Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مقبول اور ناپسندیدہ ترین شخصیات

 
غیر سرکاری تنظیم آر آئی آر نے اپنے سروے میں نواز شریف کو مقبول ترین اور الطاف حسین کو ناپسندیدہ ترین شخصیات قرار دیا ہے 
 
محمد اسلم محمود بٹ
 
ایک غیر سرکاری تنظیم آر آئی آر نے حالیہ سروے میں وزیراعظم نواز شریف کو ملک کا مقبول ترین سیاسی رہنما قرار دیا جبکہ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کو دوسرا مقبول سیاسی رہنما کہا گیا۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا نمبر تیسرا رہا۔ سروے میں پہلی مرتبہ ملک کی ناپسندیدہ ترین شخصیات بھی بیان کی گئیں جن میں ایم کیو ایم کے بانی اور خود ساختہ جلاوطن سیاسی رہنما الطاف حسین رہے ان کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اور تیسرے نمبر پر ناپسندیدہ ترین سیاسی شخصیت سابق صدر آصف زرداری کو بیان کیاگیا ۔ عموماً اس طرح کے سروے من و عن حقیقت حال پر مبنی نہیں ہوتے مگر ملک میں واقعی ایسی ہی صورتحال ہے جو بیان کی گئی ہے۔ اگر ملک میں ریفرنڈم بھی کروا دیا جائے تو وزیراعظم نواز شریف صف اول کے سیاستدان ثابت ہونگے جس کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا نمبر ہوگا۔
دانشور حلقوں کیلئے ملک کے ناپسندیدہ ترین سیاسی شخصیات کا تذکرہ کیاگیا ہے جو ان شخصیات سے قریب اور عقیدت کے حامل افراد کو گراں گزرا ہے جو اپنی خواہشات کے مطابق اس کے نتائج چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے لئے اس سروے کے نتائج حیران کن اور عوامی حلقوں کے نزدیک درست ہیں ۔ بلاشبہ سابق صدر زرداری اپنے دلآزار بیانات او راحمقانہ گفتگو کے ذریعے ملک کی ناپسندیدہ ترین شخصیت ثابت ہوچکے ہیں۔ انہو ںنے جس طرح ملک کے سب سے معزز ادارے پاک فوج کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور عمران خان کے بقول انہوں نے پاک فوج کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے تھے کہ وہ خود اپنے بیانات سے گھبرا گئے تھے اور طویل مدت کیلئے متحدہ عرب امارات میں جابیٹھے تھے۔ پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن نے بھی دبے لفظوں میں زرداری کو غیر ذمہ دارانہ گفتگو کاحامل قرار دیا ا وران خیالات کا اظہا کیا کہ پانامہ لیکس پر اظہار خیال کے نتیجے میں انہیں گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ آصف زرداری نے اس معاملے میں جن تحفظات کا اظہار کیا ہے ان سے صاف واضح ہے کہ وہ اپنے مذکورہ بیان کے خوف میں مبتلا ہیں۔ 
انہی کی طرح کے سابق دوست ایم کیو ایم لندن کے سربراہ الطاف حسین ہیں جو نام نہاد جوش جذبات میں فوج اور اعلیٰ عدلیہ کیخلاف سنگین الزامات عائد کرچکے ہیں اور پھر ہو ش میں آنے کے بعد غیر مشروط معافی مانگ چکے ہیں۔ انہوں نے کراچی شہر میں ایسی ہولناک دہشت قائم کر رکھی تھی کہ ان کے5 منٹ کے نوٹس پر شہر کو بند کرادیا جاتا تھا اور چندسال پہلے تک شہر بھر سے بوری بند لاشیں مل رہی تھیں۔ خود سابق صدر آصف زرداری ، الطاف حسین کے ناراض ہوتے ہی سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کو ان سے ملاقات کیلئے لندن بھجوا دیا کرتے تھے۔ یہ معاملہ اب تک پراسرار ہے کہ آخر طویل عرصہ تک الطاف حسین کی طرح لندن میں پناہ گزیں رحمن ملک کے پاس ایسے کیا راز موجود تھے جن کے سبب وہ الطاف حسین سے ا یک ملاقات میں ہی انہیں شیشے میں اتار لیا کرتے تھے۔ بلاشبہ آئی آر آئی کے سروے میںان کی نام نہاد مقبولیت اور اپنے ایک اشارے پر کراچی کو بند اور یہاں قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنے کی استعداد کے باوجود انہیں ملک کا ناپسندیدہ ترین سیاسی رہنما قرار دیا گیا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے ایک سرکردہ رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کروانے میں ملوث تھے جسے لندن پولیس کے شعبہ سراغرسانی اسکاٹ لینڈ کی سنگین غلطی بیان کیا جاتا ہے اور جس طرح الطاف حسین کیخلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ ختم کیا گیا جو لندن پولیس کی الطاف حسین کیلئے جانبداری کا ثبوت ہے۔
الطاف حسین گزشتہ 22 سال سے لندن میں مقیم ہیں۔ وہ لندن میں قیام کے دوران پاکستان کی سلامتی سے کھیلتے رہے اور عملاً حکومت پاکستان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ لندن کے فیصلہ سازوں کو یہ یقین تھا کہ الطاف حسین کراچی کی پاکستان سے علیحدگی کا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں جس کیوجہ سے پاکستان کا ازلی دشمن ہونے کے باوجود ہند نے بھی الطاف حسین کی مدد جاری رکھی تھی جبکہ کمال ڈھٹائی کے ساتھ الطاف حسین نے اپنے وطن سے خود ساختہ جلاوطنی کے باوجود تقریباً 10سال پہلے ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ہ ایک تقریب میں شرکت کی تھی اور پاکستان کے عوام کے خیالات اور نظریات کے برعکس ہندوستانی عوام سے اس امر پر معافی مانگی تھی کہ وہ 1947 ءمیں ہجرت کرکے پاکستان میں وارد ہوگئے تھے اور یہ 2 ریاستوں کا بٹورا نہیں تھا بلکہ دو قوموں کے خون کا بٹوارا تھا ۔ ان کیخلاف اس دلآزار ترین بیان بازی کے نتیجے میں غداری کا مقدمہ قائم ہونا چاہئے تھا مگر سابق فوجی صدر پرویز مشرف اس وقت برسراقتدار تھے جب ان کو اپنی قوم سے غداری کو کوئی جرم نہیں سمجھا گیاتھا۔
کراچی میں آج سابقہ دور کے مقابلے میں بہت حد تک امن ہے وہ وزیراعظم نواز شریف کی معاملہ فہمی کی وجہ سے ہے جنہوں نے کراچی میں نمائندگی کی حامل سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر رینجرز کے ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کیا۔ انہی کی حکمت عملی کے سبب ایم کیو ایم کے پاکستان میں موجود رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں پارٹی قیادت متحد ہوسکی۔ باور کیا جاتا ہے کہ کراچی ملک کا حساس ترین شہر ہے جس سے نبرد آزما ہونا ممکن نہیں تھا۔ ماضی میں عوام نے دیکھا کہ پرویز مشرف کے نیم فوجی دور اور پھر پیپلز پارٹی کے جمہوری دور میں کراچی کو درست خطوط پر چلانا ممکن ہی نہیں تھا اور شہر کے عوام اور خواص مسلسل لٹتے رہے اور ایم کیو ایم کے رہنما لندن میں داد عیش دیتے رہے۔ یہ کرشمہ وزیراعظم نواز شریف کا ہی ہے کہ انہوں نے اتنے حساس ترین شہر میں امن اور سیاسی استحکام قائم کردیا۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے صرف اور صرف حصول اقتدار کیلئے سیاسی حکمت عملی طے کرنے والے سیاسی رہنما ناپسندیدہ ترین سیاسی شخصیت کا روپ دھار کرسامنے آئے ہیں جنہوں نے پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں حکومت کو الٹنے کی کوشش کی تھی اور پھر درپردہ قوتوں کے تعاون سے عمران خان کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ ہاوس کے باہر 100 دنوں سے زیادہ کی مدت کا دھرنا دیا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری اچانک بیرون ملک روانہ ہوجانے کے عادی ہیں۔ انہوں نے 20 برس پہلے اتنے بڑے پیمانے پر اپنے دینی مدارس قائم کئے تھے کہ ان کے لئے عوام کو سڑکوں پر لایا جانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے مگر مذکورہ سروے میں انہیں بھی ملک کی ناپسندیدہ ترین سیاسی شخصیت قرار دیاگیا ہے جو اگر مکمل حقیقت نہیں تو حقائق کے قریب ترین ضرور ہے۔ 
******

شیئر: