Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمسفر سے رازِ دل کہنے کو ہے درکار پیج

فیس بک ،پہلے ہم تیرا مذاق بناتے تھے ،اب تو نے ہمیں مذاق بنادیا،فیس بک تجھے سلام تو نے وہ کردیا جو میں نہ کرسکی، وہ کہہ دیا جو میں کبھی نہ کہہ سکی۔ بے یقینی کو یقین میں بدل دیا

مسز ربانی ۔  جدہ

- - - - - - - -

شاہ صاحب کسی گاؤں سے تھے،نہ ان پڑھ،وہ تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود نہایت سادہ اور معصوم شخصیت کے حامل تھے ۔ہمیشہ اپنی ذات کی نفی کرتے اور سامنے والے کو اہمیت دیتے۔ والدین کے اکلوتے نہیں تھے پھر بھی اکلوتے کی طرح ماں باپ کے آگے پیچھے رہتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں نے رشتے کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں جانی۔ ان کی سچائی، سادگی اور دوسروں کا احترام میری نظر میں بہت معنی رکھتا تھا۔ میں ان کی بہت قدراور احترام کرتی تھی جوباہمی محبت کے لئے ضروری ہے۔وہ گھر سے پہلی بار نکلے تھے اور میں بھی پہلی مرتبہ تنہائی کا شکار ہوئی تھی۔

میں یہ سوچ کر بہت روتی تھی کہ یہاں میں اپنی فیملی میں رہ کردن رات گزارلیتی ہوں ، ان کاوہاں تنہائی میں کیا حال ہوگا، بے چارے کس طرح گزارہ کرتے ہوں گے؟ کئی سال تو فون بوتھ پر لائن لگتی رہی اور آتے جاتے رہے پھریوں ہوا کہ ایک مرتبہ چھٹی پرآئے تو بہت ہی مہنگا ٹچ موبائل لے آئے۔ میں نے فون کوخوب انجوائے کیا ۔میں نے ان کو مشورہ دیا آپ بھی ایسا ہی موبائل لے لیں پھر وڈیو کال پر بات کریں گے ۔وہ کہتے ،نہیں عادت پڑ گئی تو وقت ضائع ہوا کرے گا مگر پھر میری ضد پر لے ہی لیا۔ اب بآسانی وڈیو کال ہونے لگی۔ اگلی چھٹی پر دونوں کے پاس ٹکر کا موبائل تھا،ساتھ ہی بچوں کے لئے بھی تحفے کے طور پر موبائل۔ وارے نیارے ہوگئے، ہر کوئی موبائل میں مگن ، یہ دیکھو اور وہ دیکھو ۔ یونہی وقت گزرتا گیا۔ شاہ صاحب نے ترقی کرلی ۔ایک لیپ ٹاپ ، ٹیب چھوٹی، سادہ موبائل ، بڑاٹچ موبائل اور نیٹ کے لئے ڈیوائس۔

اب جہاں وہ بیٹھتے ، یہ سارا سامان حیات اور اس کے چارجرز، ہینڈ فری، بلوتوتھ اور وہ ساری چیزیں جن کا میں نام بھی نہیں جانتی۔ وہ بہت خوش تھے ان کی ایک دنیا تھی ، والدین گزر گئے، بچے بڑے ہوگئے ، گھر کا منظر بدل گیا تھا۔ بیوی بچے شوہر سب اپنی اپنی دنیا میں مگن تھے۔

مجھے شاہ صاحب کے گم ہونے کا افسوس ہوتا ۔کسی پر واٹس اپ پیغام، کسی پر وڈیو کال، کسی پر دفتری کام اور کسی پر آفس کی سم یعنی زندگی اس کی مرہون منت ہوکر رہ گئی ۔ ایک دن میں نے شکوہ کیا کہ آپ پہلے جیسے نہیں رہے، اردگرد سے بے خبر ہوکر انہی چیزوں میں گم رہتے ہیں ۔ وہ بولے کہ’’ اچھا یہ لو، اگر تمہیں میری خوشی بری لگتی ہے تو رکھ دو ، پھینک دوان سب کو۔‘‘ میں حیران رہ گئی کہ ایک سادہ لوح انسان کس طرح ایجادات کی نذر ہوگیا ۔ خیر اب عادت سی ہوگئی تھی۔ بس انتظار ہوتا تھا کہ کال آئے جودن بھر میں 4سے پانچ کی بجائے گھٹ کر 2رہ گئی تھیں۔ میں نے شکوہ کیاتو جواب ملا کہ بار بار کال سے بل آتا ہے اور پھر میں اکیلا رہتا ہوں، پکانا ، کھانا، ٹائم کہاں؟ ایک دن شاہ صاحب نے کہا تم مجھے لائک نہیں کرتیں۔میں نے حیران ہونے کی بجائے کہا کہ کیا مطلب لائک کا؟ میں تو جان چھڑکتی ہوں۔ لائک تو بہت چھوٹی سی چیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ میرا مطلب ہے ،فیس بک پر میری پوسٹ لائک نہیں کرتیں۔‘‘ اچھا یعنی اب یہ بھی ضروری ہے، خیر کردوں گی۔ شاہ صاحب کی کال آتی تو زیادہ تر یہی باتیں ہوتیں کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں زندگی کیا ہے ۔میں کہتی کہ اچھا چلیں بتائیں، کیسے گزارتے ہیں زندگی ؟تمہیں پتہ ہے بیویاں کیسی ہوتی ہیں ؟اگر پتہ ہوتا توتم میری تعریف کرتیں، مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کرتیں، میرے بغیر تنہائی کو اذیت سمجھتیں۔ میں نے کہا ،یہ سب تو میں کرتی ہوں مگر اپنے دل سے، اپنے عمل سے۔ ہاں تو پھر دل میں رکھو، مجھے کیسے پتہ چلے گا ؟ میں حقیقتاً شاہ صاحب کے رویے کو ایک صحت مندانہ نظر سے نہیں دیکھتی تھی کیونکہ وہ ایک متزلزل شخصیت تھے۔ کسی وقت کچھ ،کسی وقت کچھ ۔اگر ان کی بات سے اختلاف کرو تو جھگڑا ، خاموش رہو تو اہمیت نہ دینے کا شکوہ اور جواب دو تو بدزبانی۔ میں ان کو شروع میں دیکھ چکی ہوں، اب موازانہ کرتی ہوں تو لگتا ہے کہ میں نے سب کچھ کھودیا ۔

ہم مہینوں ساتھ رہتے تھے اور سالوں یاد رکھتے تھے ۔اب سالوں ساتھ رہتے ہیں اور گھنٹوں بات نہیں کرتے۔ اگربات ہوتی ہے تو کسی رشتے ،کسی پوسٹ یا کسی مسئلے پر ۔ آج شاہ صاحب کی پوسٹ دیکھ کر دل بہت پریشان ہوا کہ لائک کروں یا نہ کروں؟ فرمارہے تھے کہ زندگی میں ایک شخص ایسا ضرور ہونا چاہئے جو آپ کے دل کی بات کہے بغیر ہی سمجھ جائے۔ آج میں نے کمنٹ دیا کہ ’’ہم سفر سے رازِ دل کہنے کو ہے درکارپیج۔‘‘ایساپیج جہاں کوئی اس کا جواب نہ دے۔ وہ ہے فیس بک جو آپ کو ہر وہ چیز فراہم کررہی ہے جس کی ضرورت نہیں اور ہر اس چیز سے آپ کو دور کررہی ہے جس کی آپ کو اصل معنوں میں ضرورت ہے ۔ فیس بک تجھے سلام تو نے وہ کردیا جو میں نہ کرسکی، وہ کہہ دیا جو میں کبھی نہ کہہ سکی۔ بے یقینی کو یقین میں بدل دیا کہ انسان ایسا بھی بدلتا ہے ۔اس کی سادگی، اس کی سچائی نے اس کو جو نعمت عطا کی تھی وہ اس سے کیسے چھین لیتا ہے اس سے پہلے ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ازدواجی بندھن میں کیا ضروری اور کیا غیرضروری ہے مگر زندگی میں وہ سب کچھ تھا جس سے ہم خوش رہتے تھے اور بہت کچھ ہے کہنے ، سننے اور بتانے کو مگر وقت نہیں رہا ۔ ہماری بہترین چیز کو تونے ایسے لے لیا جیسے وہ ہماری تھی ہی نہیں۔ پہلے ہم تیرا مذاق بناتے تھے ،اب تو نے ہمیں مذاق بنادیا۔

شیئر: