Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کلی اور جزوی خارجی، امت کے لئے فتنہ

نصوص کتاب و سنت، علماء اور مستند مفتیانِ کرام کی پروا نہ کرنا، دین کو سیاسی مشغلہ بنانا اور من مانی تشریح کرناخارجیت کے مظاہر ہیں- - - - - -

شیخ عبدالمعید مدنی

- - - - - - - -

القاعدہ، داعش، النصرہ، بوکوحرام، الشباب اور جہاد کے نام پر مختلف فسادی تنظیمیں جو ایشیا ،افریقہ اور یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں اور بلا شرعی جواز قتل و خوں ریزی میں ملوث ہیں، سب نظریاتی طور پر ایک ہیں اور وہ تمام افکار و احزاب جو حکومتوں، علماء اور سماج سے باغی ہیں تبری اور ہجر کے قائل ہیں۔ سب خارجی ہیں اور اس وقت خارجیت کے جراثیم سب سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ جو لوگ اور گروہ بلا شرعی جواز قتل و خوں کے قائل ہیں اور یہ کام جاری کئے ہوئے ہیں ،وہ کامل خارجی ہیں۔ انہیں رسول پاک نے’’کلاب النار‘‘ یعنی جہنم کے کتے کہا ہے۔ ایسے لوگوں کے خون کو مباح کر دیا ہے۔ ایسے سیاسی مسلک والے خارجی سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، یہ ہر شے میں باغیانہ تیور رکھتے ہیں اور کلی طور پر خارجی ہوتے ہیں۔ وہ خارجی جو ہتھیار اٹھانے کے قائل نہیں، ان کا کوئی سیاسی مسلک نہیں ہوتا ، وہ فقہی یا سماجی یا عقدی یا دعوتی میدان میں خارجیت کی علامتیں اور روگ پال لیتے ہیں، یہ جزوی خارجی ہوتے ہیں۔ یہ بھی خطرناک ہوتے ہیں اور ان کی صحیح تربیت نہ ہو تو آہستہ آہستہ کلی خارجیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس وقت قلت علم، سطحیت، علوم دین سے بے خبری، اکھڑ پن، جذباتیت اور رد عمل نے دونوں قسم کی خارجیت کو بڑھاوا دیا ہے اور معروف کلی خارجیوں نیز جزوی خارجیوں کے افراد، شواذ انجمنیں، سرگرمیاں، ادارے اور احزاب اور ان کے آف شوٹ دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں۔ دونوں قسم کے خارجیوں کے ہم خیالوں اور ان سے انسیت رکھنے والوں کی کمی نہیں ۔ اگر کہیں کوئی کور کسر ہے تو آج کا کذاب میڈیا روز ہزاروں مسلم دہشت گرد پیدا کرتا ہے اور ان گنت دہشت گرد تنظیموں کی خیالی لسٹیں بناتا ہے۔ جو مسلمان اپنی خود مختاری ،اپنی بقا اور اپنی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں، مشرق و مغرب کے غلط کار انھیں دہشت گردی کی فہرست میں ٹانک دیتے ہیں، چنانچہ اب آزادی کی مقدس لڑائیاں بھی دہشت گردی میں بدل گئی ہیں۔ اس وقت اندھوں کے ہاتھ میں قضا ہے، یہی اندھے جس کو چاہتے ہیں دہشت گرد بناتے ہیں بلکہ انھیں اسلام کے سارے شعائر دہشت گردی معلوم ہوتے ہیں۔ کلی خارجیت جودہشت گردی کے کاموں میں ملوث ہوتی ہے یا جزوی خارجیت جو فساد فکر و نظر اور فساد عمل پھیلاتی ہے، دونوں اسلام میں مسترد ہیں اور دونوں دین و ملت کے لیے تباہ کن اور مضر ہیں۔ ہمیشہ علماء و فقہاء نے ان دونوں قسم کی خارجیتوں کو مسترد قرار دیا ہے۔ دونوں اپنی خوش فہمی، نادانی، سطحیت اور کم علمی کے سبب اتنے زیادہ نقصان دہ ہیں کہ ان سے پوری ملت اسلامیہ تباہی کے کگار پر ہے۔ خارجی چاہے کلی ہوں، چاہے جزوی، یہ عقل کے دشمن، منہج کے دشمن، سماج و ملت کے دشمن اور خود اپنے دشمن ہیں۔ اس وقت سارے عالم میں خارجیت اور رافضیت کو بھرپور بڑھاوا ملا ہے اور دونوں ایک ہی شجرۂ خبیثہ کی شاخیں ہیں۔ مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ دونوں کو تحریکیت سے تائید ،حمایت اور شادابی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح3،3 مصیبتیں ملت اسلامیہ کے اوپر مسلط ہیں۔ ان کی پہچان بھی قائم ہے اور واضح ہے مگر امت کے بعض رہبر و رہنما طبقے نے انھیں بھرپور حمایت دے رکھی ہے۔ ان کی تباہ کاریاں عیاں ہیں پھر بھی ان کی حمایت میں امت کی رہبری کا دعویدار طبقہ لگا ہوا ہے۔ تکفیری اور قتالی خارجیوں کو دنیا نے جان لیا ہے اور خود ان کی حرکتیں، ان کے بیانات، ان کے اعمال و افکار اور ان کی خونریزیاں لوگوں کے سامنے ہیں۔ جھوٹا میڈیا ایک طرف، امت کا تعلیم یافتہ دین دار اور سمجھ دار طبقہ ان کے ضلال و وبال کے متعلق متفق ہے اور انھیں امت اور انسانیت کے لیے عذاب مانتا ہے، ان کا صفایا ہو، اس پر یقین رکھتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کہاں سے آگئے؟ زمین سے ابل پڑے، آسمان سے ٹپک پڑے؟ نہیں ان کو ظالم حکمرانوںکے ظلم، بر صغیر اورمشرق وسطی کی تحریکیوں کے افکار و حرکات اور تصرفات نے پیدا کیا اور سب سے زیادہ ان کو بڑھاوا ملا دشمنان اسلام کی معاونت اور پروپیگنڈہ سے۔ تکفیری، قتالی خارجیوں کے جنم داتا یہی عناصر ہیں اور یہ بھی اعتراف ہونا چاہیے کہ ان کا ذہنی رویہ اور رجحان تحریکی افکار و تصرفات سے بنا ہے۔ظالم حکمرانوں اور دشمنان اسلام نے انھیں رد عمل کا شکار بنایا، تحریکیوں کے صحوۃ اسلامیہ (اسلامی بیداری) کے یہ ثمرات ہیں۔36سالوں سے اس فتنے کی تردید کرتا آرہا ہوں، جب سے شعور آیا ہے ،اس کو فریب قرار دیتا آیا ہوں اور اب تو اس صحوۃ کا حال لوگوںکے سامنے ہے۔ اس تحریکیت سے بے شمار مظاہر خارجیت پیدا ہوئے، اسی تحریکیت نے ہی کلی خارجیت اور جزوی خارجیت کو جنم دیا، مظاہر خارجیت کے شکار ہو کر بے شمار جزوی خارجی پیدا ہوئے اور ہر طرف پھیل گئے،اس تحریکیت نے تقریباً30مظاہر خارجیت نوجوانوں کو دیے۔اس کی تفصیل میری کتاب ’’خارجیت کو پہچانو‘‘ میں ملے گی۔ انہی مظاہر خارجیت نے نوجوانوں کو سرپھرا بنایا ہے اور یہی مظاہر خارجیت ہیں جن کے حامل نوجوان رافضیت کے دیوانے ہیں اور آنکھ بند کرکے خمینی، ایران اور ایرانی فریب دہ سرگرمیوں پر پروانہ وار فدا ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ انھیں کی پہچان ہے کہ نصوص کتاب و سنت، علماء، صلحاء اور مستند مفتیانِ کرام کی پروا نہیں کرتے، بلا جانے دین کو روز مرہ کا سیاسی مشغلہ بنا ڈالتے ہیں اور روز مرہ واقعات کی روشنی میں دین کی تشریح کرنا چاہتے ہیں۔ اسی مظاہر خارجیت کا نتیجہ ہے کہ یہ قرآن کی تفسیر کو کھیل سمجھتے ہیں، حدیث رسول کو بائی پاس کرکے اپنی چلانا چاہتے ہیں، اصحاب کرام کی اہمیت نہیں سمجھتے، ان کے نزدیک حدیث ہما شما کی بات ہے، یہ وجہ انتشار ہے اور اصحاب کرام عام لوگوں کی مانند ہیں۔ جمہوریت اور سیکولرزم ان کے قلوب و اذہان میں عقیدے کی جگہ لے چکا ہے، یہی اتحاد کا الحادی مادہ پرستانہ، دنیا دارانہ نظریہ پیش کرتے ہیں۔ اس وقت تحریکیت کے سائے میں مظاہر خارجیت کے حاملین مسٹر لوگ، سیکولر تعلیم یافتہ ٹائی برانڈ داعی، خطیب اور مفتی کثرت سے سارے عالم میں کام کرتے ہیں اور روز بروز صحوۃ اسلامیہ کو جزوی خارجیت میں بدلتے ہیں اور ساری دنیا سلطان میڈیا کے زیر اثر انھیں کو رہبر ورہنما ،پیرو مرشد بنائے بیٹھی ہے اور مستند علماء عوام کی گالی سننے کے لیے رہ گئے ہیں۔ کیا اس سے بڑا فتنہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟ اس سے دین و ملت کی جڑیں کھوکھلی ہورہی ہیں اور دین ایک فیشن بنتاجا رہا ہے۔رافضیت اس وقت ایران اور ولایت فقیہ کے زیر اثر سارے عالم میں متحد ہے۔ تشیع کے سارے فرق جو ایک دوسرے کی تکفیر کرتے تھے، سب مستنداور قابل قبول بن چکے ہیں۔ اس وحدت نے اہل سنت اور خاص کر سلفیت کے خلاف محاذ بنالیا ہے اور دنیا کے سارے کفار اعدائے اسلام سنیوں سے لڑنے کے لیے اسے اپنا نمائندہ بنا چکے ہیں۔ اسے نیوکلیر پاور تسلیم کرلیا گیا ہے، اس کی ہرطرح کی جنگی مدد ہو رہی ہے، سارے تحریکی اور صوفی و قبوری بھی اس کی قیادت تسلیم کر چکے ہیں۔ ایران ان سب کا نمائندہ بن کر مشرق سطی کا مالک و مختار بننا چاہتا ہے۔ اس میں اسے نمایاں کامیابی مل رہی ہے۔ایران میں سنیوں کو صفر بنا چکا ہے ، عراق میں شیعہ اقلیت کو زبردستی اکثریت دکھا کر عراق کو شیعہ ملک بنا چکا ہے، لبنان پر اس کا میمنہ حزب اللہ قابض ہے، سیریا کی 86فیصد سنی آبادی تباہ ہو چکی ہے، ناٹو، ایران اور روس نے بشار الاسد ایرانی حلیف کی ہاری ہوئی جنگ کا پانسا پلٹ دیا ہے، بشار اسد صرف 10فیصدشام پر حکمراں رہ گیا تھا، اب40فیصد کے قریب علاقے پر حاوی ہو رہا ہے۔ ایران اور عالمی دشمنان اسلام نے ایران کے زیدیوں کو خونخوار رافضی بنادیا اور6فیصد حوثیوں کے ایسے ولولے اٹھے کہ یمن پر قابض ہوگئے۔ عراق، بحرین اور یمن کے راستے اسلام دشمنوں اور ان کے ایجنٹ ایران نے سعودی عرب کو گھیرنے کی کوشش کی۔ اپنے بچاؤ کے لیے سعودی عرب نے ہر طرف جدو جہد جاری رکھی، یمن پر حوثی قبضے کے خلاف اس نے اعلان جنگ کر دیا۔ اس تیسرے سب سے بڑے فتنے کا شعور و ادراک باشعور رعلماء اہل سنت نے فورا کیا اور خصوصا سلفی علماء نے اس کی تردید میں کتابوں کا انبار لگا دیا، دستاویزات کے ڈھیر لگا دیے، مگر حکومتی پیمانے پر سعودی حکومت نے اول دن سے اسے بھانپا اور اول دن سے سعودی عرب اس کے نشانے پر تھا، مسلسل سعودی مملکت نے اس کے تھمنے کی تدبیریں کیں لیکن وہ کیا کرتی، اب جا کر بہت سے ممالک کو اس کا ادراک ہوا ہے لیکن بہت تاخیر سے ،تب تک مشرق وسطی تہ و بالا ہو چکا ہے۔ ایران اور دشمنان اسلام نے مل کر پاکستان اور افغانستان کو تباہ کر دیا۔ اس وقت مسلمان سیاست، تعلیم، دین، معیشت، فکر و فن معاشرت ہر محاذ پر بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور چاروں طرف سے فتنوں اوردشمنوں کے گھیرے میں ہیں۔ یہ لڑائی بھی بہت کم لوگ لڑ رہے ہیں، اکثریت غفلت میں ہے ،عوام کی بات ہی کیا۔ ملت کے سیکولر رہنما تو اس وقت بے شعوری، چاپلوسی اور مغرب کے رویوں کی وفاداری میں لگے ہوئے ہیں۔ دینی رہنما غفلت اور بے حسی کا شکار ہیں یا دین کے ذریعے دولت کمانے میں لگے ہیں۔ہم دوسرے کی بات کیا کریں، ہمارے دینی رہنما حیدرآباد کے چار مینار کی مانند سرپراونچی ٹوپیاں رکھ کر کاسۂ گدائی لیے پھرتے ہیں اور عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ چوزے بھی اونچی ٹوپی پہن کر اونٹ بنتے ہیں۔ مگر یاد رہے امت محمدیہ نہ ہارے گی نہ تھکے گی۔ اس کا وقفۂ بقا قیامت تک ہے، طائفہ منصورہ کو کون ہرا سکتا ہے، وہ گروہ تو ضرور کامیاب ہوکر رہے گا۔ بقیہ سارے دشمنان اسلام اور فتن خس و خاشاک کی طرح بہ جائیں گے، ان کا پتہ بھی نہ لگے گا، یہ فیصلہ الٰہی ہے، اسے کوئی ٹال بھی نہیں سکتا۔

شیئر: