Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سائٹ پر پہنچا تو پتہ چلا پردیس کیا ہوتا ہے۔۔

بیابان اور ریگستان میں چالیس پچاس ڈگری درجہ حرارت میں جب سورج سوا نیزے پر ہو تو کام کرنا انتہائی مشکل ہوتاہے

- - - - - - - - -

تحریر : فہیم زیدی (دمام،سعودی عرب )

- - - - - - - - -

میں پیشہ کے اعتبار سے مزدور ہوں اور گزشتہ متعدد برسوں سے بیرونِ ملک سے گھر والوں کی کفالت کا ذمہّ بہ احسن طریقے سے سرانجام دے رہا ہوں۔ میرا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے معاشی حب کراچی سے ہے ۔وہ کراچی جس کیلئے کہا جاتا تھا کہ جہاں کوئی بھی انسان رات کو بھوکا نہیں سوتا۔ مجھے بھی روزانہ کوئی نہ کوئی مناسب روزگار مل جاتا اور میں ہمیشہ کی طرح ایماندار ی اور محنت سے اپنا کام کرتا اور معاوضہ حاصل کرکے سرِشام خوشی خوشی گھر کی جانب اس خیال سے روانہ ہوجاتا تھا کہ آج بھی گھر کا چولہا بہ آسانی جل سکے گایہ سلسلہ طویل عرصہ تک چلتا رہا یہ شہر جو امن کا گہوارہ تھا۔ جہاں اندرون ِ اور بیرونِ ملک سے بھی لوگ روزگار کے حصول کیلئے جوق در جوق آتے تھے مگرپھر شہر کو لسانی اور قومیتی نفرتوں نے آلیا ۔گولیوں،ہڑتالوں،لاشوں کی وجہ سے فاقوں کی نوبت آگئی۔ 6 جواں سال بہنوں کااکلوتا بھائی ہونے کے ناطے مجھ پر گھرکی بھاری ذمے داریاں عائد تھیں بوڑھے والدین کی بچیوں کی ہاتھ پیلے کرنے کی فکر فطری امرہے۔ خاصی مشقت ، محنت اوربھاری ادائیگی کے بعد ایک خلیجی ملک کا ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیامزدوری کیلئے گھر سے دو جوڑی کپڑے ، ضعیف ماں ،باپ، بہنوںکی دعائیں اور ڈھیروں ارمان اپنے صندوق میں ڈالے رختِ سفر باندھا اور اپنے گھراور پیاروں سے دور پردیس میںآ بسا۔ میرا خیال تھا کہ مجھے شہرکی کسی زیرتعمیر کثیر المنزلہ عمارت میں مزدوری کرنا ہوگی جیسا کہ عموماً ہوتا بھی ہے مگر ایک سرسری انٹرویو کے بعدبتایاگیا کہ مجھے شہر سے دور ایک ریگستانی علاقے میں کام کے لئے جاناہوگا ایک دن آرام کے بعد اگلے روز مجھے سائٹ کیلئے روانہ کردیا گیا شہر سے تقریباًساڑھے چار سو کلو میٹر دور سائٹ پرپورٹا کیبن (عارضی رہائش) میں شفٹ کردیا گیا۔ میرے ساتھ پاکستان کے مختلف شہروں کے تقریبا 20 مزدور اوربھی تھے ۔

جب میں سائٹ پر پہنچااور کام کا آغاز کیا تو مجھے پتہ چلا کہ پردیس کیا ہوتا ہے ۔بیابان اور ریگستان میں چالیس پچاس ڈگری درجہ حرارت میں جب سورج سوا نیزے پر ہو تو کام کرنا انتہائی مشکل ہوتاہے شہری علاقہ نہ ہونے کے باعث ہم سب یہاں کسی بھی قسم کی سہولیات اور اور آسائشوں سے یکسر محروم تھے ۔ضرورتِ اشیاء کی خریداری کیلئے بھی اس ریگستان میں کوئی مارکیٹ نہیں تھی اور ہوتی بھی کیسے بھلا جنگلوں اور ریگستانوں میں کوئی بازار ہوا کرتے ہیں ۔کھانے پینے کا سامان ہفتہ دس دن میں جب کمپنی کی کوئی گاڑی بھولے بھٹکے وہاں آجاتی تو اس میں سوار ہو جاتے اور دور دراز علاقوں جہاں زندگی کے آثار نمایاں ہوں وہاں کی مارکیٹ سے خرید کر لاتے۔ بسا اوقات تو 15 دن سے زائد کا عرصہ ہوجاتا کوئی گاڑی میسر نہیں ہوتی اور ہم چار چار دن پرانی روٹی کھا کر صبر شکر کررہے ہوتے ہیں اور بچاکچھا کھانا کسی گوہر نایاب کی طرح پلاسٹک کی تھیلیوں کی تہہ میں بڑی مضبوطی کے ساتھ سنبھال کر رکھ دیتے تھے۔ سائٹ پر کام اور شام کو کام سے فارغ ہونے کے بعد ساتھ ہی عارضی بنے کمروں میں جاکر سوجانا یہی زندگی کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک روز اُس وقت مجھ کو سخت کوفت اوراذیت کا سامنا کرنا پڑا جب میں نے اپنے موبائل سے گھر بات کرنے کی کوشش کی ۔بھلا اس ریگستان میں سگنل کیسے آتے صبح سے شام ہوگئی تاہم میری ہر تدبیر ناکام رہی موبائل فون لگنا تھا نہ لگا میں نے اپنے ایک ساتھی سے دریافت کیا کہ وہ گھر کس طرح بات کرتا ہے تو پہلے تو وہ زیرِ لب مسکرایا اور پھرمیرا ہاتھ پکڑ کر مجھے خاموشی سے ایک سمت لے چلا ۔

تھوڑا دور چل کر مجھے ایک ریت کا ٹیلہ نظرآیا اس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہا اس پر چڑھ جائو ٹیلے پر چڑھ کر میں نے کال گھر ملائی میں ایک دم تو نہیں کال لگی مگر تھوڑی پس و پیش کے بعد میری کال مل گئی مگر بات بمشکل ہو پا رہی تھی آواز کٹ کٹ کر آ و جا رہی تھی یہ روز کا معمول تھا روزانہ شام کے وقت ریت کا یہ واحد ٹیلہ لڑکوں سے بھرا رہتا جن کے کانوں سے موبائل فونز لگے ہوتے اوروہ سب تیز تیز اس انداز میں اپنے اپنے گھر بات کررہے ہوتے کہ مجھے یہ گماں ہونے لگتا جیسے میں کسی اسٹاک ایکسچینج میں کھڑاہوں۔ سائٹ انجینئر بھی ہفتہ میں ایک بار چکر لگا جاتا اور ہمار ے فورمین سے کام کی بابت اور ہم سب کی کارکردگی جان کراور پھرقدرے مطمئن ہو کر چلا جاتا۔ کبھی کبھی ہم مزدور اس انجینئرسے بھی کوئی نہ کوئی اشیاء منگوالیا کرتے تھے ۔ابھی مجھے کام کرتے ہوئے صرف ایک ماہ کا عرصہ ہوا تھا کہ ایک روز کام کے دوران ریت کا ایک زبردست قسم کا طوفان اٹھا دیکھتے ہی دیکھتے ہم سب پل کی آن میں بھوت کی مانند ہوگئے چند قدم فاصلے کی بھی چیز نظر نہیں آرہی تھی طوفان اس قدر تیز اور زبردست تھا کہ ہمیں اپنا کام روکنا پڑا اور ریت کا یہ طوفان تقریبا ً دو روز تک جاری رہا ہم دو روز تک اپنے اپنے کمروں میں محصور رہے جب یہ طوفان تھم گیا تواورہم نے اپنے اطراف کا جائزہ لیا تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہم نے اپنے اپنے بستر باہر ریگستان میں ہی لگا لئے ہوںکیوں کہ کمرے بند ہونے کے باوجود مٹی کی ایک دبیز تہہ در تہہ ہمارے بستروں پر موجود تھی اور ہمارے کمرے کی ایک ایک شے پر مٹی کا راج تھا۔ اب مجھے سمجھ آیا کہ باقی ماندہ کھانا کیوں اس قدر تھیلیوں میں لپیٹ کر رکھا جاتا تھا کیونکہ عام دن میں بھی ہمارے کمرے تھوڑے بہت مٹی سے اَٹے ہوئے رہتے تھے میں نے ایک پرانے ساتھی سے دریافت کیا تو اس نے بتایاکہ ہمیں اکثر اوقات ایسے ریت کے طوفانوں کاسامنا کرنا پڑے گا ۔ ایک روز ایک روح فرسا واقعہ میرے ساتھ رونما ہواکام کے دوران میں لکڑی کے کاٹھ کباڑ میں کچھ شے تلاش کررہا تھا کہ ایک لکڑی کے بوسیدہ ٹکڑے کے نیچے سے کالے رنگ کا ایک زہریلا بچھو اپنا ڈنک نکال کر غصے سے میری طرف بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے مزید بچھواِدھر اُدھر دوڑنے لگے میرے وجود میں ایک خوف کی لہر دوڑ گئی اور میں جان بچا کر اُدھر سے بھاگا میں نے اپنے ایک ساتھی کو بچھوؤں کے بارے میں بتایا تو اس نے تحمل کے ساتھ کہا کہ بھائی یہ ہمارے لئے نئی بات نہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ صرف بچھو ہی نہیں ہم نے یہاں پر زہریلے سانپ بھی دیکھے اور مارے ہیں میرے سارے وجود میں کپکپی دوڑ گئی۔

 اگلے روز میں سخت ترین گرمی کے باوجود اس طرح حفظ ِماتقدم کے تحت لمبے سیفٹی شوز ، دستانے اور گردن تک کی جیکٹ پہن کر مزدوری پر پہنچا جیسے میں کوئی گلیشیئر یا نانگا پربت سر کرنے آیاہوں میری حالت دیکھ کر میرے دیگر ساتھی ہنسنے لگے مگر میں کسی کی بھی پروا کئے بغیر کام میں جت گیا۔ ایک روز تو حد ہوگئی جب رات کے وقت ہمارے پاس موجود واحد جنریٹر نے کام کرنابند کردیا اور متبادل انتظام نہ ہونے کے باعث ہمیں اپنی اپنی چارپائیاں باہر میدان میں رکھ کر سونا پڑا او ریہ سلسلہ تقریباً پندرہ روز تک جاری رہا آپ بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ایسے ماحول میں جب چاروں اطراف میں زہریلے سانپ اور بچھو موجود ہوں تو کیسے نیند آتی ہوگی مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’نیند تو سُولی پر بھی آجاتی ہے‘‘ ایک ایک رات ہم پر بھاری گزرتی سو سکتے تھے نہ جاگ سکتے تھے مجبوراً سوناپڑتا تھا کیوں کہ اگلے روز ڈیوٹی بھی کرنا ہوتی ہے ۔ آخر کب تک خوفزدہ رہتا رفتہ رفتہ میں نے دیگر لڑکوں کی طرح خود کوبھی خطروںکا عادی بنا لیاکیوں کہ ہمیں اپنے خون پسینے سے اِس ریگستان کو گلزاربناناتھا جس کا ہمیں طے شدہ معاوضہ بھی ادا کیا جارہا تھا اور خوشی خوشی اس خوشگوار عتاب کاشکار ہو کرہم خود کوتونہیں مگر خود سے وابستہ بوڑھے ماں باپ ،6 غیر شادی شدہ بہنیں دیگرافراد کو آسائشیں اور سکون بھی فراہم کرنے کا سبب بن سکتے تھے اورسب سے بڑھ کریہ کہ جب ہماری نظر ملک میں ہر طرف پھیلی بے روزگاری ،بے چینی اور بدامنی پر پڑتی تھی تو یہ خیال ہمیں اس بات کا پابند کرتا تھا کہ ابھی ہمارا وہاں جانا مناسب نہیں اور ابھی مزیداسی ماحول ، اسی پُرخطر اندازمیں بتدریج پردیس کے ریگزاروں کو گلزاروں میں تبدیل کرنا ہمارا مقدر ٹھہرے گااور جب تک ہماری مجبوریاں ہمارے پائوں کی زنجیر یں بنی رہیں گی ہم اسی طرح پردیس کے ریگزاروں کو گلزاربناتے رہیں گے۔

شیئر: