Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سسرال میں ملکہ جیسا برتاؤ ہوا ، طاہرہ تصدق

خاتون ِ خانہ اپنی صلاحیتوں کا مثبت استعمال کرتی ہے تو شوہر کی کامیابی کو چار چاند لگ جاتے ہیں- - - - - - -

تسنیم امجد ۔ ریاض

------- ------ -----

زندگی کی گہما گہمی میں سچ پوچھئے تو دیس اور پردیس میں فرق صرف لفظوں تک محدود رہ گیا ہے کیونکہ فاصلے تو مٹ چکے۔ ساری دنیا ننھی سی اسکرین پرسمٹ آئی ہے ۔ ’’بس ذرا سی کلک‘‘، پھر جتنی چاہے باتیں کریں۔اس ٹیکنالوجی نے نئی نئی سہولتیں فراہم کیں تو ساتھ ہی نئے نئے سوالات بھی سماعتوں کی نذر ہونے لگے مثلاًایک بھائی نے دوسرے سے کہا کہ بھیا!اگر ہائی ریزولیوشن والی جسیم اسکرین پر وڈیو کالنگ کر لی جائے تو بالکل ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے گھر میں آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں خیال آتا ہے کہ اتنے ہزاروں روپے صرف کر کے وطن آنے کی بجائے وڈیو چاٹنگ کر لی جائے توبہتر ہے اور یہی دانشمندانہ فیصلہ ہے ۔ بھیا نے اس کا جو جواب دیا ، وہ سنہری حروف سے رقم کرنے کے لائق ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ کہاں یہ وڈیو چاٹنگ اورکہاں اُس آواز کی چہک،کہاں اُن قربتوں کی مہک، کہاں وہ چوڑیوں کی کھنک، کہاں وہ چال کی لہک، کہاں جذبات کی گرمی، کہاں سماعتوں کی نرمی، کہاں چاہتوں کی آس، کہاں نظروں کی بجھتی پیاس، کہاں وہ سر سے سرکتا آنچل، کہاں وہ زلفوں کے سیاہ بادل، کہاں وہ باورچی خانے سے آتی چھن چھن کی صدا، کہاں وہ گرد اُڑاتی ہوا ، کہاں وہ روٹھنے کا بہانا، کہاں وہ کسی کا منانا اور کہاں یہ وڈیو چاٹنگ ۔تم اپنوں میں رہتے ہو اسی لئے وڈیو چاٹنگ کو ملاقات کا نعم البدل گردان رہے ہو۔ پردیس کی تنہائی کاٹی ہوتی تو یہ بات کبھی نہ کہہ پاتے ۔ حقیقت ہے کہ لبِ دریا بیٹھ کر ’’پیاس‘‘ پر تقریر کرنا نہایت آسان اور اس کا احساس کرنا انتہائی مشکل ہے مگر صحرا میں رہ کرپیاس کا ا حساس کرنا انتہائی آسان اور اس پر تقریر کرنا انتہائی مشکل ہے ۔پیاس کی شدت گویائی مشکل کر دیتی ہے اور پردیس میں جینا تنہائی مشکل کر دیتی ہے۔‘‘ اردونیوز ’’ہوا کے دوش پر‘‘فضاؤں کا مقدر ہونے والے صوتی جذبات و احساسات کو قرطاس پر منتقل کر کے قارئین کے لئے پیش کرتا ہے ۔اسے شناسانِ ریختہ کاہردلعزیزسلسلہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔

رواں ہفتے ہماری مہمان محترمہ طاہرہ تصدق تھیں جوکم گو اور ہمہ صفت شخصیت کی مالک ہیں۔ ان کی شخصیت پر نام کے اثرات غالب ہیں۔کہنے لگیں والدین کی جانب سے دی جانے والی تربیت نے ہمیں خوب سے خوب تر سے آشنا کیا۔ ہماری والدہ مسز سعیدہ ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کے حالات و واقعات سناتیں ، ان سے ہم بہت کچھ سیکھتے تھے ۔ہمارے بابا سید مستعان علی خوبصورت لحن میں تلاوت کرتے ۔ماماایک پارہ روزانہ پڑھتیں اور پھر ہمیں اس کا ترجمہ سناتیں اور بار بار نصیحت کرتیں کہ بیٹا! اپنے عمل پر توجہ دو ، یہی ساتھ جائے گا۔ ہم نے والدین کو لان میں پودے لگاتے دیکھا۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ ان پودوں سے بھی ہمیں اپنے بچوں کی طرح پیار ہے ۔ آج ماما تو نہیں لیکن بابا کا معمول آج بھی وہی ہے ۔اکثر انہیں خود کلامی کرتے سنا ہے۔ ایک دن میں نے پوچھ لیا کہ یہ آپ کس سے بات کرتے ہیں ،قریب تو کوئی بھی نہیں ہوتا تو فوراً بولے کہ بیٹی خیالوں ہی خیالوں میں تمہاری ماما میرے ساتھ ہوتی ہیں۔‘‘ یہ سن کر میں یہ سوچتی ہوں کہ سناتو یہی تھا کہ وقت بہت بڑا مرہم ہوتا ہے لیکن شاید بعض رشتوں کی دوری سے لگنے والے زخموں کا مرہم آج تک دریافت نہیں ہوسکا۔ زندگی یقینا ایک امتحان ہے۔ مجھے بھی ماما بہت یاد آتی ہیں۔ میں تو خود ایک ماں ہوں ۔خود کو اپنے بچوں میں بھولنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن بابا اکیلے ہوگئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ شریک حیات کی جدائی نے مجھے نئے راستوں سے آشناکیا ۔30 برس سے زیادہ کی ملازمت کے دوران انہوں نے میری رہنمائی اس طرح کی کہ میں ایک حساس اور ذمہ دار پوسٹ پر نہایت کامیابی سے اپنے فرائض ادا کرتا رہا۔ آرڈننس فیکٹری سے ریٹائرمنٹ پر مجھے جو سر ٹیفکیٹ ملا، اسے میں آپ کی ماما کے نام کرتا ہوں ۔

طاہرہ تصدق کی آنکھوں میں چمکتے موتی والدین کی محبت کی ترجمانی کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ والدین کی شفقتوں اور ان کے ساتھ بیتے لمحات پر میں ایک مکمل کتاب لکھوں تو وہ بھی کم ہو گی۔ طاہرہ نے کہا کہ مجھے گھر کے ماحول سے ہی پڑھنے کا جنون ہوا۔ نصاب کی کتاب بھی کئی بار پڑھتی۔ میں نے فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی سے ایم بی اے فنانس کی ڈگری اول درجہ میں حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم واہ کینٹ سے مکمل کی۔ بی کام راولپنڈی کالج آف کامرس سے کیا۔ تعلیمی سرگرمیوں میں بھی خوب حصہ لیا۔ہر پروگرام میں شرکت کرنا اور پھر انعام حاصل کرنا میرے لئے گویا ضروری ہو گیا تھا۔اسپورٹس اور آرٹ کے علاوہ میگزین میں لکھنا بھی مشغلہ رہا۔ لکھنے کا شوق تو ابھی تک ہے ۔

اسی دوران طاہرہ کے شوہر تصدق گیلانی بھی تشریف لے آئے۔ کہنے لگے کہ آج کا دن مصروف اور خوبصورت رہا ۔میں نے ’’موٹیویشنل لیکچرز‘‘ دئیے۔ مجھے وطن میں آکر ایسی مصروفیات بہت بھاتی ہیں۔ ’’اسٹریٹ ٹو اسکول‘‘ پراجیکٹ بہت عمدہ فلاحی منصوبہ ہے جسے سمندر پارپاکستانیوں نے شروع کیا ہے جو ایسے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں جن کے لئے مزدوری بھی ناگزیر ہوتی ہے تاکہ گھر کی روٹی بھی چل سکے۔ طاہرہ نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر جتنا بھی ادا کروں، کم ہے جس نے مجھے تصدق جیسا شوہر عطا فرمایا۔

دوران تعلیم میرے سسر سید فاروق گیلانی اور ساس محترمہ ممتاز نے اپنے اکلوتے بیٹے کے لئے مجھے اس وعدے پر مانگ لیا کہ باقی تعلیم ہم مکمل کرادیں گے ۔ انہوں نے محبتوں کے پھول نچھاور کردئیے اور اپنا وعدہ بھی وفا کیا۔ میں اسی طرح یونیورسٹی جاتی رہی ، اکلوتے بیٹے کی بہو ہونے کے ناتے سسرال میں میرے ساتھ ملکہ جیسا برتاؤ ہوا ۔ تصدق نے الیکٹرانکس اور کمیونیکیشن انجینیئرنگ میں ماسٹرز کیا ہے اور آج کل سعودی عرب میں ایک کمپنی میں ذمہ داریاں اداکررہے ہیں۔ آج ساس امی اور سسر ہم میں نہیں لیکن ان کی خوبصورت یادیں ہر لمحہ میرا حصار کئے محسوس ہوتی ہیں۔

ایک بات تو میں ضرور شیئر کرونگی کہ جب میں یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہوا کر انہیں سلام کرنے آتی تو دونوں میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ۔امی مجھے پیار کرتیں ا ور فوراً پاکٹ منی کینٹین کے لئے دیتیں ۔ یقین کیجئے ان روپوں میں جو مزہ تھا ،وہ میں آج تک نہیں بھولی۔ ایک سوال کے جواب میں طاہرہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تین بیٹیوں علیہا سید، صبینہ سید، ازکا سید اور ایک بیٹے اواب گیلانی سے نوازا۔ ماشاء اللہ سبھی دینی اور دنیاوی تعلیمات میں نمبرون ہیں۔ علیہا سید کو ابھی سے قلم سے محبت ہے ۔ وہ ابھی اخبار و میگزینز میں انگریزی میں لکھتی ہے لیکن اس کا کہنا ہے میں اردو میں بھی لکھوں گی ۔ اواب تو اپنے بابا کے ساتھ ابھی سے اسپورٹس ، گالف، کرکٹ، بیڈمنٹن کے کلب میں جاتا ہے۔ ان کی موٹیویشنل اسپیچز میں بھی بضد ہوکر شامل ہوتا ہے۔تصدق گیلانی نے کہا کہ طاہرہ محنت ، بلند ہمتی ، دوسروں کے بارے میں محتاط اور اچھی رائے ان کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ طاہرہ میری کامیابیوں کو اپنی کامیابیاں جاننے والی، مجھے نئی سمتوں کی جانب گامزن کرنے والی ، نیک اور بہترین مشیر کی حیثیت رکھنے والی شریک حیات ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے ایسی ساتھی سے نوازا ۔

محترمہ طاہرہ ، اپنے شوہر کی جانب سے اظہار تشکر پر حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہوئیں اور کہنے لگیں کہ چلو اچھا ہوا ،آج اردو نیوز کی بدولت کچھ رازوں پر سے پردہ تو اٹھا۔انہوں نے خواتین کے نام پیغام میں کہا کہ جب خاتونِ خانہ اپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں استعمال کرتی ہے تو شوہر کی کامیابی کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور دنیا و آخرت کی کامیابیاں مقدر بن جاتی ہیں ۔ معاشرہ گھروں سے بنتا ہے، جب گھر آسودہ اور خوشحال ہوگا تو اثرات معاشرے پر دیکھے جاسکیں گے۔بقول شاعر:

کانپتا ہے دل تیرا اندیشۂ طوفاں سے کیا

 ناخدا تو ، بحر تو،کشتی بھی تو ،ساحل بھی تو

شیئر: