Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوام کی اکثریت نے کھانے کو زندگی کا مقصد بنالیا، نوراںرزاق

دنیا میں صرف کھانا کھانے اور گھومنے یاسیر کرنے کیلئے تو نہیں آئے کیونکہ آج کل عوام کی اکثریت نے کھانا کھانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے ۔

زینت شکیل ۔ جدہ

- - - - - - - -

خالقِ کائنات نے اس جہاں میں کسی کو طاقت ور بنایا اور کسی کو محکوم لیکن غور کیا جائے تو ہر ایک کسی نہ کسی وقت، کسی نہ کسی سطح پر متضاد کیفیت یا حالت میں آجاتا ہے یعنی کوئی امیری سے غریبی کی طرف چلا جاتا ہے اور کوئی غریب امیر بن جاتا ہے لیکن زندگی گزارنے کے قواعد و ضوابط سب کیلئے مسلمہ ہیں۔ محترم ماجد رزاق اور محترمہ نوراں رزاق نے اس اصول کو سمجھا اور اپنے اوپر ، اپنے خاندان پر لاگو کیا۔ اس سلسلے میں محترمہ نوراں رزاق نے’’ہوا کے دوش پر‘‘ ملاقات کے دوران کہا کہ اگر ہم پوری کائنات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت کی پابندی اور نظم و ضبط کی زندگی میں کتنی اہمیت ہے۔ محترم ماجد رزاق جو اپنی نوکری اور ذاتی بزنس میں کافی مصروف رہتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ مستقبل کی منصوبہ بندی ضرور کرنی چاہئے۔ کم از کم مزید ایک سال کاشیڈول پتہ ہونا چاہئے۔سالانہ پروگرام طے کرتے وقت سب اپنے بھائی بہنوں سے مشورہ بھی کرلیں تاکہ جو سالانہ فیملی ڈنر ارینج کیا جائے اس میں ایسا وقت سب کے مشورے سے طے کیا جائے جس میں دور اور قریب کے سب خاندان کے افراد کو جمع ہونے میں سہولت رہے ۔

محترمہ نوراں ماجد رزاق نے کہا کہ آجکل کی دنیا بہت تیز رفتار ہوگئی ہے۔ہر کام بروقت انجام دینے کیلئے بہترین منتظم بننے کی ضرورت ہے ۔ محترمہ نوراں ایک اسپتال میں بطور ماہرغذائیت مامور ہیں۔ ان کا تجربہ3دہائیوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے غذائیت میں مہارت کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ شوہر کو گرویدہ کرنے میں آسانی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ اس بات پر غور و فکر کرنا چاہئے کہ ہم اس دنیا میں صرف کھانا کھانے اور گھومنے یاسیر کرنے کیلئے تو نہیں آئے کیونکہ آج کل عوام کی اکثریت نے کھانا کھانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے ۔آج ہمارے گھروں میں دنیا جہاں کی مختلف ڈشز ٹرائی کرنا آج عام بات ہوگئی ہے،یہ جانے بغیر کہ ہر ملک ایک دوسرے سے نہ صرف موسم کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے بلکہ اس میں جو نباتات اُگتی ہیں، وہ بھی مختلف ہوتی ہیں۔ قدرت کا نظام لاجواب ہے ۔

ایک ملک میں رہتے ہوئے تمام ملکوں کی غذائی اقسام کو اپنے لئے حاصل کرنا اور بن موسم کے پھل اور سبزیوں کو کھانا ، صحت کیلئے انتہائی مضر ہے۔ اسی طرح کین ، ٹن پیک غذائی اشیاء بھی ان غذائی فوائد سے محروم ہوتی ہیں جو تازہ پھل اور سبزیوں سے جسم حاصل کرتا ہے۔جہاں زندگی آج ہرآسائش سے مزین ہوگئی ہے، وہیں بیماریوں نے بھی طرح طرح سے حملہ آور ہونا شروع کردیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انسان ذہن پربیرونی دباؤ اور غلط طرزِ زندگی کے باعث شوگراور بلڈپریشر جیسے امراض کا شکار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف امراض میں مبتلا مریضوں کے لئے مختلف قسم کی غذائیں تیار کی جاتی ہیں۔ جو مریض جس بیماری میں مبتلا ہو، اس کی غذائی ضرورت اس کی بیماری کے تحت مختلف ہوجاتی ہے ۔

یہ بھی ایک مستقل جاب ہے جو ذہانت سے بھرپوراور انسان کو منظم رکھنے کی جاب ہے۔ عام روزمرہ استعمال میں لائے جانے والی سبزیوں اور پھلوں میں تبدیلی لاتے رہنا چاہئے ۔اس طرح ہر کھانے کی چیز بدل بدل کر کھانی چاہئے، ہر ایک خوراک میں غذائی عنصر موجود ہوتے ہیں جو جسم کی صحت کے لئے بہت اثرات رکھتے ہیں۔ نوراں رزاق کی بڑی صاحبزادی امیرہ جو شادی شدہ ہیں انہوں نے اپنی امی جان کی پابندیٔ وقت کے بارے میں کئی باتیں بتائیں۔انہوں نے بتایا کہ جب ہم لوگ اسکول کے اسٹوڈنٹس تھے تو ماما گھر پر ہوتیں تب بھی اور اگر جاب پر ہوتیں تب بھی، ہمیں انہی قواعد وضوابط پر عمل درآمد کرنا ہوتا تھا جو انہوں نے ہمارے لئے بنادیئے تھے ۔انہوں نے ٹائم ٹیبل فریج کے اوپر میگنٹ کے ذریعے لگادیا تھا جیسا کہ نوٹس بورڈ پر اہم شیڈول آویزاں کردیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم بھی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کی تربیت بہترین خطوط پر کرسکیں اوربچے ہمارے ڈر سے نہیں بلکہ ہمارے احترام کے باعث ہماری بات مانیں چاہے ہم موجود ہو ںیا غیرحاضر ہوں۔ چھوٹی بیٹی لیلیٰ نے بتایا کہ آج ہم لوگ بچوں کی اسکولنگ اور انکی دیکھ بھال سے وقت نہیں نکال پاتے لیکن ماما ہماری ہر چیز کا خیال بھی رکھتی تھیں اور سالانہ چھٹیوں میں ہر رشتہ دار سے ملاقات کا پروگرام بھی طے کرلیتی تھیں ۔ ہمارے پڑوسیوں کو بھی ہمارے گھر کے کھانے بے حد پسند آتے تھے جو ہم انہیں گھر پر تیار کرکے بھیجتے تھے۔ ماما نے ہمیں کھانا پکانا بھی سکھایا اورہر ترکیب میں غذائی فوائد حاصل کرنا زیادہ اہم قرار دیا۔یہ ماما کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم گھر پر ہی کھانا تیار کرتے ہیں ۔ٹن اور کین فوڈ سے کوسوں دور ہیں۔

٭٭ دونوں بہنوں سے چھوٹے نبیل رزاق نے اپنی ننھی پری جو چند ہفتے قبل اس دنیا میں تشریف لائی ہیں، ان کا نام ’’نور‘‘ رکھا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی ماما اور بابا کے بارے میں بتایا کہ ہمارے بابا ہمیشہ لوگوں کو موقع دے دیتے ہیں، زیادہ کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو ان کی غلطیوں پر فوراً معاف کردیتے ہیں ۔یہ خوبیاں فی زمانہ بہت کم ہوچکی ہیں۔ محترمہ نوراں کی بہنوں نے بتایا کہ نوراں بہترین منتظم ہیں ۔ گھر اور گھر کے باہر اپنی خداداد صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھا کر تمام فرائض کی انجام دہی بہترین طریق پر کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب جہاں جو لوگ کئی سالوں سے بس گئے ہیں ،وہیں بچوں کے رشتے ناتے بھی طے کردیتے ہیں ۔ ایک ہی ملک میں رہنے کے باعث عادات و خیالات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں الگ الگ رسم و رواج کے علاوہ رہائشی ویزا اور نوکری ، تعلیم اور بزنس ہر چیز میں رکاوٹ ہوتی ہے ۔ ان کی بہنوں نے بتایا کہ ہم اردو بہت اچھی بول لیتے ہیں اور شاعری بھی پسند کرتے ہیں جیسا کہ میر مونس کا یہ شعر:

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

 گھٹ کے مرجائیں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے

 

جلال دہلوی کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

- - - - - - -  -

اُٹھ گئی تھیں کہیں اس شوق کی نیچی نظریں

 دیر تک ہم نے دو عالم تہ و بالا دیکھا

شیئر: