Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدید فیشن :حیا کا پاسدار ’’ دوپٹہ‘‘ مردوں کا پہناوا

شرم مردانہ وصف اور بیباکی زنانہ وتیرہ بن گئی، ہماری خواتین نے دوپٹے کو طلاق دیدی-- - - - - - -  -

 

عنبرین فیض احمد۔ ریاض

- - - - - - - - -  - -

آج کل وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ فیشن میں تبدیلی آرہی ہے ، لباس کے انداز بھی بدل رہے ہیں۔ ہماری نسل نو ہرلحاظ سے باشعور ہے ، اسی لئے ہر موسم میں نئے نئے ڈیزائن کے ملبوسات کی بہاریں بازاروں میں دکھائی دیتی ہیں جنہیں دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ۔ وقت کے ساتھ انسان کی سوچ اور حالات میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے۔ دورِ قدیم میں ہماری بزرگ خواتین آپس میں اپنی دوستی کو مضبوط کرنے کیلئے دوپٹے تبدیل کیا کرتی تھیں اور مرد حضرات دوستی اور بھائی چارے کو نبھانے کے لئے پگڑیاں تبدیل کیا کرتے تھے لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے ، اب نہ لوگوں کے دلوں میں وہ خلوص رہا اور نہ ہی وہ اپنائیت تاہم پگڑی اور دوپٹے کو عصر نو میں بھی عزت اور غیرت کی علامت سمجھا جاتا رہاہے۔جیسے جیسے دنیا میں تبدیلی آتی جارہی ہے ،نئے اطوار دنیا کی دہلیز پر دستک دے رہے ہیں ، تیور بدل رہے ہیں اور جدتیں انگڑائی لے رہی ہیں۔ ہمارے پہناوے بھی تبدیل ہو رہے ہیں،ہماری تہذیب و تمدن میں انقلاب بپا ہو رہا ہے ۔

نجانے یہ بات ہماری عقل شریف میں کیوں نہیں آتی کہ وہ چیزیں جنہیں دیکھ کر ہمارے بزرگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے ، آج ہم بڑی بے باکی سے ان کی تقلید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔زیادہ دور کی بات نہیں، ماضی قریب میں بھی مشرقی عورتیں شرم و حیا کی پیکر کہلایا کرتی تھیں مگر افسوس آج وہ مغرب والوں سے بڑھ کر مغرب کی ریس کر رہی ہیں۔ماضی میں ہماری خواتین دوپٹہ یا چادر میں لپٹی سمٹی مستورنظر آتی تھیں، اسی لئے انہیں ’’مستورات‘‘ کہا جاتا تھا پھر نجانے کیا ہوا، اک ’’بے آستینی لہر‘‘ چلی اور دیکھتے ہی دیکھتے بچیوں، لڑکیوں، دلہنوں، عورتوں، بوڑھیوں سب کی آستینیں غائب ہو گئیں۔ شلوار قمیص کی بجائے قمیص کے ساتھ چست اور ٹخنوں سے بالا پاجامہ نما پوشاک نے خواتینِ پاکستان کا دل موہ لیا۔ جسے دیکھو ایسے ہی اوٹ پٹانگ پہناوے میں دکھائی دینے لگی۔ شاید ہمارا میڈیا ہمیں بے باک بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ہم کس سمت جارہے ہیںاس کی ہمیں خود خبرنہیں۔ پہلے ہمارے معاشرے میں بزرگ خواتین چادر یا عبایہ استعمال نہ کرنے وا لی خواتین کو ٹوک دیا کرتی تھیں لیکن جدید دور کی معمر خواتین نے انہیں ٹوکنا ترک کر ان کی تقلید کرنی شروع کر دی ہے ۔دوپٹوں کے بارے میں ذرا غور کیجئے ۔انہیں پہلے خواتین اپنے سروں پر رکھتی تھیں، پھر سروں سے اتر کر یہ گلے میں آگئے اور اب تو گلے سے ایک جانب لٹک گئے اور پھر غائب ہونے لگے ۔ ماضی میں خواتین گھر سے باہر قدم نکالنے سے قبل سرپر دوپٹہ اوڑھا کرتی تھیں مگر پھر وقت بدلا، ہر شے بدل گئی ۔ زمانہ ترقی کرگیا ۔

ہماری خواتین نے بھی سوچا کہ کیوں نہ ہم بھی اپنے معاشرے کو اسی طرح انگشت بدنداں کر دیں جس طرح سائنسی ترقی نے ہر کسی کو بھونچکا کر دیا ہے۔بس یہی سوچ کر ہماری خواتین نے دوپٹے کو طلاق دیدی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بازار ہو یا کوئی زنانہ یا مخلوط اجتماع،ہماری زیادہ تر خواتین کے ملبوسات میں ایسا کوئی چیتھڑا شامل نہیں ہوتا جسے دوپٹہ قرار دیا جا سکے۔اگر کسی خاتون نے دوپٹہ لے رکھا ہوتو بھی وہ ایک لاوارث بلکہ زائدپارچے کی طرح ایک طرف لٹکا دکھائی دیتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ چلا چلا کر دہائی دے رہا ہو کہ کوئی ہے جو میرا پرسانِ حال ہو؟‘‘ معلوم نہیں آج کل اکثر خواتین کو دوپٹے سے الرجی سی کیوںہوگئی ہے حالانکہ لفظ آنچل یا گھونگھٹ سے ماحول میں ست رنگی پیدا ہوجاتی ہے۔ ہم کتنے ہی ماڈرن کیوں نہ ہو جائیں مگر دوپٹہ ہماری پہچان رہنا چاہئے۔

آج ہمارے ہاں ہونے والی شادی بیاہ کی تقریبات میں لڑکیاں بغیر دوپٹے کے دکھائی دیتی ہیں جبکہ لڑکوں نےگلے میں دوپٹے پہن رکھے ہوتے ہیں۔ یہاںکہا جا سکتا ہے کہ آج کے دور میں: ’’ مجنوں نظر آتی ہے ، لیلیٰ نظر آتا ہے ‘‘ آخرہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا سبق دے رہے ہیں؟ ٹی وی پر دکھائے جانے والے فیشن شوز میں جب جھلملاتے ملبوسات میں دبلی پتلی حَسین شخصیات ریمپ پرگربہ خرامی کرتی نظر آتی ہیں تو گھروں میں بیٹھی معصوم و سادہ ذہن کی بچیاں بھی اپنی چال بھول کر گربہ خرامی کے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہیں۔کیا ہم فیشن کو اپنی مشرقی روایات اور تہذیب کے دائرے میں پیش نہیں کر سکتے؟کیا اس سے ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کم ہوجائے گی؟کاروبار کا بھٹا بیٹھ جائے گا؟ آج کل فیشن میں کیا اِن ہے اور کیا آؤٹ،یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ شوخ اور رنگین آنچل موجود تو ہیں مگر یہ خواتین ماڈلز کی بجائے مرد حضرات کے شانوں پر سجے ہوئے ہوتے ہیں ۔یہ کہاں کا فیشن ہے کہ جس میں مشرقیت اور اس کی تہذیب و روایات کی پہچان قرار پانے والا ، شرم و حیا کا پاسدار ’’ دوپٹہ‘‘ مردوں کے پہناوے کا حصہ بن گیا۔ یوں شرم و حیامردانہ وصف اور بے باکی زنانہ وتیرہ بنا دی گئی۔ واہ کیا خوب ہے یہ فیشن؟

شیئر: