے یہ کہنا نہیں بھولا تھاکہ ’’کھانے میں دیر ہوگی۔ پہلے چائے کے ساتھ بسکٹ ، کیک ، نمکووغیرہ بھجوا دو جو بیکری سے لیکر آیا ہوں۔ وہ سل بٹے پر مصالحہ تیار کرتی، غصہ میں یہی خواہش کرتی کہ ایسا ایک دن یہ سل بٹہ ان لوگوں کے سر پر دے مارے جو اس کے شوہر کو روز ایک نیا بزنس شروع کرنے کیلئے مشورہ دینے میٹنگ کرنے پہنچ جاتے تھے۔یہ سلسلہ نیا نہیں تھا بلکہ کئی سالوں سے جاری تھا۔ اس کی ساس اسے مشورہ دیتی تھیں کہ چونکہ وہ ذاتی بزنس کرنا چاہتا ہے ۔اس لئے جس کو اپنا دوست سمجھتا ہے، اس سے مشورہ کرتا ہے۔

نوکرانی کے ہاتھ کا کھانا خود اسے پسند نہیں آتا تم سارا کام خود کرتی ہو۔ یہ تمہاری بڑی خوبی ہے ۔ بس غصے کو کم کردو اور مالک حقیقی سے دعا کرو کہ جلد از جلد کوئی اچھی تجارت شروع ہوجائے۔وہ اتنی لمبی چوڑی نصیحت سے اور دلبرداشتہ ہوجاتی۔ خیریت گزری کہ کسی بزنس کی شروعات ہوئی۔ اس کی بات بھی مان لی گئی کہ اب باہر ریسٹورنٹ میں اتنے سارے لوگوں کو بلانا ٹھیک رہے گا ۔ ڈائمنڈ کا سیٹ خریدا گیا، کئی سال ایسے ہی خوشیوں بھرے گزرگئے۔ اس کے والد نے ایک روز اسے سمجھایا کہ مسلمانوں کو حکم فرمایا گیا ہے کہ جب کوئی عقد یعنی معاہدے کرو تو اس پر گواہ کرلو یہ ضروری ہے۔ اس نے اپنے دوست سے کہا کہ ہم دونوں پارٹنر ہیں اور اب تک میرے نام کی دستاویزات مکمل نہیں ہوئیں۔ بس تمہارے نام پر ہی سب کچھ ہے۔یہ سن کر وہ دوست جو خوب دوستی کا دم بھرتا اور ہر ایک چیز کی تعریف کرتا نہیں تھکتا تھا، یکدم بدل گیاکہ کیسی پارٹنر شپ؟ جتنا پیسہ تم نے اس بزنس میں لگایا تھا ، تمہارے گھر کے کچن کے اخراجات اور بڑے ہوٹلوں میں دعوت اور مہنگی شاپنگ میں ختم ہوچکا ہے بلکہ اب میں تم سے کہوں گا کہ تم میرے بزنس سے الگ ہوجاؤورنہ میں رپورٹ کروادوں گا کہ تم میرے بزنس میں جھوٹی پارٹنر شپ کا دعویٰ کررہے ہو۔ ایک بھاری پہاڑ جیسا بوجھ تھا جو اس کے سر پر آگرا تھا۔ وہ اپنے اس بچپن کے دوست کی شکل یوں دیکھ رہا تھا کہ جیسے سامنے بیٹھے شخص سے پہلی بار زندگی میں ملاقات کررہا ہو جو اس کے لئے بالکل اجنبی ہو۔ چند ہفتوں بعد معاشی حالت خراب ترہو گئی۔

اس کے بزنس پر قبضہ کرنے والے دوست نما دشمن نے اس کے خلاف کیس دائر کردیا اور وہ کچھ نہ کرسکا ۔ ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اس دھوکہ باز شخص سے اپنا جائز حصہ بھی نہ لے سکا اور اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ جب کوئی اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے اہل خانہ، رشتے دار ، محلے دار اور دوست احباب نہیں جاسکتے۔ انہیں بھی اس دنیا میں اپنا وقت پورا کرنا ہوتا ہے۔ بھابھی اپنے پانچوں بچوں کے ہمراہ میکے میں رہنے لگی تھیں ۔

جہاں ان کے درجن بھر بھائی بہن کی ذمہ داری اس صورت اٹھانی پڑرہی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پارہی تھی۔ کوئی بہن آرہی تھی سسرال سے، کوئی بھائی اپنی فیملی کے ہمراہ بیرون ملک سے مہینہ بھرکیلئے آیا ہے ۔ سب کا ملنا جلنا سب بھائیوں ، بہنوں کی آپس میں ملاقات اور دعوتی کھانا گھر پر بھی تینوں وقت تیار ہونا اور سب سے فارغ وہی تھی جو اب صبح سے شام تک باورچی خانے میں مختلف اقسام کے کھانے بنانے میں وقت گزار دیتی تھی۔ ایسا لگتا کہ اپنے گھر میں چند مہمانوں کا کھانا بنانا جسے اتنا ناگوار گزرتا تھا، اب دن رات لگاتار یہی ایک کام کرنا تھا۔ یہاں کوئی آرہا ہے ، کوئی جارہا ہے۔ کسی نے کچن کا رخ کر بھی لیا تو کپڑے سنبھال کر ،ہائی ہیل پہن کر ، تکلف سے جتنا کام ہوسکتا تھا وہی ان کی بہنیں ، بھتیجیاں اور بھانجیاں انجام دے دیتی تھیں جیسا کہ کراکری ٹیبل تک لے جانا ، سلاد کو سجانا ، میٹھے پر چاندی کے ورق لگانا اور کولڈ ڈرنکس فریج سے نکال لینا ۔ اس کے آگے کے تمام کام اسے خود سنبھالنا ہوتے تھے۔

بچے حیران و پریشان ایک ایک کی شکل تکتے کہ ان کی عمر کے بچے جب اپنے والدین سے فرمائش کرتے ، کھلونے خریدتے اور باہر سیر کیلئے گاڑی میں بیٹھ کر چلے جاتے تو وہ سوچتے کہ ہمارے ابو اس دنیا سے نجانے کیوں چلے گئے؟ درحقیقت چھوٹی تکلیفوں کو اتنا زیادہ محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ پھر بڑی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔

شیئر: