Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیٹی کی منگنی کیا ٹوٹی،یوں لگا بھرم ہی ٹوٹ گیا

بابا! امی جان نے مجھ سے جب روٹی پکوانی شروع کی تو میری تکونی روٹی میری ہی پلیٹ میں رکھ کر کہتیں کہ یہ اٹلس جو  بنایا ہے تو اسےخود ہی کھاؤ

زینت شکیل ۔ جدہ

- - - - - - - - - -  - -

وہ اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ جمع کراکر آئی تو یکدم فون کی بیل گونجی ، اماں نے کچن سے ہی آواز دی ’’تمہارے بابا جان کا فون ہے اٹھالو تم سے کوئی ضروری بات کرنی ہے انہیں، وہ خوشی خوشی فون اٹھا کر پر جوش لہجے میں اپنا تھیسس مکمل ہوجانے کی بابت بتانے لگی اور یہ بھی پوچھنے لگی کہ بابا جان آپ نے کس دن کی فلائٹ میں بکنگ کرائی ہے۔ انہوں نے چند دن بعد کا بتایا اور پوچھا تمہاری کلاس میں فلاں فلاں نام کے لڑکے ہیں انکے والدین کا فون میرے پاس آیا ہے تمہاری اماں نے میرا نمبر ان کو دیا تھا۔

اب تم یہ بتاؤ کہ ان تینوں میں سے میں کس نام کو منتخب کروں؟ وہ سوچنے لگی کہ اس کا جواب وہ کیسے دے سکتی ہے ؟وہ تو کسی کو زیادہ جانتی نہیں۔وہ سوچ کر بولی بابا جان جو آپ مناسب سمجھیں فیصلہ کرلیں کیونکہ میں تو کسی کو خاص نہیں جانتی۔ انہوں نے کہا وہ لوگ تو بتارہے تھے کہ ایک ہی گروپ میں تم لوگ کام کرتے ہو، ہاں ہر جگہ تو ہم بس بھر کر جاتے ہیں۔یوں فیلڈ ٹرپ میں آنے جانے سے بھلا کون کس کو جان لے گا۔رہیں کلاسز اور تھیسس، تومیں نے اتنی جلدی یعنی ریکارڈ وقت میں تمام کورسز مکمل کئے اور پھر تھیسس مکمل کرکے جمع بھی کرادیا۔ایسے میں آدمی ایک ہی کام کرسکتا ہے یا تو پڑھائی پر پوری توجہ دے یا پھر ارد گرد کی معلومات کرتا رہے۔ انہوں نے کہاکہ چلو ایک بات کا جواب دے دو ،تم گاؤں میں گزارہ کرسکتی ہو؟ کیونکہ جو رشتہ مجھے زیادہ اپیل کررہا ہے، وہ بتارہا تھا کہ اپنے گاؤں جاکر وہیں رہائش کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس نے سوچتے ہوئے کہا ،وہاں بجلی، پانی تو ہوگا ناں؟اس بات پر بابا جان کے جاندار قہقہے نے اسے بھی ہنسنے پر آمادہ کردیا۔ جتنی معصومیت سے وہ پوچھ رہی تھی، اس کی امی جان بھی قریب ہی بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھیں۔ وہ اچانک بات کاٹ کر کہنے لگیں کہ تم باپ بیٹی جب فون پر باتیں شروع کرتے ہو تو کسی کو فون دینا بھول ہی جاتے ہو۔وہ اپنے بابا جان سے شکایتاً کہنے لگی کہ بابا! امی جان نے مجھ سے کئی دن سے روٹی پکوانی شروع کردی ہے اور ظلم دیکھیں کہ میری تکونی روٹی میری ہی پلیٹ میں رکھ کر کہتی ہیں کہ اٹلس بنایا ہے تو خود ہی کھاؤ ۔میں نے کل جب قیمہ آلو پکایا تو آلو نجانے کہاں غائب ہوگئے ، وہ گاڑھے سالن کی صورت میں کچھ اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہے تھے تو وہ بھی میرے آگے رکھ کر کہنے لگیں کہ اب تم اسے پورے ہفتے کھاکر ختم کرنا ،میں تو ایسا سالن نہیں کھاؤں گی۔

بابا جان کا قہقہہ گونجا تو بیٹی پھرپوچھ بیٹھی کہ بابا!آپ آئیں گے تو میرے ہاتھ کا پکا کھانا تو کھائیں گے ناں! چاہے جیسا بھی بنے ؟وہ موقع کی تلاش میں تو تھے۔ کہنے لگے کہ جب تو ہم گپ شپ لگائیں گے۔ ایسا کرو آج سے ہی تم پراٹھے، پوریاں، آلو بھری، دال بھری اور قیمہ بھری سب بناتی جاؤ اور توے پر سینک کر ٹھنڈا کرکے فریز کردو۔ جب میں آؤں گا تو فرائی کرلینا، ویسے تم اپنی اماں سے انڈے کا حلوہ اور چنے کی دال کا حلوہ بھی سیکھ لو۔ میں آکر ٹرائی کروں گا ۔اچھا بنا تو فل مارکس دوں گا۔ وہ ماں کو فون دے کر جوشیلے انداز میں کچن میں داخل ہوئی۔ جو کام امی جان نے کبھی کبھار کروایا تھا ،اب وہ سارے کام اپنے والد کی محبت میں کرنے پر تیار ہوگئی تھی۔

اس کی منگنی میں کلاس کے کئی ساتھیوں نے شرکت کی اور پوری کلاس نے ٹریٹ کا مطالبہ کردیا۔ سب ایک دوسرے کی فیوچر پلاننگ ، ریسرچ ورک اور جاب کے تعلق سے بات چیت کررہے تھے۔ ان مہمانوں میں وہ دونوں امیدوار بھی موجود تھے جنکی فیملیز نے اس کے گھر رشتہ بھیجا تھا۔ اب وہ اکثر فون کرنے لگا تھا ۔وہ کبھی بات کرلیتی کبھی مصروفیت کے باعث نہ کرتی تو اسے موقع مل جاتا۔وہ آنٹی کو بار بار فون کرکے یہی پوچھتا کہ وہ کہاں گئی ہے، کہاں سے اتنی دیر سے واپسی ہوئی ؟پرانے گروپ سے ملاقات تو کہیں نہ کہیں ہوتی ہوگی ۔ وہ اس کی تفصیل جاننے کے لئے بے چین رہتا ۔وہ قدرتی طور پر پریشانی میں گھر گئی تھی۔ اس لئے اپنے بابا کو فون پر بتارہی تھی کہ بابا میں بہت پریشان ہوں ۔

انہیں بھی کچھ کچھ اندازہ تھا بیگم سے بات چیت میں معلوم ہوگیا تھا کہ وہ حد سے زیادہ دن رات کا حساب کتاب مانگنے لگا تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہم جلدشادی کی تاریخ طے کردیتے ہیں۔ اب جب فون کیا گیا تو اس سلسلے میں جواب ملا کہ ابھی تو کوئی جاب نہیں ہوئی۔ شادی اپنے بیٹے کی کیسے کرسکتے ہیں ۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ جواب لڑکے کی طرف سے ہی دیا گیاتھا۔ منگنی ختم کرکے نیا رشتہ تلاش کرلینے کا مشورہ دیا گیا اور انہوں نے غصے میں آکر اس فیصلے پر مہر ثبت کردی کہ یہ رشتہ یا منگنی ختم ۔ بات معمولی نہ تھی ۔سارے کلاس فیلوز کو فوراً ہی معلوم ہوگیا کہ یہ منگنی ٹوٹ گئی ہے ۔ وجوہ پر زیادہ غور نہیں کیا گیا، بس یہی خبر کافی تھی کہ جو رشتہ بڑے چاؤ سے چناگیا تھا بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ ان دونوں کو بھی خبر پہنچ گئی اور وہ دونوںجو پہلے اسے اپنی زندگی کا حاصل قرار دے کر رشتے کی قبولیت کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے، اسکی مدد کو آگئے نہ بڑھے۔ شاید انہیں دلی اطمینان نصیب ہوا تھا کہ جنہوں نے ہمیں لفٹ نہیں کرائی تھی، انہیں بھی کوئی لفٹ نہیں ملی۔

عجیب صورتحال بن گئی ۔3 سال یونہی جاب کرتے گزرگئے اور اب وہ ماہر خانہ داری کے ساتھ ایک سائنس دان کی حیثیت سے جانی جانے لگی تھی لیکن جو آتا منگنی کے ٹوٹنے کا سبب تفصیل سے دریافت کرتا اور دوبارہ پلٹ کر آنا بھول ہی جاتا۔ یہی مشغلہ لوگوں نے اپنا لیا تھا اور اس کے والدین سوچ رہے تھے کہ ان کی بیٹی کی منگنی کیا ٹوٹی،یوں لگ رہا ہے جیسے سارا بھرم ہی ٹوٹ گیا۔ ان کی ا تنی پیاری بیٹی ، ایسی مثالی خوبیوںکی مالک، جس کا رشتہ حاصل کرنے کے کئی امیدوار تھے، وہ سب کیا تھا ؟ کیاوہ سب صرف نمبر بنانے کیلئے تھا،اس میں خلوص کا گزر بالکل نہیں تھا؟جاننا چاہئے کہ منگنی کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔

شیئر: