Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معیشت کے خدوخال

 
لاکھوں گریجویٹس بے روزگار ہیں۔ نجی شعبوں میں اتنی وسعت نہیں کہ ان تمام افراد کو ملازمت دے سکے
 
کلدیپ نیر
 
بجٹ چاہے کتنا ہی دانشمندانہ کیوں نہ ہو یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ شاید وزیراعظم نریندر مودی حکومت نے اترپردیش کے انتخابات ہی کو پیش نظر رکھا ہے ۔ بجٹ میں نہ کوئی نئی تجویز ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی طویل مدتی منصوبہ ہے کہ محاصل کیسے وصول کیا جائے گا۔ اس کا پورا انحصار ٹیکس اور سبسڈی کی تخفیف پر ہے۔ اس طریقے کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس کے منفی اثرات بھی واضح ہیں۔ آج کے ہندوستان کو ملازمتوں کی اشد ضرورت ہے۔ لاکھوں گریجویٹس بے روزگار ہیں۔ نجی شعبوں میں اتنی وسعت نہیں کہ ان تمام افراد کو ملازمت دے سکے۔ زراعت میں 4.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے لیکن گریجویٹس وائٹ کالر جاب، کہلانے والی ملازمتوں کے متلاشی ہیں چاہے اس میں تنخواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ وزیر مالیات ارون جیٹلی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس بجٹ میں ملازمتوں کے مواقع نہیں فراہم کئے گئے ہیں لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اس بات کا دفاع کیا کہ جونہی معیشت میں تیزی آئے گی ملازمتیں دستیاب ہوجائیں گی۔
اس سے کالج چھوڑنے والے نوجوان کو تشفی نہیں ہوئی کہ جلد یا بدیر ملازمتیں ملنے لگیں گی۔ چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو کچھ راحت ضرور دی گئی ہے لیکن اس شعبے کو بہتر کرنے کیلئے پوری طرح موزوں نہیں ہے۔ سرکاری تجارتی ادارے نے جنہیں مثالی بلندیوں پر ہونا چاہیئے تھا وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے کیونکہ ان کے پاس وافر مقدار میں رقوم نہیں ہیں۔ اس بجٹ کی سب سے بڑی خامی یہ رہی کہ اس کی منصوبہ بندی صحیح طرح سے نہیں کی گئی۔ جب وزیراعظم نریندر مودی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی تو انہوں نے ادیوگ بھون کو بند کردیا۔ وہ منصوبہ بندی پر یقین نہیں رکھتے تھے اور جتنی ضروری ہو اتنی رقم خرچ کرنا درست سمجھتے تھے۔ ان کی اس سوچ میں اخراجات کا کوئی توازن ہی نہیں ہے۔ حکومت نے اس کی ضرورت محسوس کی لیکن خود اپنے اخراجات کی منصوبہ بندی کا کام متعلقہ وزارت پر چھو ڑ دیا۔
اب بھی ہماری ایک الجھن یہ ہے کہ خسارہ دینے والی سرمایہ کاری میں تخفیف کی جائے۔ جب افراط زر تقریباً 3.5 فیصد تک آگیا ہے تو زیادہ خرچ کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ ہمارا نظام اسے برداشت کرسکتا ہے۔ زیادہ خرچ کرکے ہی ملک کے سرکاری اور نجی شعبوں میں نئی تجارتی سرگرمیاں ہوں گی۔ وزیر مالیات نے یہ بات ٹھیک کہی ہے کہ انہوں نے سیاسی جوڑ توڑ کا نہیں بلکہ مالیاتی تدابیر کا سہارا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راشٹر یہ سویم سویک سنگھ (آر ایس ایس) نے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بجٹ توقعات پر پورا نہیں اترا۔ ارون جیٹلی بھارتیہ پارٹی (بی جے پی) کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کو نظرانداز کرکے ملک کی مالی صحت کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ سیاسی پارٹیوں کو ملنے والے چندوں کی رقم کو 20 سے 2 ہزار کرکے انہوں نے تمام سیاسی پارٹیوں کی خفگی مول لینے کا جوکھم اٹھایا ہے لیکن ان کی نگاہیں ملک کے سامنے ایک متوازن تصویر پیش کرنے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اس لئے سیاسی پارٹیوں کے چندے کے معاملے کو ہاتھ لگانا لازمی تھی۔ 
بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی حصص میں 486 نقطوں کا اچھال آنے سے بازاروں نے راحت کا سانس لیا ہے مگر جیسا کہ بہت سے لوگوں کو اندیشہ تھا کہ کوئی طویل مدتی منافع سرمایہ کاری محصول عائد نہیں کیاگیا۔ یہ درست ہے کہ یہاں کوئی پلاننگ کمیشن موجود نہیں ہے اور نہ ہی سوشلسٹ طرز کا معاشرہ ہے جیسا کہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کے تصور میں تھا لیکن معیشت کے خدوخال کا ہونا ضروری ہے۔ متوسط طبقے کو راحت دینے کی غرض سے حکومت نے ڈھائی  تا 5 لاکھ کی سالانہ آمدنی والوں پر 5 فیصد ٹیکس لگایا ہے۔ اس سے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوگا کیونکہ اب آمدنی کو مخفی رکھنا بھی ایک خطرہ ہے ۔ اس کا اندازہ بہت سے لوگوں کو 5 سو اور ایک ہزار روپے کے پرانے نوٹ تبدیل کراتے وقت ہوا ہوگا۔ بلیک مارکیٹ میں یہ نوٹ نصف قیمت میں فروخت کئے جارہے تھے۔
عام بجٹ کے ساتھ ریلوے کو جوڑ دینے کا حکومت کا فیصلہ کئی سال کی روایت سے انحراف ہے۔ جہاں تک مجھے یا د ہے ایسا آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ہوا کہ پارلیمنٹ کے سامنے مشترک بجٹ پیش کیا جائے ۔ اگر کچھ نہیں کرسکتے تو کم ازکم ریلوے کو تو سیاست سے دور رکھا جائے۔ 50 کروڑ تک کا سالانہ کاروبار کرنے والی کمپنیوں پر تجارتی ٹیکس کم کرنے کیلئے انتخابی بانڈز متعارف کرانے کا خیال نادر ہی نہیں بلکہ ممکنہ طور پر دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے پہلا قدم ہے۔ اس سے انتخابی سرمایہ کاری کو صحیح اور صاف ستھری سمت ملے گی۔ 3 لاکھ سے زائد روپے کے لین دین پر پابندی سے بینکوں کو لین دین والی بینکنگ کے بجائے ویلیو پر مبنی بینکنگ پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی۔ ابولیشن آف فارن انویسٹمنٹ پروموشن بورڈ(غیر ملکی سرمایہ کاری فروغ بورڈ ۔ ایف آئی پی بی) کے خاتمہ پر بیرون ملک سے آنے والی دولت کو صحیح سمت مل سکتی ہے۔
سستی جائدادوں کو بنیادی ڈھانچے کی حیثیت دینے اور معقول رقبے کے مکانات معقول قیمت پر دینے کا فیصلہ ہاوسنگ شعبہ کو مزید موثر بناسکے گا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وقت پر مکانات فراہم نہ کرنے والے بلڈروں کو اس پابندی کے تحت سزا ملے گی اور پیشگی ادائیگی کرنے والے افراد کو انہیں اس کا ایک حصہ لوٹانا پڑے گا۔ مودی حکومت ابھی عام انتخابات سے دور ہے۔ شاید اس کی نظر میں کوئی امکانی صورت ہو لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہی اور اس کا آئندہ عام انتخابات پر بہت خراب اثر پڑنے والا ہے۔ بے شک وہ دوبارہ اقتدار میں آنا چاہیں گے اور ان کا کام اس لئے بھی مشکل نہیں ہے کیونکہ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی ان کے بااثر حریف نہیں ہیں۔ مودی کے دوبارہ منتخب ہونے کا المیہ ہندو توا کو تقویت دے رہا ہے۔ آر ایس ایس کے صدر دفتر سے صادر احکامات بجالانے والے لوگ ملک کی خدمت نہیں کرسکتے۔
اس ملک میں آئین ہندو، مسلم ، سکھ اور عیسائی سب کو یکساں حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ بی جے پی آئین کو تبدیل نہیں کرسکتی کیونکہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں کہا کہ انتخابات کے دوران مذہب کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ وقعت الفاظ کی نہیں بلکہ جذبے کی ہوتی ہے اور معیشت کو اس کے مطابق ہی بدلنا ہوگا۔ 
******

شیئر: