Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساس اور بہو، آخری سانس تک دو بدو

شادی ایسا بندھن ہے جو اپنے اندر بے پناہ خوشیاں سمیٹ کر لاتا ہے۔ اس خوشی کو برقرار رکھنے کے لئے تھوڑے صبر اور برداشت سے کام لینا پڑتا ہے

عنبرین فیض احمد ۔ ریاض

آج کے دور میں ساس اور بہو کے رشتے میں بھی مادیت کا عنصرغالب نظر آتا ہے۔ ساس اور بہو کسی ندی کے دوکنارے ہوتے ہیں جو کبھی مل نہیں سکتے۔ یہ آخری سانس تک دو بدو رہتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رشتو ں کا تقدس اور احترام ہی زندگی کا اصل حسن ہے ۔ والدین اور بہن بھائیوں کے علاوہ بھی زندگی میں ایسے رشتے ہوتے ہیں جن کو ایک خاص تناظر میں ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے ،وہ ہیں ’’سسرالی رشتے‘‘۔ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر عورت کو ہی ان رشتوں سے نباہ کرنا پڑتا ہے۔

سب سے زیادہ واسطہ ’’ساس‘‘ یعنی شوہر کی ماں سے ہی پڑتا ہے۔ اکثر گھرانوں میں شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد ساس، بہوکے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔اکثر ان جھگڑوں میں گھر کے باقی افراد بھی حصہ لینے لگتے ہیں۔ اس کھینچا تانی میں شوہر ،کبھی بیوی کی حمایت کرتا ہے تو کبھی ماں کی ۔ اس طرح گھر کا ماحول سکون و چین جاتا رہتا ہے۔ شادی ایسا بندھن ہے جو اپنے اندر بے پناہ خوشیاں سمیٹ کر لاتا ہے۔ اس خوشی کو برقرار رکھنے کے لئے تھوڑے صبر اور برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس لئے بہو کو چاہئے کہ ساس کی باتوں کو درگزر کرے اور ان کو عزت دے۔ ساس کو بھی چاہئے کہ گھر کی الجھنیں اور پریشانیاں اپنی شادی شدہ بیٹیوں کو بتانے کی بجائے بہو کو بتائیں اور اس سے مشورہ کریں ۔ بہو کو ہر بات پر برابھلا کہنے کی بجائے اسے پیار محبت سے سمجھائیں تو یقینا حالات مختلف ہونگے۔ آج کے دور میں لڑکیاں ہر رشتے کو نبھانے کی کوشش کرتی ہیں خواہ وہ بیوی کا ہو ، بہو کا ہو،بھابھی کا ہو، دیورانی کا ہو یا پھر جٹھانی کا۔ وہ اپنے اچھے رویے اور رکھ رکھاؤ سے سسرال میں نام اور جگہ پیدا کرلیتی ہیں ۔ اپنے گھر کے معاملات دوسروں تک نہیں پہنچنے چاہئیں۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے گھروں سے زیادہ دوسروں کے گھروں کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ جہاں کچھ اونچ نیچ ہوتی نظر آتی ہے وہاں دوسرے ان کی بربادی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی بربادی کا مزہ لیتے ہیں۔ اس لئے اپنے معاملات کو خود ہی آپس میں بڑے ہی آرام اور خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرلینا چاہئے۔اپنے طرزِ عمل سے آپ اپنے گھر کو مثل جنت بھی بناسکتی ہیں اور جنگ و جدل کا میدان بھی۔ ہم ان رشتوں میں محبت بھی بھر سکتے ہیں اور نفرت بھی۔ یہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمیں پرسکون زندگی چاہئے یا پریشان کن ۔ کہتے ہیں کہ انسان کی عادت بدل سکتی ہے لیکن فطرت نہیں بدلتی ۔ اس لئے اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بات بات پر ٹوکناشاید ساس کی عادت ہوتی ہے ۔ بہو کی ہر بات خواہ وہ اچھی ہو یا بری ،اس پر ساس کو ٹوکنا ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ساس کی ان سنی کرنا بہو کا کام ہوتا ہے۔ ساس اور بہو کا رشتہ خواہ کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، اس میں کریلے کی سی کڑواہٹ ضرور ہوتی ہے ۔ بہو اگر اپنی ساس کو ماں سمجھ کراس کے ساتھ حُسنِ سلوک روا رکھے تو زندگی پر سکون گزر سکتی ہے ، گھر کا سکون برقرار رہ سکتا ہے۔ گھر کے بزرگوں کا یہ حق ہے کہ بہو اور بیٹی میں فرق روانہ رکھیں بلکہ بہو کو بیٹی کا درجہ دیں ۔اپنی محبت کو برابر تقسیم کریں ۔ بہو ایک خاندان کو جوڑ کر رکھ سکتی ہے اور چاہے تو اسے تتر بتر بھی کر سکتی ہے ۔ گھر کے بزرگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ گھر آنے والی دلہن کا خیال رکھیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کریں ۔ ہر وقت کے لڑائی جھگڑے سے بچوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

شیئر: