Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیلڈر:بلے باز اور اونچے اسکور کے درمیان حائل ظالم سماج

جب مخالف ٹیم کا کوئی تگڑا بلے باز آؤٹ ہوجائے تو کھلاڑی مارے خوشی کے ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں اور تماشائی تالیاں پیٹ پیٹ کر انہیں داد دیتے ہیں

 

پروفیسر عفت گل اعزاز۔ اسلام آباد

 -------------------

کرکٹ ایک دلچسپ کھیل ہے جو دنیا کے بہت سے ممالک میںکھیلا جاتا ہے ۔ اگرچہ کرکٹ پاکستان کا قومی کھیل نہیں مگر بے شمار پاکستانی اس پر جان دیتے ہیں، اسے دیوانگی کی حد تک چاہتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ کرکٹ تماشائیوں پر سحر طاری کردیتی ہے۔ جب بولر گیند سنبھال کر دور سے دوڑتا ہوا آتا ہے ، بلے باز گیند پر زوردار ہٹ لگاتا ہے اور چوکے چھکے بنا بنا کر رنز کے ڈھیر لگادیتا ہے، نصف سنچری ، سینچری اور کبھی کبھار اس سے بھی زیادہ رنز بناکر تماشائیوں کا دل خوش کردیتا ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بلے باز بڑی امیدوں اور مرادوں سے پچ پر آتا ہے اور بولر کی پہلی ہی گیند پر بولڈ ہوجاتا ہے ۔اسے کریز سے رخصت ہونا پڑتا ہے تو اس کی اُتری صورت دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے، یوں لگتا ہے:

وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

فیلڈرز ظالم سماج کی طرح بلے باز اور اونچے اسکور کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں۔ جونہی اس نے ہٹ لگائی، فیلڈرز دیوانہ وار گیند پکڑنے کو بھاگے، بعض اوقات گراؤنڈ پر قلابازیاں کھاتے ہیں، ان کو یہی دھن ہوتی ہے کہ ہر قیمت پر گیند کو پکڑلیں اور بعض اوقات گیند ایک خاص مقناطیسی کشش کے تحت کسی خوبی سے انکے ہاتھوں میں آسماتی ہے اور کبھی گر بھی گئے، قلابازیاں بھی کھالیں مگر گیند بڑی ادا سے ان کی نگاہوں کے سامنے باؤنڈری کراس کرجاتی ہے اور وہ مایوس نگاہوں سے اسے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کھلاڑیوں کو ایسی دھن سوار ہوتی ہے کہ بھری دھوپ میں بولنگ ، بیٹنگ اور فیلڈنگ کرتے ہیں۔ پسینے بہہ رہے ہیں ، کپڑے بھیگ رہے ہیں، گراؤنڈ میں دوڑ دوڑ کر برا حال ہورہا ہے مگر کوئی پروا نہیں ۔ جب مخالف ٹیم کا کوئی تگڑا بلے باز آؤٹ ہوجائے تو کھلاڑی مارے خوشی کے ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں اور تماشائی تالیاں پیٹ پیٹ کر انہیں داد دیتے ہیں۔ معروف مصنف مشتاق احمد یوسفی اسی کرکٹ کے تماشائیوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’ کلائی کے ادنیٰ اشارے ، انگلیوں کی ایک خفیف سی حرکت پر گیند ناچ ناچ اٹھتی اور تماشائی ہر گیند پر کرسیوں سے اٹھ اٹھ کر داد دیتے، ادھر اسٹیڈیم کے باہر درختوں کی پھننگوں سے لٹکے ہوئے شائقین ہاتھ چھوڑ چھوڑ کر تالیاں بجاتے اور کپڑے جھاڑ کر پھر درختوں پر چڑھ جاتے تھے۔ (شاخ پر ہاتھوں کی گرفت ختم ہونے سے وہ نیچے جاگرتے تھے کیونکہ تالیاں بجانا تو بہت ضروری تھا) ٹیسٹ میچ میں ہار جیت کا فیصلہ چار ، پانچ دن کی صبر آزما مشقت کے بعد ہوتا ہے،کھلاڑیوں کی بھی اور تماشائیوں کی بھی ! مگر اب ’’او ڈی آئی‘‘ نے اسے کم وقتی ،آسان اور زیادہ دلچسپ بنادیا ہے۔جب پاکستانی ٹیم کا دوسرے ممالک کی ٹیموں کے ساتھ کرکٹ میچوں کا سلسلہ چلتا ہے تو ہر کسی کو کرکٹ بخار چڑھ جاتا ہے۔ بہت سے تماشائی مہنگا ٹکٹ خرید کر اسٹیڈیم کی آرام دہ نشستوں پر بیٹھ کر اطمینان سے میچ دیکھتے ہیں اور بھرپور لطف اٹھاتے ہیں۔ کچھ شوقین گھروں کی چھتوں اور درختوں کی اونچی شاخوں پر مورچہ جما کر میچ دیکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ میچ کی اہمیت کے پیش نظر اپنے پروگرام ، اہم میٹنگز ، شادی نیزدوسرے شہروں یا ملکوں کے دورے ملتوی کر ڈالتے ہیں اور میچ ضرور دیکھتے ہیں ،اسے نہیں چھوڑتے ۔لوگ دفتروں اور اسکول کالجوں سے چھٹی کرکے گھر بیٹھ جاتے ہیں ،گلیاں اور بازار سنسان ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں دکاندار اپنے گاہکوں کی پروا نہیں کرتے کیونکہ انکے اعصاب پر میچ سوار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سڑک کے راہ گیروں اور بسوں کے مسافروں کی بے تابانہ کوشش ہوتی ہے کہ میچ کی تازہ ترین صورتحال سے باخبر رہیں ۔کوئی ریڈیو سے لگا بیٹھا ہے ، کسی نے موبائل فون کا سہارا لیا ہوا ہے،کوئی ٹی وی پر نگاہیں جمائے بیٹھا ہے۔ لوگ کسی ضروری کام سے باہر نکلے ہوں یا گھر بیٹھے ہوں، ہر لمحہ انہیں تازہ اسکور کی فکر ہوتی ہے۔ ان پر ایک جنون، ایک دیوانگی سی طاری ہوجاتی ہے ۔ یہ کرکٹ دیوانے کرکٹ میچ کی مقبولیت میں بھرپور اضافہ کردیتے ہیں ۔ان کے بغیر میچ بے رنگ و بے معنی ہوکر رہ جائے ۔ جونہی میچ شروع ہوتا ہے، ہمارے گھر میں سب لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ ہمارے میاں شمیم صاحب تو کرکٹ کے اتنے شوقین ہیں کہ ٹی وی پر کوئی میچ لائیوآرہا ہو یا برسوں پرانا، یہ اسی انہماک سے دیکھتے ہیں ۔ انہیں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا خوب علم ہوتا ہے۔

ان کا زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم اسکور بھی ازبر ہوتا ہے اور وہ ہر بولر اور بلے باز کی مہارت پر داد دیتے ہیں اور صحیح معنوں میں میچ کا پورا لطف اٹھاتے ہیں۔ ہماری صاحبزادی مہ رخ بھی سرڈھک کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتی ہیں ۔جب پاکستانی بولر گیند کراتے ہیں تو یہ بسم اللہ پڑھتی ہیں، جب بلے باز اپنا بلا چلاتے ہیں تو یہ جھوم جھوم کر ماشاء اللہ ، ماشاء اللہ کہتی ہیں ۔ ’’ اللہ کرے ہماری ٹیم جیتے ، ہمارا اسکور تین سو ، چار سو بلکہ پانچ سو سے بھی زیادہ ہو۔‘‘ ابھی مخالف ٹیم نے بیٹنگ شروع بھی نہیں کی ہوتی کہ اس کے آؤٹ ہونے کی بددعائیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ان کے کھلاڑیوں کے چوکے چھکے دل میں اداسی اور چہرے پر ناگواری پیدا کرتے ہیں۔ ہر بلے باز کے لئے انکی خواہش ہوتی ہے کہ زیرو پر آؤٹ ہو اور کریز سے جلد دفع ہو۔وہ کہتی ہے کہ دعا کریں امی ! دعا کریں پاکستان جیت جائے ، امی دل سے دعا کریں! مہ رخ مجھ سے بار بار کہتی ہے۔

ہاں ہاں ! میں ان شاء اللہ میں دعا کررہی ہوں، بیٹا ! ’’امی ۔۔۔ منہ سے بھی کہیں ‘‘مہ رخ بے تابی سے اصرار کرتی ہیں ،میں بآوازِ بلند دعا کرتی ہوں تو شمیم صاحب بتاتے ہیں کہ میچ ذمہ داری اور پوری لگن سے کھیلا جائے تب کامیابی ملتی ہے ۔ ابو ! پاکستانی ٹیم اپنی کارکردگی پر نہیں لوگوں کی دعاؤں سے میچ جیتتی ہے اس لئے بس آپ دعا کریں، ابو دل سے دعا کریں، ہم ضرور جیت جائیں گے ! مہ رخ بڑے جذبے سے کہتی ہیں اور میچ دیکھنے لگتی ہیں۔ کئی سال پہلے کرکٹ میچوں کی سیریز چل رہی تھی۔ گھرکے سب لوگ بڑے شوق سے ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے ۔ میچ کے آغاز میں ہماری ٹیم نے بڑی تیزی سے رنز بنائے پھر یکے بعد دیگرے اچار کھلاڑی آؤٹ ہوگئے مگر دل کو اطمینان تھا کہ ایک بہت اچھا بلے باز ابھی باقی ہے وہ ضرور اچھا اسکور کرکے گا۔ وہ کھلاڑی آیا اور پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہوگیا اور ہم سب کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔

سب گھر والوں کو تشویش ہونے لگی، کامیابی کی امیدیں ماند پڑنے لگیں اور دل پر اداسی چھانے لگی۔ ایسے میں مہ رخ جو ابھی نو دس سال کی بچی تھی، اس نے ٹی وی پر اسکور دیکھا اور برا سا منہ بناکر بولی ’’یہاں سے تو اب اٹھنا ہی چاہئے کیونکہ اسے بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ اب ٹیم کا جیتنا مشکل ہے۔ اس کی طرح اور بہت سے لوگ متوقع ناکامی کے تکلیف دہ اثرات سے بچنے کے لئے ٹی وی کے پاس سے ہٹ جاتے ہیں کیونکہ کامیابی کا انتظار اچھا لگتا ہے ، ناکامی کا نہیں۔ ایک بار پاکستان اور ہند کی ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوا تھا۔ پہلا میچ پاکستان نے جیت لیا ،پاکستانی ٹیم میچ جیتی تو ہر پاکستانی ایسا خوش ہوا جیسے میچ نہیں ہندوستان سے جنگ جیت لی ہو۔ اگلے میچ میں ہماری ٹیم ہارگئی ، سب کے منہ لٹک گئے اور سوچنے لگے کہ اب کیا ہوگا؟ اگلا میچ ہندوستان کا کسی اور ملک کی ٹیم کے ساتھ ہونا تھا۔ سب نے کہا کہ ہندوستان ہارجائے تب ہمارے دل کو کچھ ٹھنڈک ملے۔ لوگوں نے اتنا گڑگڑا کر دعائیں مانگیں کہ ہندوستان واقعی ہار گیا۔ تب ہمارے کچھ آنسو پچھے۔ اس موقع پر ہماری دوست صائمہ نے کہاکہ ’’کرکٹ میچ کے معاملے میں ہمیں خوشی دوشکلوں میں ہوتی ہے ،اول پاکستان جیتے ، دوم یہ کہ ہندوستان ہارے، بس ہارے چاہے پاکستان سے یا کسی بھی دوسری ٹیم سے اور واقعی ہم نے دیکھا کہ ہند کی شکست ، پاکستانیوں کے اترے چہروں کو خاصا فریش کردیتی ہے۔

شیئر: